زمردی جزیرے اور جھیلیں اس خواب کا حصہ ہیں جو میرے دل میں ہلکورے لیتا رہتا ہے۔اور اگر آپ بھی ایسا کوئی خواب رکھتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ست پارہ(سات ٹکڑے)جھیل جسے مقامی سد پارہ کہتے ہیں،زمردی جھیلوں کی ملکہ ہے۔وجہ یہ کہ سات پانی آکر اس جھیل میں شامل ہوتے ہیں۔ ست پارہ جھیل جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سد پارہ گاؤںکی آبادی ہے اور قدرتی ندیاں اور چشمے اس سرسبز آبادی کا منظر دوبالا کرتے ہیں۔پہاڑوں سے مختلف چشمے جھرنے اور نالے اس جھیل میں گرتے ہیںاور رنگ رنگ کے پانی زمردی رنگ میں ضم ہوتے جاتے ہیں۔یہ منظر اتنا خوبصورت ہے کہ بس چپ سی لگ جاتی ہے ۔اور شاید یہی حسن کی پہچان ہے ۔ سڑک کی اونچائی سے دیکھنے پر جھیل اور طرح کی خوبصورت ہے اور اس کی سطح کے برابر پہنچنے پر بالکل اور ۔یہی سڑک آگے دنیا کے بلند ترین میدان دیو سائی کی طرف نکل جاتی ہے ۔ بلتستان کا حسن بالکل اور طرح کا ہے۔جیساکہ میں نے کہا تضادات سے پر۔ اور سب سے بڑا تضاد شاید بنجر پن اور ہریالی کا ہے۔دونوں بھر پور موجودگی کا ثبوت دیتے ہوئے مسلسل ہم آغوش رہتے ہیں ۔میں نے ایک منظر دیکھ کر ایک نظم میں لکھا تھا۔ ۔ دیکھو اپنے دل میں دیکھو ہریالی اک حد سے آگے بنجر ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں بھی بنجر پن کی ہریالی اسی طرح میرے سامنے تھی۔اس وسیع فضا میں جابجا یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ دو بنجر سربفلک نیم برف پوش پہاڑوں کے نقطۂ اتصال اور گھاٹی سے چاندی کی طرح ایک آبشار گرتی نظر آتی ہے اور یہ پہاڑی دریا اور نالہ اپنے ساتھ زرخیزی اور نمو لیے چلتا ہے۔نیچے دریا میں گرنے سے پہلے وہ اپنے ارد گرد کو اتنا سرسبز اور شاداب کرچکا ہوتا ہے کہ دور سے وہ پوری وادی بنجر سمندر میں ایک ہرے جزیرے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ہم سکردو سے خپلو جارہے تھے اور انہی مناظر سے آنکھیں سیراب کر رہے تھے۔خپلو سکردو سے تین گھنٹے کی مسافت پر بلتستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اور بہت سے تاریخی آثار رکھتا ہے۔راستے میں ایک وسیع وادی میں دریائے شیوک اور دریائے سندھ کا سنگم بھی آتا ہے۔سیا چین کے قریب رامو گلیشیٔرسے پگھل بہنے والا شیوک ،کیلاس پہاڑ تبت سے سفر آغازکرنے والے سندھ سے اس نقطے پر ملتا ہے اور خود کو سندھ میں ضم کردیتا ہے۔سندھ، جو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرچکا ہوتا ہے اور پھر پاکستان میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اوپر سے نیچے تک لکیر کھینچتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔ خپلو دریائے شیوک کے کنارے پہاڑ سے دریا تک اترتی ایک ہری بھری وادی اور شہر ہے۔گھانگ چھے نامی گلیشیٔرسے برفانی نالہ اس کے ساتھ اترتا اور دریا تک جاتا ہے ۔گھانگ یعنی برف اورچھے یعنی پانی ۔اور یہی اس پورے علاقے کا بھی نام ہے ۔اچھے وقتوں میں پی ٹی ڈی سی نے بہت سے پر فضا مقامات پر اپنے بہترین موٹل بنائے تھے ۔اگر ان کی دیکھ بھال کی جاتی تو بہت سے سیاح یہیں ٹھہرنا پسند کرتے۔اچھی بات یہ ہے کہ خپلو کا موٹیل اچھی دیکھ بھال کی ایک مثال ہے ۔ کمرے مناسب حالت میں ہیں اور صفائی کا انتظام بھی ٹھیک ہے۔خپلو میںپہاڑ کی بلندی پر چق چن مسجد جس کی نسبت مشہور کشمیری بزرگ میر سید احمد علی ہمدانی کی طرف ہے ،لکڑی کی پرانی طرز تعمیر ۔رنگا رنگ نقاشی اورکھدائی کے خوبصورت کام کی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ الگ دنیا ہے اور خپلو کا قلعہ یعنی تھورسی کھر ایک الگ جہان۔اس قلعے کو 2005ء میں از سر نو اسی طرح کشمیری ، بلتی ،تبتی اور لداخی مخلوط انداز میں تعمیر کرکے اس میں ہوٹل اور میوزیم بنا دیا گیا۔ پرانی فضا برقرار ہے اور گائیڈ دستیاب۔داستانیں اس قلعے کے در و دیوار سے لپٹی ہوئی ہیں۔جن کا آغاز اس روایت سے ہوتا ہے کہ 1840 میں قلعہ موجودہ جگہ سے دور پہاڑ کی مزید بلندی پر تھا۔راجہ دولت علی خان نے نیا قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا تو پرانے قلعے سے چٹان لڑھکائی گئی ۔ڈوک سائی نامی گاؤں پرجہاں چٹان رک گئی وہیں نئی تعمیر شروع ہوئی ۔ایک داستان ختم ہو تو دوسری اس کا دامن تھام لیتی ہے ۔مارجری بیل نامی انگریز دوشیزہ سکاٹ لینڈ سے ہندوستان نرسنگ کا کورس کرنے آئی ۔ غیر منقسم ہندوستان میں نوجوان ولی عہد فتح علی خان کو دیکھا اور اسے دل دے بیٹھی۔شہزادہ بھی دل ہار گیا۔دونوں نے اپنے خاندانوں کی ناراضی کی پروا کیے بغیر شادی رچائی ۔ برطانوی قوم ہرگز کھلے دل کی نہیں اورانگلینڈ، آئر لینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز کے تمدن اور روایات میں بھی فرق ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کی روایات سے پختون روایات مختلف ہیں۔مارجری بیل کے خاندان نے اسے زندگی بھر معاف نہ کیا ۔ ہر قسم کا رابطہ توڑ لیا ۔ان کے لیے ان کی بیٹی مر گئی تھی ۔عشق کی ماری لڑکی تمام عمر انگلینڈ واپس نہ گئی ۔ صغریٰ فاطمہ بن کر راجہ کا گھر بسایا۔اولاد پیدا کی،بلتی رہن سہن اختیار کیا،زبان سیکھی اور انہیں میں رچ بس گئی ۔اسلام آباد میں دفن ہوئی اورپیار کی داستانوں میں ایک اور داستان رقم ہوگئی ۔ لکڑی اور پتھر کے محل میں جھروکوں،کھڑکیوں سے جھانکتے ،پتھر کی سیڑھیوں پر چڑھتے،چھوٹے دروازوں سے جھک کر کمروںمیں داخل ہوتے ، نکلتے،اور ان زمانوں میں سانس لیتے ہم نے خو دکو خوش نصیب سمجھا کہ ہم نہ مرصع خلعت کے لائق تھے، نہ تہ خانۂ زنداںکے سزاوار۔شکر ہے کہ ہم وہ لوگ تھے جو نہ اس زمانے میں تھے نہ اس رعایا میں۔ورنہ محل کی خوشبو سونگھنے کی بھی اجازت نہ ہوتی بلکہ ہم بھی ان خدام میں ہوسکتے تھے جوبقول نوجوان گائیڈ، اس محل کی خدمت کرتے نسل در نسل عمریں گزار دیتے اور ساری عمر گزرجانے کے بعد بھی محل کی بالائی منزل تک باریابی کی مجال نہ ہوتی جہاں راجہ اور اس کا گھرانہ رہتا تھا۔ محل کا شکوہ ،خوبصورتی اور دل کشی اپنی جگہ ۔انسان کو یہ کیا خبط ِ عظمت چلا آتا ہے کہ کمروں میںخدام ،لشکریوں اوروزیروںکے داخلے کے لیے دروازے چھوٹے رکھواتا ہے تاکہ راجہ کے سامنے سرنگوں ہوکر حاضر ہوں۔ایک انسان دوسرے کے سامنے دیوتا بن کر راج سنگھاسن پر بیٹھتا اور اپنی پرستش کرواتا ہے اور یہی اپنی عظمت جانتا ہے۔وہ سب جاہ و حشم ،لشکری گھوڑے،چترو علم خاک ہوئے ،دور کھڑے تھرانے والے دندناتے پھرتے ہیں ۔راجہ زیر زمین جا سوئے اورجھک کر پیش ہونے والے ان کی مٹی پر پاؤں دھر کر گزرتے ہیں۔23 جولائی 2019 منگل کے دن خپلو محل کی سب سے اونچی منزل پر ’’ چوغو رفتال ‘‘ یعنی شاہی خاندان کی ملاقات کے کمرے میں شفاف سفید چاندنیوں اور گاؤ تکیوں کے ادھر منقش لکڑی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے میں نے چار منزل نیچے خوبانی،ناشپاتی اور سیب سے لدے پیڑ دیکھے۔وسیع باغیچے پر نظر جمائی۔میٹھے پانی کے چشمے کی آواز سنی اور خود کو خوش نصیب سمجھا کہ میں اس عہد میں پیدا نہیں ہوا۔