جس دن پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تھا، اس اعلان کے فوراً بعد بھی پاکستان کے گلے میں نہ عزت و توقیر کا ہار پہنایا گیا اور نہ ہی دوستی کے عارضی مقام و مرتبے پر ہی ہمیں فائز کیا گیا۔ بلکہ وہ تاریخی فقرہ جو امریکی سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹیننٹ (George Tenet)نے پاکستان کے اس مکمل طور پر سرنگوں ہو کر تمام امریکی مطالبات ماننے پر کہا تھا، وہ آج بھی اور بعد میں آنے والی تاریخی دستاویزات میں بھی مشرف کی خوفزدگی اور بزدلی کی یاد دلاتا رہے گا، چاہے وہ اپنی اسی بزدلی کو کتنی ہی چرب زبانی سے ’’مصلحت‘‘ کا نام دیتا پھرے۔ جارج ٹیننٹ نے کہا تھا کہ ’’امریکی انتظامیہ نے 9/11 کے بعد پاکستان سے سات مطالبات کی ایک فہرست مرتب کی اور ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ پاکستان ان میں سے زیادہ سے زیادہ تین مطالبات تسلیم کرے گا۔ لیکن ہماری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب پاکستان نے کمال ’’عجز و انکساری‘‘ کے ساتھ ساتوں کے ساتوں مطالبات مان لئے‘‘۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہماری بزدلی کو ہماری کمزوری سمجھتے ہوئے، امریکہ نے آج تک ہمیں وفاداری اور سچی دوستی کا سر ٹیفکیٹ نہیں دیا۔ ہم نے ان مطالبات پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ وفاداری کا ثبوت دینے کیلئے بقول افتخار عارف ’’وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے‘‘۔ امریکہ کو تو ہماری سرزمین پر اڈے چاہئیں تھے، لاجسٹکس سپورٹ چاہئے تھی، خفیہ معلومات تک رسائی چاہئے تھی، نیٹو افواج کیلئے سامان و رسد کے راستے چاہئیں تھے۔ امریکہ کو اس بات سے بہت کم غرض تھی کہ ہم کس قدر سیکولر، لبرل اور مذہب بیزارمعاشرے میں تبدیل ہوتے ہیں۔ یوں تو امریکی اور مغربی ممالک کی ’’سپانسرڈ‘‘ این جی اوز یہاں موجود تو تھیں، لیکن ان کے کھل کھیلنے کا موسم مشرف دَور میں آیا۔ اس نے پاکستان کو ایک مغربی معاشرے کی بدترین نقالی کی طرف ایسا دھکیلا کہ پھر اس زبردستی کی تہذیبی یلغار کی مخالفت میں ملک بھر میں ایسے ’’لٹھ مار گروہ‘‘ اُبھرے کہ جن کا قلع قمع کرنے کیلئے پورے ملک میں ایک خونریز جنگ کا دروازہ کھل گیا۔ اس جنگ سے بھڑکنے والی آگ کے شعلوں کی ہم آج بھی لپیٹ میں ہیں۔ بزدل آدمی کی یہی پہچان ہوتی ہے کہ وہ طاقتور کے سامنے سربسجود ہو جاتا ہے اور کمزور پر چڑھ دوڑتا ہے، تاکہ خود کو نفسیاتی طور پر مضبوط رکھ سکے۔ غیرت و حمیت اور عزت و توقیر کے فیصلے میرے اللہ نے انہی کے نصیب میں لکھ دیئے ہیں، جنہوں نے اس کائنات کے مالکِ حقیقی پر یقین رکھتے ہوئے غیرت سے جینے اور عزت کی موت مرنے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔ سیدالانبیاء ﷺ نے میدانِ اُحد میں جو تلوار حضرت ابو دجانہؓ کو لڑنے کیلئے دی تھی اس پر یہ شعر کنندہ تھا۔ فی الْجُبْنِ عَارٌ، وفی الاقبالِ مَکْرُمَۃٌ وَاْلمزء بالجبنِ، لَا یَنجُوْ مِنَ الْقَدَرْ ترجمہ: ’’بزدلی عیب و شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے۔ آدمی جتنی بھی بزدلی چاہے کر لے، تقدیر سے نہیں بچ سکتا‘‘۔ بزدلی کے عالم میں بیس سال گزارنے اور مصلحت کے لبادوں میں چھپنے کے باوجود ہم تقدیر سے نہیں بچ سکے۔ نہ ہم امریکی طعنوں سے بچے اور نہ ہی ’’فیٹف‘‘ اور ’’آئی ایم ایف‘‘ کی تلوار سے،بلکہ ستر ہزار معصوم انسانوں کی جان بھی ہماری یہ بزدلی لے گئی۔اس تعداد سے بھی کم طالبان تھے، جنہوں نے غیرت سے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور پھر فتح ان کا مقدر کر دی گئی۔ طالبان کی اس فتح میں اللہ نے ہمیں ایک بار پھر اپنی جانب سے ایک عظیم نعمت بخشی ہے۔ کوئی ملک ایسا نہیں جو افغانستان میں بغیر لڑتے ہوئے کامیاب ہوا ہو،سوائے پاکستان کے۔ہمارا دُشمن بھارت جو 1947ء سے افغانستان میں قدم جمائے ہوئے تھا۔جس کا سفیر 70ء کی دہائی میں بقول جمعہ خان صوفی، اسفند یار ولی کے والد اور خان غفار خان کے بیٹے عبدالولی خان کو پیسے دے کر پاکستان میں دھماکے کرواتا تھا۔ جہاں امریکہ کی سرپرستی میں گذشتہ بیس سال ’’66 ٹریننگ کیمپ‘‘ پاکستان میں دہشت گردی کو مدد کیلئے قائم رہے۔ بھارت کی وہ ستر سالہ بساط جس میں اس کی تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی،طالبان نے مکمل طور پر اُلٹ دی۔طالبان کی فتح سے دُنیا میں صرف ایک ہی ملک کو فائدہ ہوا ہے اور وہ پاکستان ہے،جو اپنی کوششوں سے بھی بھارت کو افغانستان سے نہیں نکال سکا تھا،لیکن اس فتح کے ساتھ ہی طالبان نے بھارت کو کان سے پکڑ کر نکال دیا۔ یہ صرف اور صرف اللہ کی طرف سے پاکستان کو ایک نعمت ملی، جس کا شکر ہم پر واجب ہے اور اس شکر کو ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ شکست خوردہ امریکی کیمپ میں جو ماتم برپا ہے اس میں سارے طعنے اور الزامات پاکستان کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں اور نئی محبتوں کی پینگیں بھارت سے بڑھانے کی تدبیریں سوچی جا رہی ہیں۔ امریکی سینٹ میں 57 صفحات اور 701 سیکشنوں پر مشتمل ایک بل بائیس نامور سینٹروں نے پیش کر دیا ہے، جس کا عنوان ہے "Afghanistan Counter terrorism, Oversight and Accountability Act of 2021" یہ ایکٹ دراصل امریکی شکست کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے بنایا گیا ہے، تاکہ جنگ کے دوران دھوکہ دینے والے کرداروں کی نشاندہی کی جائے اور آئندہ کیلئے نئے دوست اور پارٹنر بنانے کیلئے تجاویز اکٹھی کی جائیں۔ اس بل کے دو سیکشن بہت اہم ہیں۔ پہلا سیکشن 202 ہے، جس کے تحت ایکٹ کے پاس ہونے کے 180 دن کے اندر، وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور سی آئی اے چیف کی مدد سے ایک رپورٹ جمع کروائے گا۔ رپورٹ ان اداروں اور افراد کے بارے میں ہو گی جو 2001ء سے 2021ء تک طالبان کی مدد کرتے رہے ہیں، سیکشن میں واضح طور پر لکھا ہے۔ "State and non state actors including Pakistan" (ریاستی اور غیر ریاستی کردار جن میں پاکستان بھی شامل ہے)۔ اس مدد کی تفصیلات میں مالی مدد، خفیہ معلومات کی فراہمی، طبی مدد، ٹریننگ، اسلحہ کی فراہمی اور حکمتِ عملی کے ساتھ ساتھ تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ تین لاکھ افغان سکیورٹی فورسز کے ایک دم پیٹھ دکھانے اور پنج شیر وادی میں طالبان کی فتح میں پاکستان کی مدد کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں۔ جبکہ سیکشن 105 میں لکھا ہے کہ اس ایکٹ کے نفاذ کے صرف 90 دن کے اندر، امریکی صدر کانگریس کی مخصوص کمیٹی میں جنوبی اور سنٹرل ایشیاء کے بارے میں نئی امریکی حکمتِ عملی پیش کرے۔ اس سیکشن کا سب سیکشن 8 کہتا ہے ’’ایسے تمام اقدامات بتائے جائیں جن سے امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی، معاشی، اور عسکری تعلقات کو مضبوط کر سکے تاکہ بھارت، اپنے اردگرد چین اور روس کے علاوہ طالبان کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا کھل کر مقابلہ کر سکے اور یہ بھی بتایا جائے کہ بھارت کو افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے کتنا خطرہ پیدا ہو چکا ہے اور ہم بھارت کی کیسے مدد کر سکتے ہیں تاکہ خطے میں بھارت اور امریکہ کا باہمی مفاد کمزور نہ ہو۔ وہ امریکہ جس کا وزیر دفاع سینٹ کی کمیٹی کے سامنے افغان جنگ کے دوران اپنی سب سے بڑی کامیابی یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے 14 دن میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار افراد کو کتنی سرعت اور کامیابی سے کابل سے نکال باہر کیا۔ ایسے امریکہ کی بحیثیت عالمی طاقت کیا مقام و مرتبہ و حیثیت ۔ لیکن پھر بھی ہم خوفزدہ ہوں، تو ہمارا کوئی علاج نہیں۔ بیس سال بعد پاکستان کو ایک بار پھر بزدلی سے نکل کر عزت و وقار سے جینے کا موقع مل رہا ہے۔ پاکستان اگر آج پہل کرتے ہوئے افغانستان کو تسلیم کر لے، تو پاکستان اس خطے میں بھارت کے مقابلے میں ایک ایسی قوت کی طرح پَر پھیلائے کھڑا ہو گا جو پاکستان کی فوج کی عسکری صلاحیت اور طالبان کی پراکسی جنگ کے تجربے سے مالا مال ہو گی۔صرف خوف سے باہر نکلنے کی دیر ہے اور اس امریکہ کا اب کیا خوف جو ابھی تک ہارنے کے ماتم سے ہی فارغ نہیں ہو پا رہا۔