چین امریکہ کشمکش نے پاکستان کو دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے‘ چین امریکہ کشمکش کی کئی جہتیں ہیں‘چین نے بھارت کی براستہ کشمیر لداخ میں پیش قدمی روک دی اور وادی گلوان میں اپنی حدود میں رہنے پر مجبور کیا ‘نریندر مودی کا اگر یہ خیال تھا کہ چین بھارت تنازعہ میں امریکہ اس کا ساتھ دیگا تو یہ غلط فہمی دور ہو چکی‘امریکہ نے اس موقع پر خاموشی کو ترجیح دی اور بھارت کو تھپکی دینے سے احتراز برتا‘ اس تنازعہ سے پاکستان کی حوصلہ افزائی ہوئی‘ مقبوضہ جموں و کشمیر سے بھی آگے بڑھ کر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرف للچائی آنکھوں سے دیکھنے والے بھارت کو ہم نے سیاسی نقشے کے اجراء کے ذریعے جواب دیا جس میں پورے کشمیر کے علاوہ جونا گڑھ پر بھی اپنا دعویٰ دہرایا اور باور کرایا کہ ہم جموں و کشمیر کے علاوہ جونا گڑھ پر بھارتی غاصبانہ قبضے کو بھولے نہیں جب بھی حالات سازگار ہوئے انشاء اللہ ان مقبوضہ علاقوں کو بزور شمشیر آزاد کرائیں گے۔ چین امریکہ کشمکش کی دوسری جہت ون روڈ ون بیلٹ اور سی پیک کا منصوبہ ہے جسے امریکہ ناکام بنانے کے لئے کوشاں ہے اور چین ہر قیمت پر کامیابی کے لئے کمر بستہ۔ ان دونوں معاملات میں پاکستان برملا چین کے شانہ بشانہ ہے اور امریکی دبائو سے بے پروا۔ اسرائیل کو تسلیم کر کے متحدہ عرب امارات نے مگر پاکستان کے لئے مشکل پیدا کر دی ہے‘ سعودی عرب نے اگرچہ اب تک اس معاملے میں خاموشی کو ترجیح دی اور سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن غالب امکان یہی ہے کہ متحدہ عرب امارات کو دیگر عرب ممالک کی طرح حرمین شریفین کے خدّام کی درپردہ تائید و حمایت حاصل ہے اور بحرین‘ مصر‘ اردن کی طرف سے خوش آمدید اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ عالم اسلام میں ترکی اور ایران دو ممالک ایسے ہیںجنہوں نے کھل کر اس فیصلے کی مخالفت اور مذمت کی جبکہ ان میں سے ایک یعنی ترکی کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں‘ پاکستان کے محتاط طرز عمل اور ردعمل کا سبب یہی ہے۔ پاکستان اسرائیل کے قیام کا روز اوّل سے مخالف ہے اور قیام پاکستان سے بھی کئی برس قبل بانیان پاکستان اقبالؒ و قائدؒ نے یہودی ریاست کے تصوّر کو رد کیا‘ فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی اور صیہونی ریاست کے قیام کو عالم اسلام کے دل میں خنجر پیوست کرنے کی سازش قرار دیا۔ کمال اتاترک کا سیکولر ترکی پہلا مسلم ملک تھا جس نے اسرائیل کی الگ ریاست کو تسلیم کیا مگر ستر سال تک ایک بھی فائدہ نہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض ترکی کے حصہ میں آیا ہو‘ حتیٰ کہ آج تک وہ یورپی یونین کی رکنیت حاصل نہیں کر سکا‘ امریکہ اور یورپ نے ثابت کیا کہ مسلم ریاست اگر سیکولرازم کو شعار کرے تو بھی کسی تیسرے درجے کی یورپی ریاست کے ہم پلّہ ہو سکتی ہے نہ یورپی یونین کی رکنیت کی حقدار۔ مصر اور اردن بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک میں شامل ہیں مگر اپنے دوست اور حلیف اسرائیل سے یہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق دو ریاستی فارمولے کو تسلیم کرا سکے نہ امریکہ کی وہ سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب جو ایک صیہونی ریاست کو حاصل ہے۔ مصر کو جو اقتصادی و معاشی فوائد حاصل کرنے کی اُمید تھی وہ بھی تاحال بر نہیں آئی‘ حال پہلے سے پتلا ہے۔ پاکستان کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ اگر وہ فلسطین پر یہودیوں کے غاصبانہ قبضہ کو جائز تسلیم کر کے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے تو مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ اسرائیل بھارت کا سٹریٹجک اتحادی ہے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پرحملے کی دو بار کوشش ہوئی دونوں بار اسرائیل شریک جرم تھا اور 5۔اگست کو بھارت نے جو اقدام کیا اس کا بلیو پرنٹ اسرائیل میں تیار ہوا۔ اسرائیل نے عرب علاقوں میں یہودی بستیاں بسائیں‘ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لئے کثیر تعداد میں اپنے باشندوں کو ریاست میں بسانے کے درپے ہے‘ نسل کشی کا انداز بھی اسرائیلی ہے‘ پاکستان اور بانیان پاکستان نے اسرائیل کے بارے میں اُصولی موقف عربوں سے متاثر ہو کر اپنایا نہ اسرائیل کو تسلیم کرنے‘ نہ کرنے سے پاکستان کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے‘ دینی حمیّت اور قومی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر محض امریکہ کی خوشنودی کے لئے بھارت اور اسرائیل کے عشق میں مبتلا عرب ممالک اور امریکہ کی یہ خواہش ضرور ہے کہ پاکستان بھی یہ گناہ بے لذت کرے اور فلسطینی و کشمیری عوام سے بے وفائی کے عوض ترقی و خوشحالی کے خواب دیکھے‘ خواب یا سراب۔ جب تک سعودی عرب اس گریٹ گیم کا حصہ نہیں بنتا پاکستان آزمائش سے دورچار نہیں لیکن اگر متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب کی درپردہ اشیر باد حاصل ہے تو پاکستان کا امتحان سمجھو شروع‘ پاکستان نے برس ہا برس تک سعودی عرب اور ایران کے باہمی اختلافات کو اپنی خارجہ پالیسی پر اثرانداز نہیں ہونے دیا‘ امریکہ اور چین کی کشمکش میں بھی وہ دونوں طاقتور ممالک کے ساتھ تعلقات نبھاتا رہا‘ اگرچہ یہ پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے‘ لیکن خطے میں جنم لینے والے تازہ واقعات نے پاکستان کو دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ سی پیک کو رول بیک کرنے کے عوض پاکستان نے کوئی امریکی پیشکش قبول نہیں کی۔ اپنے ایٹمی پروگرام کی طرح سی پیک کے حوالے سے بھی پاکستان کا موقف اپنے قومی مفادات سے ہم آہنگ ہے اور ان معاملات میں عموماً سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا مگر اب شائد ہمیں امریکہ اور چین کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی‘ چین‘ روس ‘ ملائشیا ‘ ایران اتحاد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے۔ اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل پاکستان کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہ تھا‘ ایک نیو کلیر ریاست عربوں کے مقابلے میں عالمی دبائو برداشت کرنے کی زیادہ اہل ہے۔ وہ کئی بار امریکی جال سے نکل چکی مگر بدقسمتی سے ہم اس وقت معاشی بحران کے سبب سعودی عرب سے منہ موڑنے کے متحمل ہیں نہ امریکہ سے ناطہ توڑنے کے اور نہ چین ‘ امریکہ کشمکش میں کھل کر کسی ایک کیمپ کا ساتھ دینے کے قابل۔ ایک طرف شیطان اور دوسری طرف گہرا سمندر کی مثال ہم پر صادق آتی ہے اور ہم حیران و پریشان کہ جائیں تو جائیں کہاں؟آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئی ایس آئی چیف کے ہمراہ ریاض پہنچے اور وہ یہ گتھی سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ چین کیا ہماری اقتصادی و معاشی دستگیری کر سکتا ہے‘ اس قدر زیادہ کہ ہمیں کم از کم آئی ایم ایف‘ سعودی دوستوں اور امریکہ کے زیر دست دوسرے اداروں کی احتیاج نہ رہے؟ فی الحال جواب نفی میں ہے‘ ترکی ‘ ملائشیا اور ایران میں سے کوئی بھی نہیں‘ اسرائیل کو تو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کہ اقبال و قائد کے پاکستان میں کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا‘جو کرے گا پرویز مشرف کے انجام سے دوچار ہو گا لیکن کئی دوسرے معاملات میں ہم سعودی عرب سے مشاورت کے ساتھ ہی بڑھ سکتے ہیں نعرہ مستانہ بلند کرنے کے حالات ہیں نہ قوم تیار‘ البتہ متبادل راستے تلاش کرنے کا یہی موزوں وقت ہے‘ مجبوری اور بے کسی کی اس کیفیت سے پاکستان کو نکلنا ہے اور وہ صرف اپنے زور بازو‘ عزم و استقامت سے نکل سکتا ہے‘ امریکہ‘ چین اور سعودی عرب کی بیساکھیوں سے قوی بقا ممکن نہیں۔ ؎ بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے زمانہ کچھ نہیں کرتا‘ کبھی کسی کے لئے