پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان جنہیں عام انتخابات سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا تھا ،کی گرفتاری کے بعد حسب توقع یکدم نیب بڑا سر گرم ہو گیا ہے۔ اگرچہ آصف زرداری اور شریف برادران کے خلاف نیب کی کارروائیاں پہلے سے ہی جاری تھیں۔ میاں نواز شریف کو نیب عدالت سزا بھی سنا چکی ہے جبکہ برادر خورد شہباز شریف نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اب نیب نے آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کی انکوائری تیز تر کر دی ہے اور مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے مرکزی ملزم اسلم مسعود کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اسلم مسعود انور مجید کے اومنی گروپ کا چیف فنانشل افسر تھا، ظاہر ہے اب اس کا تعلق آصف زرداری سے جوڑا جائے گا۔ دوسری طرف آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں شہبازشریف کے حاضر نہ ہونے پر نیب عدالت کے جج سخت برہم ہوئے کیونکہ عدالت جلدازجلد ان پر فرد جرم عائد کرنا چاہتی ہے۔ مزید برآں مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کامران مائیکل کو بھی دھر لیا گیا ہے، گویا کہ موسم بہار کی آمد سے پہلے ہی ’’گرفتاریوں کی بہار‘‘ جوبن پر آ رہی ہے۔ انور مجید اینڈ کمپنی تو پہلے ہی اندر ہیں، دیکھئے آصف زرداری کی باری کب آتی ہے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف پنجاب کارڈیک انسٹی ٹیوٹ منتقل ہونے سے انکار کرنے کے بعد اپنی خواہش پر واپس کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے۔ ڈاکٹروں کے بورڈ کا کہنا ہے کہ انھیں امراض قلب کے ہسپتال میں داخل ہونا چاہیے لیکن غالباً میاں صاحب مصر ہیں کہ ان کا علاج لندن میں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے معالج لندن میں ہی ہیں۔ حکومت عجیب مخمصے کا شکار اور میاں صاحب کو بیرون ملک بھیجنے سے گریزاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی تر جمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تواس کی ذمہ دارحکومت ہو گی۔ گویا کہ میاں صاحب کا منفرد استدلال یہ ہے کہ جیل جاؤں گا یا لندن، یہاں ہسپتال نہیں جاؤں گا۔ علیم خان کی گرفتاری کے سیاسی محرکات خاصے دلچسپ ہیں۔ علیم خان عام انتخابات میں لاہور سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے سب سے فیورٹ امیدوار تھے۔ لیکن علیم خان کو یہ غچا دیا گیا کہ آپ نیب کیسز سے کلیئرہو جائیں تو وزارت اعلیٰ آپ کو مل سکتی ہے اور انھیںسینئر وزیر بنا کر خوش کرنے کی کوشش کی گئی، سب کو معلوم تھاکہ علیم خان کو کھڈے لائن لگا دیاگیا ہے، رولز آف بزنس کے مطابق اختیارات تو چیف ایگزیکٹو کے پاس ہی ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔ اس سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں فیصل صالح حیات وزیراعلیٰ بننے کے لیے کوشاں تھے لیکن سیاسی طور پر زیادہ زیرک منظور وٹو کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔ فیصل صالح حیات بڑے طمطراق کے ساتھ چیف منسٹر جتنا پروٹوکول لیتے رہے لیکن اختیارات کے حوالے سے ان کے پلے کچھ نہیں تھا۔ دراصل عمران خان کا فارمولہ سیدھا سادا ہے، خیبر پختونخوا کے طرز پر پنجاب میں بھی ایسا وزیراعلیٰ لگایا جائے جو ہر وقت کورنش بجا لاتا رہے تاکہ مرکز سے ہی پنجاب کو چلایا جاتا رہے۔ قرعہ فال ڈیرہ غازی خان کے ایک نسبتاً غیر معروف مقامی سیاستدان عثمان بزدار کے نام نکلا۔ عمران خان جو اپنی حکمرانی میں اکثرکرکٹ کی مثالیں دیتے ہیں کاکہنا ہے کہ جب انھوں نے وسیم اکرم کو بطور باؤلر چنا تھا وہ بھی نوآموز کرکٹر تھے اور پھر وہ کہاں سے کہاں پہنچے۔ گویا کہ بزدار صاحب بھی عمران خان کے وسیم اکرم بن رہے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عثمان بزدار وسیم اکرم بنتے ہیںیا ایک ناکام بیٹسمین کی طرح کلین بولڈ ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے ایک اور امیدوار مخدوم شاہ محمود قریشی بھی تھے لیکن وہ اپنی صوبائی نشست ایک آزاد امیدوار محمد سلمان سے ہار گئے جو بعدازاں تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، قریشی صاحب اب بھی سمجھتے ہیں کہ وہ ہارے نہیں بلکہ پی ٹی آئی میں ہی شامل ان کے بعض مخالفین نے انھیںہروایا ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی ہونے کے باوجود دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کی خواہش پرویزالٰہی کے سینے میں مچلتی رہتی ہے۔ ان کی جماعت مسلم لیگ (ق ) کو وزارتیں دے کر خوش کیا جا رہا ہے۔ ان کی جماعت کے باؤ رضوان بھی وزیر بن گئے ہیں اور برخوردار مونس الہی کی لاٹری بھی نکلنے والی ہے۔ دوسری طرف چودھری سرور ہیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں۔ پنجاب میں رہنے کی خاطر انھوں نے سینیٹ کی نشست چھوڑ دی لیکن علیم خان کے حوالات جانے کے باوجود بھی مستقبل قریب میں ان کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے چودھری پرویزالٰہی کو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کے خلاف بغاوت کا اشارہ دیا تھا، بعدازاں لاہور آ کر یہ کہہ کر ’میاں نواز شریف کا کلّہ مضبوط ہے‘ پرویز الٰہی کے غبارے سے ہوا نکال دی اور انھیںپرانی تنخواہ پرکام کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ایسی نوبت عثمان بزدار کے بارے میں نہیں آئی کیونکہ ان کا کلّہ تو شروع سے ہی مضبوط ہے۔ دوسری طرف علیم خان کی گرفتاری کے فوری بعد یکدم میاں شہباز شریف کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ شیخ رشید تو روز اول سے ہی کہہ رہے تھے کہ وہ شہبازشریف کو چیئرمین پی اے سی کے طور پر قبول نہیں کریں گے بلکہ ان کے خلاف عدالت جائیں گے لیکن اب تو پوری کا بینہ ہی رطب اللسان ہے کہ شہباز شریف کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔ آخر یہ باسی کڑی میں ابال کیونکر آیا ہے۔ ویسے تو موجودہ صورتحال میںقومی اسمبلی کی ایک ایسی کمیٹی جس کاکام بلاواسطہ طور پر احتساب کرنا ہوتا ہے عضو معطل بن کر رہ جائے گی کیونکہ اب شاید حکمران جماعت کے ارکان اس کے اجلاسوں میں بھی شرکت نہیں کر یں گے۔ ایک راستہ تو یہ ہو سکتا تھا کہ شہباز شریف مستعفی ہو کر اپوزیشن کے کسی اور رکن کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنوا دیتے لیکن اپوزیشن کے لیے ایسا کرنا اس لیے بھی مشکل ہو گا کہ پارلیمانی نظام میں یہ حکمران جماعت کو ویٹو دینے کے مترادف ہوگا، جس کے لیے اپوزیشن تیار نہیں ہو گی۔ یہ عجیب طرفہ تماشا ہے کہ سندھ اسمبلی میں بطور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے تحریک انصاف کا پرزور مطالبہ ہے وہاں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے۔ لیکن ’’میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کے مترادف خیبر پختونخوا جہاں تحریک انصاف کا طوطی بولتا ہے، وہاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین حکمران جماعت کا ہی ہو گا۔ وزیر قانون فروغ نسیم کئی بار یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ اپوزیشن کے ساتھ نیب کے قانون کوشفاف اور بلاامتیاز بنانے کے لیے مناسب ترامیم پر بات چیت ہو رہی ہے لیکن موجودہ ماحول جس میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ قانون سازی کا عمل بھی معطل ہو کر رہ گیا ہے وہاں کسی معاملے پر بھی اتفاق رائے ہونا قریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جس معاملے پر جیسا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین پر اتفاق رائے ہو چکا تھا، اب حکمران جماعت نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کی کریڈیبلٹی کیا رہ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن سڑکوں پر نہیں آ رہی اور نہ ہی اس کی صلاحیت رکھتی ہے، پارلیمنٹ کے اندر بقائے باہمی کی پالیسیاں جو جمہوریت کی روح ہوتی ہیں بدقسمتی سے یکسر مفقود ہیں۔