تجزیہ:سید انور محمود براڈشیٹ کتنی وسیع ہے ؟ یہ کتنی گہرائی اور اندر تک ہے ؟ ہمارے سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کو سنیں اور اس موضوع پر ان کے بیانات اور تبصرے پڑھیں، تو کوئی بھی اہم اور قابل ذکر نہیں ہے ۔ آج میڈیا اور دیگر سیاستدان، اپوزیشن، ان لوگوں کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے براڈشیٹ کو خفیہ اثاثوں کا کھوج لگانے کا ٹاسک سونپا۔یقیناً یہ ایسا معاملہ ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہئے ، اسکی نیت اور ارادے کیلئے نہیں بلکہ اسکے مواد کیلئے تاکہ معاہدے کے نقائص کا پتا لگایا جا سکے اور اس کیلئے بھی کہ یہ کیوں تھا اور کون تھا۔ لیکن یہ چیز ضمنی ہو گئی ہے ۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ کیوں؟ اور یہ ٹاسک بذات خود بھی اہم ہے ۔ افسوس، ہم جو کئی پارٹیوں اور فریقوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہم سب نے پیغام کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنی بندوقوں کا رخ پیغام اور خبر دینے والے کی جانب کیا ہوا ہے ۔ہم میں سے ایک اچھی خاصی تعداد صرف لندن ہائیکورٹ کے فیصلے کے معاشی نقصانات پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ۔ پاکستان کو معاہدہ توڑنے کے پاداش میں ایک اچھی خاصی رقم بطور جرمانہ ادا کرنا پڑی، اس معاملے کو بغیر تحقیق کئے اور بنا سزا دئیے نہیں جانے دینا چاہئے ۔لیکن جو چیز زیادہ اہم ہے کہ ہمیں ضرور خرابی کی جڑ کی طرف دیکھنا ہوگا اور خفیہ اثاثوں کے بنیادی ایشو پر بات کرنا ہوگی۔عشروں سے اب تک پاکستان کو بیدردی سے لوٹا گیا اور لوٹا گیا مال باہر محفوظ کر دیا گیا۔وہ سرے پراپرٹی ہو یا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس، مین ہٹن پراپرٹی ہو یا سوئس اکاؤنٹس، ان تمام کے متعلق اب معلوم ہو چکا ہے جو پہلے نہیں پتا تھا۔ ایک جگہ ان کی ملکیت سے انکار کیا جاتا ہے تو دوسری جگہ قبول کر لیا جاتا ہے ۔ کچھ سال قبل اس وقت کے صدر مشرف کے سینئر اور قریبی ساتھی (افسوس وہ اب انتقال کر گئے ہیں)نے مجھے ایک سوئس انویسٹمنٹ مینجر کے متعلق بتایا جو دو دفعہ پاکستان آئے ، ان کا آخری دورہ مشرف کے اقتدار کے آخری دنوں میں ہوا تھا اور انہوں نے پاکستانی حکومت کو ان 350 ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کے متعلق بتانے کی پیشکش کی جو مبینہ طور پر پاکستان کے ایک اہم سیاسی خاندان نے ان کے ذریعے مختلف یورپی شہروں میں کی تھی۔بدلے میں وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی حکومت انہی کے ذریعے اس سرمایہ کاری کو ری انویسٹمنٹ کرے ۔ مشرف کے انہی مرحوم ساتھی نے مجھے بتایا کہ مشرف کے اقتدار کے آخری دن چل رہے تھے اس لئے اس پیشکش پر غور نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مشرف کی جلاوطنی کے کئی سال بعد میرے ساتھ ایک غیررسمی گفتگو کے دوران یہ انکشاف کیا تھا، میرے پاس ان پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔ میں نے اس بات کا تذکرہ صرف اس لئے کیا ہے تاکہ کرپشن کی بیماری کی گہرائی پر توجہ دلا سکوں اور اس پر کہ اس ملک کو اپنے کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں کتنا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔براڈشیٹ کے تنازع کی طرف آتے ہیں، میرے نزدیک اس معاملے کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ وہ غلطیاں ہیں، اگر ہوئی ہیں ، جو معاہدہ کرنے ، اس پر عملدرآمد اور اسے منسوخ کرنے کے دوران، دوسرا براڈشیٹ کو تفویض کئے گئے ہدف اور ٹاسک، اور تیسرا جو بہت اہم ہے ، خفیہ اثاثوں کی تفصیلات، اگر ہیں تو، جن کی نشاندہی براڈشیٹ اور ان کا مبینہ فائدہ اٹھانے والوں نے کی ہے ۔ پاکستان کو ان معاملات پر توجہ دینی چاہئے ۔ میں نے پاکستان کہا کیونکہ یہ ملک ہی ہے جسے لوٹا گیا اور یہ ملک ہی ہے جس کی حفاظت ہم نے کرنی ہے ۔ حکومت کی تحقیقات ان تین معاملات پر بھی ہونی چاہئے جن کا میں نے ذکر کیا ہے ۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر قابل احترام جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید اس تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی سے معذرت کر لیں تو یہ ان کے بہترین مفاد میں ہوگا، پھر حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرے کہ وہ تحقیقات کیلئے کسی سابق جج کو نامزد کریں۔سابق جج اس لئے کہ سپریم کورٹ کے حاضر جج کی رپورٹ سے ممکن ہے کہ وہ لوگ اپیل کی آپشن کھو بیٹھیں جو اس میں ملوث ہیں۔ یہ میرے جیسے عام آدمی کا خیال ہے کیونکہ قانونی معاملات کا میرا کوئی پس منظر نہیں ہے ۔ لیکن اگر اس طرح سے معاملات کھول کر سامنے آتے ہیں، تو یہ احتساب کی وجوہات کیلئے بہتر ہوں گے ، اسکے احساس اور اثرات دونوں حوالے سے ۔