ورلڈ بینک کے مالی شمولیت کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2021 میں پاکستان کے مالی اداروں نے ملک کی %40 غریب ترین آبادی کے محض %3.3 افراد کو کوئی مالی قرضہ دیا۔ جبکہ یہی شرح چین میں %38.9، ترکی میں %24.4، بنگلہ دیش میں %16.8، انڈونیشیا میں %16.7، ہندوستان میں %10.5 اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں %11.9 ہیں۔ اگر ہم ملکوں کی %40 غریب ترین آبادی کے دیگر مالی شمولیت کے اشارات کا جائزہ لے، جیسے کہ بینک اکائونٹ، ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ، موبائل منی اکائونٹ، بینکوں سے رقومات کی ترسیل یا بینکوں میں بچتیں جمع کرنے کا رحجان ہو۔ پاکستان کی پوزیشن ان ساری اشارات میں اپنے جیسے ممالک کی گروپنگ میں سب سے نچلے درجوں پر ہے۔ اب سوال ان منفی رحجانات کے اسباب پر اٹھتا ہے۔ مگر اس جواب سے پہلے ہم ذرا مالی اداروں کے ڈھانچے پر نظر ڈالتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے تحت پاکستان میں 29 کمرشل بینک اور 24 دیگر مالی ادارے کام کررہے ہیں۔ ان بینکوں اور مالی اداروں کو اسٹیٹ بینک کڑے ضوابط کے تحت قائم اور کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ بینکنگ لائسنس کے قوانین کے تحت مالی طور پر مستحکم اور کاروباری لحاظ سے تجربہ کار گروپوں ، جن کے ساتھ منجھے ہوئے بینکروں کی ٹیم ہو، کو ہی اسٹیٹ بینک بینکنگ لائسنس عطا کرتا ہے۔کیونکہ شرائط سخت ہوتی ہیں اور اسٹیٹ بینک ملک میں بینکوں کی تعداد کو محدود رکھتا ہے، تو ایک لحاظ سے مالی مارکیٹ میں چند بینکوں کی موجودگی کی وجہ سے انہی بینکوں کو اجارہ داری کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ مگریہ کوئی اچھپنے کی بات نہیں ہے، عالمی سطح پر بینکنگ سیکٹر کو اسی طرح ریگولیٹ کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ بینکوں اور مالی اداروں کا قائم اور آپریشن بھاری سرمایہ کاری کے متقاضی ہوتے ہیں۔اجارہ داری ان کو منافع کمانے میں کچھ تحفظ عطا کرتی ہے۔ یہ سرمایہ داری جسم کو انتہائی زک پہنچا سکتا ہے، جو کسی بھی حکومت کی متوازن اور بہتر معیشت کی کاوشوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ شاید ہمارے بینکنگ سیکٹر کی اجارہ داری کی حیثیت ہماری معیشت میں پھیلائو کے لیے مہمیز کا کام کرنے کے بجائے اس کی مسابقتی قوت کو کم کرنے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اور اوپر فراہم کردہ اعدادوشمار اس مفروضے کے حق میں ثبوت کے طور پر استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اب ہم پاکستانی بینکنگ سیکٹر کے ان رحجانات کے اسباب کے گذشتہ سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب پاکستان میں طرز حکمرانی اور معیشت میں اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ا ب آپ کہیں گے کہ اس میں کونسی نئی بات ہے ، بیشمار دانشورانِ عقل و دانش کب سے ملکی ماحول کے بارے میںیہ فرما رہے ہیں۔ مگر یہ علیحدہ بات ہے کہ نبض پر انگلی رکھنے کے باوجود وہ اس استحصالی نظام کا کچھ اکھاڑ نہیں پائے ہیں۔ اکھاڑ پچھاڑ کا تو ہمارا بھی کوئی ایسا ارادہ نہیں ہے، بلکہ ایک چھوٹی سی کاوش ہے کہ اپنے معمولی فہم کے دانست کچھ حقائق قارئین کے سامنے پیش کرے اور ہمارے جیسے دیگر ملکوں کی کامیاب کوششوں کو مثال بناتے ہو ئے اپنے ملک کے معروضی حالات کے مطابق کوئی راستہ تجویز کرے۔ اب ہمارے لیے لازم ہے کہ بینکنگ سیکٹر میں اشرافیہ کے قبضے کے متعلق کوئی ثبوت بھی پیش کرین، ورنہ یہ بات ہوائی تصور کی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہم پاکستان کے بینکنگ ریگولیٹر، اسٹیٹ بینک، کے کچھ اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ سال 2021 میں پاکستان کے بینکوں کے کاروباری قرضوں کے پورٹ فولیو کی مالیت ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے پر محیط تھی، جو کہ 39 لاکھ قرضداروں میں تقسیم کیے گئے۔ شماریات کا مزید تجزیہ انہیں دلچسپ بناتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 54,300 قرضداروں کا ، جو کل تعداد کا %1.4 بنتے ہیں، کل قرضوں میںحصہ %84 ہے۔ اور اگر ہم مزید گہرائی میں جائے تو پاکستانی بینکوں نے اپنے قرضوں کا تقریباََ نصف حصہ محض 2,300 پارٹیوں میں تقسیم کیا، جو کہ کل قرضداروں کا صرف %0.06 بنتا ہے۔ اور بینکنگ سیکٹر کے ڈپازٹ ہولڈروں کی تعداد چھ کروڑ اور انتیس لاکھ ہے۔ ان اعداد وشمار سے یہ بات تو ثابت ہے کہ پاکستان کا بینکنگ سیکٹر ارتکاذ ِ دولت میں بہت زیادہ مدد فراہم کر رہا ہے اور ملک میں قرضوں کے متوازن پھیلائو میں روکاوٹ ہے۔ یہاںیہ بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے کہ بینکنگ سیکٹر کے اعلٰی عہدے داران پاکستان میں اشرافیہ کے قبضے کے اہم مددگار بلکہ کردار ہیں۔ کچھ مائیکرو فنانسس بینکوں کو اس سلسلے میں تھوڑی بہت استثنا حاصل ہو، جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہونگے۔ورنہ چاہیے روایتی بینک ہو یا اسلامی بینک ہو ، غریبوں کے لیے رویوں میں نظراندازی سب کے یہاںیکساں ہے۔ ہم بنگلہ دیش کی ترقی کا تو بہت ذکر کرتے ہیں اور اس کی وجوہات کی کھوج میں بھی لگے رہتے ہیں۔ مگر وہاں کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کی غریبوں کی مالی شمولیت میں بڑوتی میں اعانت پر ہماری توجہ کچھ کم ہی رہتی ہے۔ شاید ہمارے بینکروں کو آستینیں اوپر کر کے غریب آستانوں پر خدمات فراہم کرنے کی عادت نہیں ہے۔ یہ حقیقت انہیں روز روشن کی عیاں ہونی چاہیے کہ اگر وہ پاکستان کے غریبوں کومالی سہولتیں فراہم نہیں کرینگے، ان کو باضابطہ معیشت کا حصہ بننے میں مدد نہیں دینگے اور خاص طور پر اگر ان کی عزت نہیں کر ینگے، تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں ان کے ساتھ کاروبار کرنے والے زیادہ لوگ نہیں بچیں گے۔