مولانا فضل الرحمٰن سے منسوب ایک قولِ زریں یہ ہے کہ ہم سیاست میں مفادہی کمانے آتے ہیں ، نیکی کا ارادہ ہو تو رائے ونڈ جا کے چلہ لگا لیتے ہیں،اس قولِ زریں سے آشکار یہ ہوتا ہے کہ سیاست میں چلہ نہیں ،چکر دینا لازم ہوتاہے ۔ابوالکلام نے کہا تھا، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا حریف، دوست نہیں ہوتے ۔ ممکن ہے ،سیاست میں کبھی کچھ مروت بھی ہوتی ہو، آج مگر یہ عین عریاں ہو چکی۔محض بے معنی گفتگو۔ پیاز کی طرح پرت در پرت مگر بے مغز۔عام بول چال میں کہا جاتاہے، تم ہمارے ساتھ بھی اب سیاست کرو گے؟ یعنی دھوکا اور چکر بازی۔ فریب اور دھوکے کا سافٹ نام ہی شایدسیاست ہے۔چنانچہ ہم نے دیکھاکہ بھوربن میں کیے وعدوں کے متعلق زرداری صاحب کا ارشاد یہ تھا، وعدے قرآن حدیث نہیں ہوتے۔ یعنی سیاسی وعدوں ، ارادوں اور پیادوں کی حیثیت دائمی تو کیا ہونی، اصلی اورحقیقی بھی نہیں ہوتی۔ ایک اچھا لفظ گھڑ لیا گیا ، زمینی حقائق ۔ یعنی حالات کو اپنے ڈھب پر ڈھالنے کے بجائے خود حالات کے ڈھب پر ڈھل جاؤ۔ چلو تم ادھر کو ہو ا ہو جدھر کی۔ اس سے آسانی یہ رہتی ہے کہ سیاست میں بیانیے گھڑتے وقت کبھی سوچنا نہیں پڑتاکہ کل اس پر عمل کیسے ہوگا؟ قوم کو جواب کیادیا جائے گا؟ بہرحال جذباتی قوم کو خوش کرنے کے لیے جو کہنا ہو، کہہ دیا جاتا ہے،چنانچہ جس زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر جناب شہباز شریف نے گھسیٹنا تھا، وہی زرداری ایک دن میاں نواز شریف کے دسترخوان پر بیٹھے لذتِ طعام سے شادکام ہو رہے تھے۔جس شخصیت کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا گیا، انھیں پنجاب اسمبلی کے سب سے اہم منصب پر بٹھا دیا گیا۔کرپشن کے جس بادشاہ کو چھوڑنا نہیں تھا، اس پر’ رحم‘ آگیا۔ یہ تو خیر کچھ پرانی باتیں ہیں،سیاست میں تبدیلی کے پیام بر حضرت عمران خان صاحب اب بھی آپ کے سامنے ہیں۔ عمران خان کی خوبی یہ ہے کہ ہر وہ کام اب حکومت میں انھیں جو کرنا ہے ، اس کے خلاف وہ پہلے سے ہی مبلغ ایک عدد بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ سبق اس سے مگر انھوں نے اب بھی نہیں سیکھا۔آج بھی بولتے ہیں تو اسی آہنگ سے گویا تختِ حکومت پر نہ ہوں ،ڈی چوک کے ٹرک پر تشریف رکھتے ہوں۔ ہمیشہ کے لیے دلوں پر حکمرانی کرنے والے رسولِ رحمت کا ارشاد یہ تھا، من صمت نجا، جو چپ رہا ، نجات پاگیا۔ سیاست میں مگر یوں نہیں ہوتا۔ سیاست تو اب محض بول بچن پر چل رہی ہے۔ یعنی بولنا ،اور بولنا، بہت بولنا، بے وجہ بولنا،بے مطلب بولنااور زور زور سے بولنا ۔ہٹلر کے پروپیگنڈہ منسٹرگوئبلز کو اس کے ایک دوست نے اپنی فیکٹری میں مدعو کیا، جو ا س نے حال میں لگائی تھی۔ دیر تک وہ اپنی فیکٹری کے بارے میں منسٹرکو بریفنگ دیتا رہا۔مشینری کے شور میں مگر گوئبلز ٹھیک طرح سے کچھ بھی سن نہ سکا۔بات جب تمام ہو چکی تو میزبان نے پوچھا کیا آپ نے سب سن اور سمجھ لیا؟ گوئبلز نے کہا ، جو آپ نے بتایا وہ تو نہیں ،یہ مگر ضرور کہ اگر شور بہت کر دیا جائے تو پھر کوئی بھی بات دبائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ گوئبلز نے پھر اسی اصول کو اپنے پروپیگنڈے کی بنیاد بنایا۔ اس کا کہنا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ وہ سچ لگنے لگے۔سیاست میں اب شایدیہی اصول کارفرما ہے ۔ہر جماعت نے اپنے بھونپو رکھے ہیں۔ترتیب سے جو میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنی اپنی کارکردگی یعنی شور کر دکھاتے ہیں۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ جناب سردار بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔اگرچہ اب انھوں نے کچھ بولنا بھی سیکھ لیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں ایک شخص ہمیشہ چپ رہتا۔ لوگ درس سنتے توگاہے سوال بھی پوچھ لیتے ، یہ مگر ہمیشہ کا سائیں بزدار۔ایک دن امام صاحب نے افطار کا مسئلہ بیان فرمایا کہ غروبِ آفتاب کے بعدافطاری ہوگی، اس پر نگاہ پڑی تو فرمایا کبھی تم بھی کچھ پوچھ لیا کرو۔ فورا اس نے پوچھا کہ اگر کسی دن آفتاب ہی غروب نہ ہو تو افطاری کیسے ہوگی ؟ امام صاحب نے فرمایا ، نہیں تم چپ ہی رہا کرو۔ بہرحال بزدار صاحب پڑھے لکھے آدمی ہیں اور وکیل بھی۔ان کی خوبی ہمیشہ خان صاحب یہ بتاتے ہیں کہ وہ سادہ اور معصوم آدمی ہیں۔ ان کے گھر میں بجلی نہیں اور ان کا گھرجنوبی پنجاب کے اس علاقے میں ہے جس نے ترقی اور جدت کا منہ نہیں دیکھا۔خان صاحب کے خیال میں ان کا یہی تجربہ اب پورے پنجاب کو جدت اور ترقی دکھا سکتاہے۔عزم شاید یہ بھی ہے کہ پنجاب ناکام بھی رہے تو کچھ برا نہیں اگر کسی طرح ان کا مردِ درویش کامیاب ہو جائے۔یعنی گاڑی تباہ کرکے بھی اگر درویش ڈرائیونگ سیکھ جائے تو برا نہیں۔ تاہم ڈیڑھ سال میں بھی جب خان صاحب کے خیال کے بجائے بزدار صاحب ہی کامیاب رہے تو آنجناب کو اس کی وجہ یہ سوجھی کہ شہباز شریف جتنی تشہیر نہیں ہو سکی۔عدمِ تشہیر کا ایک ازالہ یہ سوچا گیا کہ فیاض الحسن چوہان صاحب وزارتِ اطلاعات کا قلم تھامے از سرِ نو مورچہ زن ہو گئے۔آتے ہی انھوں نے ٹویٹ یہ کیا کہ جس طرح اب میں اپنے لیڈر کا دفاع کروں گا، اسے دنیا دیکھے گی۔اس پر تنقید ہوئی کہ خود پی ٹی آئی میں بھی منصف مزاج بہت۔ ٹویٹ شاید اڑا دینا پڑا۔ ظاہر ہے قوم کے ٹیکس سے محض لیڈر کا دفاع کرناکوئی قومی خدمت یاکارِ ثواب نہیں ہو سکتا۔ پھر آنجناب بزدار کی طرف متوجہ ہوئے تو زور و شور سے بولے بلکہ برسے۔ بزدار تو خیر سے بنا دئیے گئے شیر شاہ سوری( خد اشیر شاہ سوری کی قبر پر رحم فرمائے)۔ فرمایا کہ بزدار کی تعریف کرتے کچھ لوگوں کی زبان جلتی ہے۔ (ادھر ہسپتالوں میں مرہم تک مفت دستیاب نہیں)تو گویا اب بزدار کی تعریف وزارتِ اطلاعات کے سرکاری زور پر کروائی جائے گی؟ تو ٹھیک ہے اسے لاگو فرما دیجئے ، بلکہ بزدار صاحب کی تعریف کے کچھ اوقات بھی مقرر فرما دیجیے ، صبح دوپہر شام کے اوقات کم ہوں تو ہر نماز کے بعد پانچ پانچ منٹ ۔ نظام سقہ اگر چمڑے کا سکہ چلوا سکتا ہے تو فیاض الحسن صاحب بزدار کی تعریف کیوں نہیں کروا سکتے؟ شیر شاہ سوری کامگر چونکہ نام لیا گیا، سوچنا یہ چاہئے کہ کیا شیر شاہ سوری آج اپنی وزارتِ اطلاعات کے بل پر زندہ ہے یا کام کے بل پر؟کبھی پتہ چل جائے گاکہ تشہیر کام کا بدل نہیں ہوتی، کبھی نہیں ہوتی ، بلکہ الٹا اکثر یہ لے ڈوبتی ہے۔ وقت بیت رہا ہے۔