افغانستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں وہاںامن کے سورج سے روشن دن کم کم ہی ملیں گے ،کہتے ہیں افغانوں کو دو ہی کام آتے ہیں حملہ کرنا یا حملہ روکنا، یہاں قبائل پہچان ہیں۔ یہاں فرد کی فرد سے نہیں قبیلے کی قبیلے سے دشمنی اور دوستی ہوتی ہے ۔ پشتونو ں کی قبائلی دشمنیاں مشہور ہیں کہتے ہیں دو قبیلے باہم دست وپیکا ر ہوں اور اس موقع سے تیسرا فائدہ اٹھانا چاہے تو دو نوں حریف ایک ہوجاتے ہیں قبیلوں کے مشران، بڑے مل کر ایک پتھر اٹھاتے ہیں اور زمین پر جما کر رکھ دیتے ہیں کہ آپس کی دشمنیاں اس پتھر کے نیچے دبا دی گئی ہیں اب ہم دونوں مل کر اس تیسرے سے لڑیں گے یہ مل کر لڑتے ہیں اور اس وقت تک انکے ہتھیاروں کا رخ ایکدوسرے کی جانب نہیں ہوتا جب تک تیسرا موجود رہے ،تیسر ے کے راہ فرار پر دونوں مشران مل کر وہی جما ہوا پتھر اٹھا لیتے ہیں کہ اب ہمارے بیچ جو فیصلہ رہ گیا تھا وہ کرنے کا وقت آگیاہے۔ کشمیریوں کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے اس امن پسند قوم کا جنگ وجدل ،خون خرابے سے کبھی واسطہ نہیںرہا اسی لئے اکثریت میں ہونے کے باوجود ڈوگرہ اقلیت کی غلامی میں پڑے رہے اورتراڑ کھل پر اپنی کھالیں کھنچواتے رہے لیکن یہی کشمیری متحد ہوئے اور نئی دہلی کے لئے لوہے کے چنے بن گئے ،کشمیریوں کی سیاسی قیادت نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود ایک ہے ،وہاں شیعہ بھی ہیں ،اہلحدیث بھی ،حنبلی بھی اور شافعی بھی ،بریلوی او ر دیوبند ی بھی،سیاسی اختلاف یہاں بھی ہیں ۔یاسین ملک کا اپنا نقطہ نظر ہے ،میر واعظ کا اپناموقف ہے اورسید علی گیلانی کی اپنی رائے ہے لیکن ان سب کا اس بات پر ایکا ہے کہ ہمیں اپنی مرضی کا فیصلہ کرنا ہے ہم نے بھارت کی غلامی میں نہیں رہنا اس مشترکہ اور مضبوط ’’انکار‘‘ نے آج کشمیریوں کو ناقابل تسخیر قوم بنادیا ہے ۔ کہنے کو ہم پاکستانی بھی ایک قوم ہیںایک ایسی قوم جسے قدرت نے خوبصورت دریاؤں ،ساحلوں،پہاڑوں ،صحراؤں ،جنگلوں سے آراستہ سرزمین دے رکھی ہے اورجس پراس وقت ایک خاموش عیاراورنادیدہ قاتل نے حملہ کر رکھا ہے،وہ دکھائی دیتا ہے نہ سنائی دیتا ہے ،وہ کہیں دوستوں کے مصافحوں سے ہماری زندگی کے دن کم کررہا ہے ،کہیں اپنوں کے معانقوں سے ہماری سانسیں گننے آجاتاہے اور کہیں کسی انجانے لمس سے ہمیںقبر میں اتارنے کی سازشیں کررہا ہے ، اس قاتل نے صرف ہم پر ہی نہیں پوری دنیا پر حملہ کررکھا ہے ۔ایک عالمی جنگ چھڑ چکی ہے اس جنگ میںیکم اپریل کی دوپہر تک42ہزار344انسان اپنی زندگیاں ہار چکے ہیں،یہ اب تک بلا رنگ ونسل مذہب 8لاکھ 60ہزار127افراد پر حملہ کر چکا ہے،دنیا کی سپر طاقت امریکہ اس کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی ہے،امریکہ کے مغرور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوبھی خدا یاد آچکاہے ،وہ افسردہ لہجے میںکہہ رہاہے کہ دو لاکھ امریکیوں کی موت کا خدشہ ہے امریکہ دنیا بھر سے جمع ہونے والے مہاجروں کا ملک ہے لیکن اس کے باوجود مشکل گھڑی میں سارے امریکی ایک قوم کی طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں ۔ سابق سپر پاور برطانیہ کا احوال سنیں 25150کیسز رپورٹ ہوئے ہیں 1789 افراد جان سے جا چکے ہیں خدشہ ہے کہ یہ خاموش قاتل وہاں سات ہزار افراد کی جان لے کر ٹلے گا برطانوی حکومت نے اپنی قوم سے اپیل کی کہ سماجی فاصلہ رکھیں ، ڈسپلن میں رہیں ، احتیاط کریں، خود کو گھروں میں محصور کر لیں اور انہوں نے خود کو گھروں تک محدودکر لیا،حبیب جان کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جیالے رہے ہیں الیکشن بھی لڑ چکے ہیںاور اس شہر میں خاصے جانے پہچانے جاتے ہیں ان دنوں برطانیہ میں ہیںانہوں نے وہاں سے بتایا ہے کہ کھانے پینے کی 85فیصد اشیاء درآمد کرنے والے برطانیہ میںسپر اسٹور اور مارکیٹیںکھلی ہوئی ہیں اور ہر اسٹور کسی بھی گاہک کو مطلوبہ شے حکومتی ہدایت کے مطابق مقررہ مقدار پربنا کسی ہڑبونگ کے فراہم کر رہا ہے کوئی بھی گاہک تین سے زیادہ صابن ،تین سے زیادہ دودھ کے ڈبے وغیرہ نہیں لے سکتا،اب اپنے وطن عزیز کا حال دیکھ لیں پولیس اہلکار ہاتھ جوڑ جوڑ کر لوگو ں سے کہہ رہے ہیں کہ خدا کا واسطہ ہے گھروں پر رہیں لیکن لوگوں کو چین نہیں،ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی اور چھیپا فاؤندیشن کے رمضان چھیپا نے مردوں کو غسل دینا بند کر دیا تھا کہ لوگ جھوٹ بول بول کرکورونا وائرس سے مرنے والوں کو غسل دلوارہے تھے۔ سرد خانے کی انتظامیہ پوچھتی کہ انتقال کیسے ہوا تو ہارٹ اٹیک کا بتادیا جاتاکہ سچ بتائیں گے تو لاش کو غسل نہیں ملے گا ،لاہور بھی لاک ڈاؤن میں ہے ۔موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی ہے لیکن ایک باریش نوجوان عروسی جوڑے پر چادر اوڑھ کر باحیاء دولہن کی طرح موٹرسائیکل پر سفر کرتے پکڑے جاچکا ہے ۔موٹروے پر ٹرک میں چھپ کر سفر کرنے والوں کی وڈیو بھی وائرل ہے،کراچی کی جعفر طیار سوسائٹی میں ماتمی جلوس کی وڈیو بھی سب ہی نے دیکھ چکے ہیں۔ رینجرز کے روکنے پر نہ رکنے والے دوڑ دوڑ کر جلوس میں شامل ہورہے ہیں، نہیں سوچ رہے کہ خدا نخواستہ وہاں کسی میں کورونا ہوا تو وہ اپنے گھر میں اپنے پیاروں کا ماتم کر رہے ہوںگے یہی ’’جذبہ‘‘ دوسری طرف بھی ہے اسلام آباد کے علاقے بہارہ کہو کی ایک مسجد میں تبلیغی جماعت کے دوست جانے کہاں سے یہ وائرس لے کر پہنچے او ر پورے علاقے کو کورونازدہ کردیا،عوام کو چھوڑ یں رہنماؤں کا حال دیکھیں تو اس وقت بھی ان میں اینٹ اور کتے کا بیر دکھائی دے رہاہے حال یہ ہے کہ وزیر اعظم وڈیو لنک پر بھی اپنے مخالفین کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ۔ اس مشکل وقت میں جب سیاسی قیادت مجتمع ہونہ نیم خواندہ ، غافل لوگ ہجوم سے قوم بننے پر آمادہ نہ ہوں تو بس سوچ لیجئے کہ کیا ہونا ہے !