دفع کریں کروناکو۔سارادن اس موذی بارے سن سن اور پڑھ پڑھ کر سماعت و بصارت سوزش میں مبتلا ہیں۔کرونا بارے اتنی آگہی ہم پر انڈیلی جاچکی ہے کہ اب مزید ضرور ت نہیں۔بستی دُھپ سڑی سے لے کر ڈیفنس کے تمام فیزوں تک سبھی کو پتہ ہے کہ کیا احتیاطی تدابیر کرنی ہیں اور کیوں کر اس سے بچنا ہے۔ پچھلے کسی کالم میں لکھا تھا کہ چائے خانوں ، بیٹھکوں ، تھڑوں ، سبزہ زاروں میںمجلس آرئیوں کی شاید یہ آخری صدی ہے۔ تب یہ بات کسی اور تناظر میں لکھی تھی لیکن اب کرونا کے دم قدم سے لگتا ہے کہ ہم وہ دور گزار آئے ۔خدا جلد اس موذی سے ہمیں نجات دلائے لیکن گمان ہے کہ اس کے جانے بعد ہماری سماجی قدریں اور رہن سہن خاصا بدل چکا ہوگا۔اگلے روز وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ملتان میں ملک کے سب سے بڑے قرنطینہ کا جائزہ لینے آئے ۔ زباں پہ بارِخدایا یہ کس کا نام آیا۔ ایسے ایسے لفظوں سے بھی ہمارا تعارف ہونا تھا جو صدیوں سے لغات کے صفحات اوڑھے سوتے تھے مگر ان کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئی تھی۔ کاش!اب بھی نہ آتی۔یہ’’قرنطینہ‘‘کا لفظ آپ نے سنا ہوتو میں کچھ نہیں کہ سکتا مگر ایک زمانے میں لغت بینی کی لَت رہ چکنے کے باوجود ، میں نے کبھی یہ لفظ نہ سنا تھا ۔بُرا ہو کرونا کا جس نے اس سے متعارف کروا دیا۔یہ لفظ انگریزی سے مستعار لے کر معرب کیا گیاہے۔ انگریزی لفظQuarantine ہے۔ عربوں کے ہاتھ چڑھا تو انہوں نے قرنطینہ بنا دیا اور اردومیں جوں کا توں مستعمل ہوا۔ قرنطینہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں وبا زدہ علاقوں یا ایسے بحری جہازوں جن میں کسی وبا کے پھیلنے کی اطلاع ہو،سے آنے والے مسافر وں کو جبراً سب سے علیحدہ رکھا جاتا ہے تاکہ وبا پھیلنے نہ پائے ۔مختصراًاسے قیدِ طبی کہ سکتے ہیں یعنی Medical Imprisonment۔ خیر!میں گزارش کررہا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب جب ملتان کے قرنطینہ کے دورے پر آئے تو اُن کے ساتھ شوکت خانم ہسپتال میں وبائی امراض کے شعبہ کے صدر ڈاکٹرفیصل سلطان بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ عالمی سائنس دان بتا رہے ہیں کہ کرونا کے مستقل خاتمے یااس کا علاج دریافت ہوجانے پر ڈیڑھ سے دو برس لگیں گے ۔ انہوںنے کہا کہ کرونا کا علاج کوئی نہیں ہے کیوں کہ یہ نئی بیماری ہے۔ ہم جس قدر بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں ، ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ اس کے پھیلائو کو روکا جائے یا محدود کیا جائے تاکہ دست یاب وسائل میں شکار ہونے والوں کو طبی سہولیات دی جا سکیں ۔ بتایا کہ گیا کہ اس کی روک تھام کا واحد حل یہ ہے کہ انسان ، انسان سے دوررہے۔ گھر میں بھی دیگر افرادِ خانہ سے ایک میٹر کا فاصلہ رکھا جائے۔معانقہ تو دور کی بات ،مصافحہ کا خیال بھی دل میں مت لایئے۔اجتماعات میں نہ جائیں، سفر سے گریز کریں ۔جسمانی طور پر جتنا اِ ک دوجے سے دور رہیں گے،کرونا کے حملوں سے بچ سکیں گے ۔گویا کرونا نامی وائرس کی واحد دوا ’’یا‘‘ ویکسین‘‘ انسانوںکے مابین کم از کم تین فٹ سوا تین انچ کی دوری ہے۔یہ پیغام جوں جوں عام ہور ہا ہے ۔لوگوں نے دوری اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ جنازوں اور شادیوں کے اجتماعات میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔ ابھی تو الحمد اللہ پاکستان کسی بڑے نقصان سے بچا ہوا ہے ، اللہ نہ کرے اگر کرونا نے پاکستان میں بھی جانوں کی بھنیٹ لینا شروع کردی (خاکم بہ دہن) تودیکھئے گا انسان کیسے دوسرے انسان سے دور بھاگتا ہے ۔ میں نے بھی آج اپنے دفتر کے کمرے میں لکھ کر آویزاں کردیاہے ’’ہاتھ ملانے سے گریز کریں‘‘۔یہ الگ بات کہ اس کے باوجود چار ملاقاتیوں نے مصافحہ کو ہاتھ بڑھا دیااور ،مجھے بادل نخواستہ ہاتھ ملانا پڑا۔تاہم رفتہ رفتہ یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہاتھ ملانے کی بھی عجیب کہانی ہے۔ آج کل اگر کوئی ہاتھ ملانے سے انکار کردے تو لوگ برا مناتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی دینی حیثیت نہیں۔ دین کے احکامات بتاتے ہیں کہ کسی سے ملنے پر زبان سے السلام علیکم کہا جائے اوربس۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کا پہلا معلوم مصافحہ قدیم ریاست اسیریا اور بابل کے بادشاہوں کے درمیان نویں صدی قبل مسیح میں ہوا۔جب ان دونوں حکمرانوں نے باہمی دفاعی معاہدہ کیا تو مصافحہ کرکے اسی کو باقاعدہ عہد کی شکل دی۔ یہ صورت آج بھی دنیا میں رائج ہے۔ملکوں کے مابین معاہدے ہوں یا دو کمپنیوں کے درمیان ، دست خط کے بعد ہاتھ ملائے جاتے ہیں اور خوب گرم جوشی سے ۔عام لوگوں میں ہاتھ ملانے کا چلن دراصل ایک خوف کے ازالے کو ہوا۔ قدیم دور کا انسان ہمہ وقت ہتھیار بند رہا کرتا تھاچناں چہ دو اجنبیوں کی ملاقات ہوتی تووہ ہاتھ ملا کر گویا اِک دوجے کو یقین دلاتے کہ میں ہتھیار بند نہیں، خالی ہاتھ ہوں۔جدید زمانہ میں روز مرہ ملاقات پر ہاتھ ملانے کا رواج سترہویں صدی عیسوی کے مذہبی لوگوں نے جاری کیا۔قبل ازیں جھک کر یا سر کی ٹوپی /ہیٹ اتار کر تسلیمات کہا جاتا تھا۔مذہبی لوگوں نے سوچا کہ جھکنا صرف خدا کے آگے جائز ہے ،سو روزمرہ تسلیمات کو مصافحہ اپنایا گیا۔ میں آپ کو حلفیہ کہ رہا ہوں کہ میں ایک اور موضوع پرلکھنے بیٹھا تھا ، کالم کا پہلا جملہ اس امر کا گواہ ہے مگر پورا کالم کرونا کی نذر ہوگیا۔ وہ موضوع اگلی دفعہ تاہم سچی بات یہ ہے کہ حالات واقعی اچھے نہیں ۔اس وقت کرونا ہی سب سے بڑا موضوع ہے اور جتنا اس کو زیر ِ بحث لائیں گے ، اس سے لڑنے کو ہم بہتر طور مسلح ہوسکیں گے پھر بھی میں سوچتاہوں کہ بقول ڈاکٹر فیصل سلطان کے اگر برس ڈیڑھ برس کرونا سے نکلتے لگ گیا تو یہ مدت کوئی بھی عادت بھول جانے کو کافی ہوتی ہے۔ تو کیا آئندہ زندگی میں ہم وزیراعظم اور طارق جمیل کی طرح اپنے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اک دوجے کو سلام کیا کریں گے ؟؟۔