وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود نے اطلاع دی ہے کہ چار ماہ سے مسلسل ماہانہ پاکستانی برآمدات 2ارب ڈالر سے زائد ہو رہی ہیں۔ قومی برآمدات میں اضافہ کی اطلاع خوش کن ہے۔ حکومت کے لیے یہ امر اس لحاظ سے اطمینان بخش ہو سکتا ہے کہ صنعتکاروں کو بجلی و گیس اور مختلف ٹیکسوں کی مد میں خصوصی رعایتیں دی گئیں۔ پیداواری شعبے نے ان مراعات کو خوش آئند قرار دے کر حکومت کو مثبت نتائج دینے کا وعدہ کیاتھا۔برآمدات میں یہ اضافہ اسی سلسلے کی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم بجا طور پر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ برآمدات میں اضافہ اسی صورت فائدہ مند ہو سکتا ہے اگر صنعتی شعبے کو متحرک کر دیا جائے۔ پاکستان کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ گزشتہ 8ماہ سے تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم کا حجم بھی ماہانہ 2ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکا ہے۔ یوں قرضوں اور کورونا کے باعث سست رفتار معیشت سے جو مالیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ان سے نجات کی امید ابھری ہے۔پاکستان کئی برادر مسلم اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی استعداد رکھتا ہے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان اور قطرکے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کے دوران کمی ریکارڈکی گئی ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں قطرکوپاکستانی برآمدات میں 37.42 فیصداضافہ جبکہ قطرسے درآمدات میں 153.39 فیصدکی کمی ہوئی ، دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں مجموعی طورپر122.70 فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے۔سٹیٹ بینک کی جانب سے اس حوالہ سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جولائی سے نومبر2020 تک کی مدت میں قطرکوپاکستانی برآمدات کاحجم 63.63 ملین ڈالرریکارڈکیاگیاجو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 37.42 فیصدزیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں قطرکوپاکستانی برآمدات کاحجم 46.30 ملین ڈالر ریکارڈ کیاگیاتھا۔ نومبر2020 میں قطرکوپاکستانی برآمدات کاحجم 12.54 ملین ڈالرریکارڈکیاگیا۔ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسیوں میں سے ایک ٹیکسٹائل سیکٹرکو متحرک کرنا ہے ۔پاور لومز ریجن فیصل آباد میں پیداوار بڑھ گئی ہے۔ جو لومز بند تھیں وہ بھی چل رہی ہیں۔ پاور لومز ایسوسی ایشن کیمطابق اس ریجن میں تین لاکھ سے زائد پاور لومز تھیں جن میں سے بجلی بحران اور برآمدات کم ہونے سے 70ہزار سے زائد پاور لومز بند ہوئیں لیکن گزشتہ چند ماہ میں آرڈرز زیادہ ملے جس سے نہ صرف پیدوار میں اضافہ ہوا بلکہ نئی پاور لومز لگانا پڑیں ۔بتایا جاتاہیکہ اس کی سب سے بڑی وجہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کپڑے کیطلبکے مطابق سپلائی نہیں ہونا ہے۔ بعد ازاںمعمول سے زیادہ طلب کے باعث پاکستان کو اضافی آرڈرملے۔ موجودہ حکومت نے صنعتکاروں کے دو سو ارب روپے واپس کرنا شروع کیے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران چین اور بنگلہ دیش سے بھی آرڈر مل رہے ہیں۔گزشتہ ایک ماہ میں دو ارب تیس کروڑ ڈالر کی برآمدات ہوئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں دی گئی رعایت اور اضافی ٹیکس ختم کرنے سے صنعتکاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال کی نسبت نومبر دسمبر 2020 سے طے شدہ حد سے زیادہ بجلی خرچ ہونے پر پچاس فیصد فی یونٹ نرخ کم کیا گیا جس سے صنعت کو کافی مدد ملی۔ٹیکسٹائل سے وابستہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ معیاری کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی سے یہ خطرہ موجود ہے کہ ملک میں کپاس کی طلب پوری کرنے کے لئے اس کی درآمد کرنا پڑ سکتی ہے ۔اس خدشے کی بنیاد یہ ہے کہ چند سال پہلے تک ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھ پیداہو رہی تھیں جو کم ہوتے ہوتے 90 اور 2020 میںمحض 70لاکھ گانٹھ تک آگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاٹن اور دھاگے کی دوسرے ممالک سے درآمد بڑھے گی اور پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا۔اس طرح زر مبادلہ میں بھی کمی ہوسکتی ہے اس لئیحکومت کو ہنگامی بنیادوں پر کپاس کی پیداوار کم از کم ڈیڑھ کروڑگانٹھ تک یقینی بنانا ہوگی۔مشیر تجارت عبدالرزاق داود نے جنوری میں برطانیہ کے لئے برآمدات بڑھنے کی اطلاع دی تھی ۔ان کا کہنا تھاکہ گزشتہ برس جولائی تا دسمبر برطانیہ کو پاکستانی برآمدات میں 21 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس سے گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں برطانیہ کے لئے 85 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی پاکستانی برآمدات تھیں۔مشیر تجارت کا کہنا تھاکہ ماہ دسمبر میں برطانیہ کو پاکستانی برآمدات میں 47 فیصد اضافہ ہوا اور دسمبر 2020 میں برطانیہ کو پاکستانی برآمدات 18 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ہوئیں جبکہ دسمبر 2019 میں برطانیہ کو برآمدات کا حجم 12 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھا۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان جغرافیائی طور پر ایسے خطے میں ہے جہاں سے ساری دنیا کے لیے تجارتی راستے گزرتے ہیں، پاکستان کی نوجوان افرادی قوت اور ہر نوع کا خام مال دستیاب ہونے کے باوجود ہماری تجارت ابھی تک تیس ارب ڈالر نہیں ہو سکی ،ہمارا ہدف اگلے دو سال میں 100ارب ڈالر تک ہونا چاہئے ۔ پاکستان کو سی پیک اور گوادرپورٹ کی سہولت دستیاب ہو چکی ہے۔ ملک میں زراعت سے لے کر ہائی ٹیک انڈسٹری تک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ یہ سب حوصلہ افزا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران، خلیج کے عرب ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور افریقی منڈیوں میں اپنے مال کی گنجائش ڈھونڈی جائے۔ ترسیلات زر اور برآمدات سے حاصل رقوم میں اضافہ اور استحکام آنے سے ملکی معیشت کو مستحکم ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔