ہم بھی کیا عجیب قوم ہیں ؟کیا قومیں ایسی ہوتی ہیں ؟کیا ملکی نظم و نسق چلانے والے اپنی عوام کو چوبیس گھنٹے اتنی غیر یقینی صورت حال سے دوچار رکھتے ہیں ؟کیا حقائق جاننا ہم سب کا حق نہیں ہے ؟کب تک یہ ملک چند ایک لوگوں کے مفادات پہ چلتا رہے گا ؟سب کو اپنی اپنی بقا کی پڑی ہوئی ہے ۔کوئی ایک بھی اپنے ذاتی مفاد کی چکی سے باہر نہیں جھانک پاتا ۔ستم در ستم کہ جن معاملات کو آئین ایک ڈھال فراہم کرتا ہے وہ بھی چند ایک لوگوں کی من مانیوں کے نظر ہوجاتے ہیں۔جمہوری معاشرے ارتقائی عمل کو قبول کریں تو بقا اور اصول ،اخلاق اور رسوم جنم لیتی ہیں ۔جمہوریت کیسے ترقی کرے گی؟جب ہم خود اپنے اطوار کو نئے رنگ و آہنگ میں نہیں ڈھالیں گے تب تک ہم اسی مخمصے کا شکار رہیں گے ۔اس وقت تک یہاں جمہوریت خطرے میں ہی رہے گی ۔چوبیس گھنٹے خطروں اور مسائل میں سانس لیتی جمہوریت سیاست دانوں کی اپنی نا اہلیوں کی وجہ سے ثمر بار نہیں ہو پاتی ۔ابھی حال ہی کی تو بات ہے کہ سینیٹ الیکشن کے دنوں میں ایک ہنگام بپا تھا ۔نون لیگ نے دو،تین ماہ تو سانس نہیں لینے دیا کہ ہم سے سینیٹ چھینا جا ر ہا ہے ایاز صادق کے انٹرویو نے سرخی بنائی تھی اس روز کہ بس دل خفا ہے لگتا ہے کچھ ہونے جا رہا ہے ۔ جو ہونے جا رہا ہے وہ اچھا نہیں ہے ۔لیکن پھروہ ہیجان بھی دم توڑ گیا اور بل آخر سینیٹ کے الیکشن ہوگئے ۔اب ایک بار پھر وہ طوفان ہے اس سے شورشیں جنم لیتی ہیں ۔نئے نئے قیاس اور زاویوں سے گماں کشید کئے جاتے ہیں کہ اب عام انتخابات نہیں ہوں گے ۔ ایک بار پھر وہی صورت حال ہے کیا الیکشن ہوں گے ؟کیا الیکشن وقت پہ ہوں گے ؟اب کیا ہوگا ؟ہم بحیثیت قوم ان ہنگامہ خیزیوں کو اتنی سہولت سے گوارا کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی بات ہی نہ ہو۔جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ۔کاش کبھی کسی جمہوری معاشرے سے بھی ہمارے سیاست دان منہ لگاتے تو ان کو لگ پتہ جاتا کہ جمہوریت میں روایات اور اخلاقیات کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے ۔ہم ملکی معاملات سے فہم و فراست کو جس سطح سے دیکھتے ہیں وہ شاید ابھی اولیں مرحلوں میں ہے ۔ہمیں اس سے آگے بڑھنا چا ہئے ہمیں اگر اس ملک میں کسی ایک نظام کو بحیثیت نظام قبول کرنا ہے تو اس پہ اتفاق ایک قومی اتفاق کرنا چاہیے ۔کیا ایسا پہلی با ر ہو رہا ہے ۔نہیں ایسا بار ہا ہو چکا ہے ۔ہماری سیاسی جماعتیں ہر معاملے کو اپنے ذاتی مفاد کے دھاگوں سے باند ھ کر چلتی ہیں اس میں ملک اور عوام کا کوئی خاص درجہ نہیں ہوتا ۔ طویل مکالمے کے بعد نگران سیٹ اپ تشکیل پا رہا ہے ۔نگران وزیراعظم اپنے عہدے کا حلف لے چکے ہیں ۔ہم الیکشن سے چند قدم کی دوری پہ ہیں لیکن اجتماعی شعور اور اتفاق کہیں بھی نہیں ۔الیکشن جمہوری ارتقاع شرط اول اور شفاف الیکشن جمہوریت کی روح ہے ۔جمہوریت کا پہلا قدم شفاف الیکشن کے دروازے کی طرف بڑھتا ہے ۔شفاف الیکشن ہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہوتے ہیں ۔ہم اب بھی اگر اس عوام کو شفاف الیکشن دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے ہم سے میری مراد وہ ادارے جن کا کام الیکشن کروانا ہے تو پھر ان کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا ۔ آئین کے آرٹیکل 224کے تحت نگران وزیر اعظم نے حلف لے لیا ہے ۔آئین کی رو سے اس سیٹ اپ نے 60روز میں جنرل الیکشن کروانے ہیں ۔اس سیٹ اپ کا قیام گو کہ چند ایک ملکوں میں ہی رائج ہے کی بنیادی ذمہ داری کسی بھی غیر شفافیت کے عمل کو الیکشن پہ اثر انداز ہونے سے روکنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 219الیکشن کمیشن کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ ساتھ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کروانے کا پابندہوتاہے ۔ اسی طرح آئین کا آرٹیکل 220وفاق اور صوبوں کی تمام ایگزیکٹیو اتھارٹیز کو الیکشن کمیشن کی الیکشن کروانے میں مدد کی تلقین کرتا ہے ۔تما م اداروں کے آئینی اختیارات اگر الیکشن کے عمل سے پہلے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت استعمال ہوجائیں تو کیسے دو نمبر لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے ؟اگر ایف بی آر قومی نمائندے بننے والوں کے ٹیکس گوشواروں کی تحقیق کرے اگر نیب ان کی کرپشن کے کیسز کو کسی بند اور اندھے کنویں میں نہ ڈالے ،ان سے پلی بارگین کر کے ان کو کلین چٹ نہ دے تو یہ کیسے گھس سکتے ہیں اسمبلی میں ؟جب یہ تمام ادارے الیکشن سے قبل ایسی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہیں تو پھر سپریم کورٹ کو اقامے ڈھونڈنے کے لئے جے آئی ٹیز تشکیل دینا پڑتی ہیں ۔پھر یہ ظفرحجازی اور قمر زمان ٹائپ لو گ بے نقاب ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک بہت کچھ ہم سے کھو چکا ہوتا ہے ۔ ابھی جب معاملات درست سمت میں جانے لگے تھے یقین ہو چلا تھا کہ اب الیکشن ہو جائیں گے تو ایک نئے انداز میں ہنگام آن پہنچا ہے ۔مردم شماری کے نتائج الیکشن کمیشن کو اگر بر وقت موصول ہو جاتے اور حلقہ بندیاں اور پھر ان پہ اٹھنے والے اعتراضات بھی ایڈرس ہو جاتے تو کیا آج ایسی قباحتیں جنم لیتیں ۔بلوچستان سے اسمبلی میں قرارداد آجاتی ہے کہ بارشیں ہونگی اور لوگ حج پہ ہوں گےَ ؟کیا ہے کوئی اس کی وضاحت ؟جہاں سماوی آفات ہوں تو وہاں سرگرمی نہیں ہونی چاہئے ؟کیا ہمارا سیاسی شعور ابھی یہاں تک ہی پہنچ پایا ہے ؟اقوام اپنے ارتقائی عمل کو مشروط کر دیتے ہیں کیا کہیں کوئی بھی ایسی قوم ؟ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ آئین سے متصادم مصلحتیں صرف پاکستان میں ہی ہو سکتی ہیں بے شمار تاریخی واقعات ہیں کہ قوم کسی بھی بیرونی آفت سے لڑنے میں اپنے اندرونی معاملات کومصلحت کوشی کی نذرکر دے تو اس قوم کا نظم و نسق رک جاتا ہے ۔ کہیں مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا جا رہا ہے تو کہیں حلقہ بندیوں کو ۔اس وقت ملکی سیاسی منظر نامے پہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن ہوں گے ؟اس ایک سوال کے جواب کی ضمانت کے ساتھ ملک کے وسائل اور سٹاک ایکسچینج پہ کتنا فرق پڑتا ہے اس سے کسی کو سروکار نہیں ہے ۔غیر یقینی صورتحال سیاسی جماعتوں کو سوٹ کرتی ہے ۔ اس وقت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے اپنا آئینی کردار ادا کریں اس قوم اور ملک پہ رحم کریں ۔الیکشن کے لئے راستہ بنائیں ہم سب کا ہے یہ ملک کسی ایک گرہ یا سیاسی جتھے کا نہیں سب کو قبول کرنے کی گنجائش بنائیں ۔اس وقت اگر الیکشن نہ ہوئے تو اس کی ذمہ داری اداروں کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں پہ بھی اتنی ہی آئے گی ۔نون لیگ الیکشن چاہتی ہے اس کا یہ عمل لائق تحسین ہے ،پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے نگران ویراعظم کا نام فائنل کیا ہے یہ ایک خوش آئند ہ عمل ہے کم از کم یہ معاملہ پہلے کی طرح الیکشن کمیشن کے پاس نہیں گیا اسی طرح دیگر صوبائی سیٹ اپ بھی تشکیل پا رہا ہے ۔ملکی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی الیکشن میں التوا کی کو شش کی گئی حالات خراب ہوئے چاہے ستر کی دہائی یا نوے کی ۔ اس وقت تمام اداروں کو الیکشن کمیشن سے تعاون اور تمام سیاسی جماعتوں کو الیکشن کے بر وقت انعقاد پہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ایک قومی اتفاق رائے کرنا چاہئے اور الیکشن سے پہلے کے عمل کو کسی بھی غیر یقینی صورت حال سے دوچار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری نون لیگ پہ ہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو ہینڈل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔کل اگر کسی بھی غیر معمولی حالت میں سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی فیصلہ آگیا تو نون لیگ سب سے زیادہ شور مچائے گی۔اگر الیکشن کا کچھ عرصے کے لئے التو اء شکار ہو نا بھی ہے تو سیاسی جماعتوں کی مشترکہ مفاہمت سے ہونا چاہئے ۔ہا ں حلقہ بندیوں کے کچھ مسائل ہیں مردم شماری کے حوالے سے کسی بھی صوبے یا سیاسی جماعت کو تحفظات ہیں تو وہ اتفاق رائے سے طے پانا ضروری ہیں ۔اگر ہماری سیاسی جماعتیں اس طرح دست و گریباں رہیں او ر انجام الیکشن کے التواء کی صورت میں سامنے آیا تو اس کا خمیازہ یقینی طور پہ سیاست دانوں کو بھگتنا پڑے گا دوسری طرف جتنا الیکشن کا ہونا ضروری ہے اتنا ہی شفاف الیکشن بھی ضروری ہیں ۔ایسے حالات ہوں کہ ووٹر اپنی آزادی اور سہولت کے ساتھ ووٹ دے سکے۔ا لیکشن سے قبل تمام سیاسی جماعتوں پہ لازم ہے کہ سب مل کر کوئی حل نکالیں۔