20 مئی کو اسلام آباد میں بلاول بھٹو زرداری کی دعوتِ افطار اور اُس میں شامل حزب اختلاف کے قائدین کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہُوئے وزیراعظم کی ’’معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات‘‘ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اپنے "Tweet"میں کہا کہ ’’ بلاول کا افطار ڈنر ، مورثی سیاسی آمریتوں کی اگلی نسلوں کو منتقلی کی تقریب تھی اور اُس میں لُوٹ مار کے تحفظ کا عہد کِیا گیا ‘‘۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ بھی کہا کہ "A.P.C" ( آل پارٹیز کانفرنس) کا ٹھیکہ ؔ ۔ فضل اُلرحمن صاحب کو دِیا گیا ہے، جو "Flop" (ناکام) ہوگا‘‘۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان "Medical Doctor" تو ہیں لیکن’’ طب ِ یونانی ‘‘ کی طبیب / حکیم نہیں ہیں ۔ چند دِن قبل اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے ، عوام میں چُورن ؔ تقسیم کرنے کی جو مہم شروع کی ہے وہ ناکام ہوگی ‘‘۔ معزز قارئین!۔ لفظ ۔ ’’چُورن‘‘ہندی زبان کا ہے جو، اردو اور پنجابی میں بھی مستعمل ہے۔ چند ہاضم دوائوں کے بُرادہ / سفوف کو ۔ چُورن ؔ کہا جاتا ہے ۔ اِس سے پیٹ کی خرابی ( بد ہضمی) کا علاج کِیا جاتا ہے ۔ چُورن کو انگریزی میں "Digestive Powder" کہا جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ’’ انگریزوں کو بھی تو، پیٹ کی خرابی / بدہضمی ہوتی ہوگی؟ لیکن، چُورن (Digestive Powder) کی تو، اُن لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے جو ، پیٹ بھر کر یا بھوک سے زیادہ کھاتے ہوں ؟۔ ہمارے اکثر ارکانِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی اور مختلف عہدوں پر فائز اعلیٰ افسران اور خاص طور پر وہ سیاستدان جن کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات ہیں اگر پیٹ کی خرابی / بدہضمی کے مریض بھی ہُوں تو، وہ اُنہیں ’’ لکڑ بھی ہضم ، پتھر بھی ہضم ‘‘ قسم کے چُورن کے بجائے کسی مہلک مرض میں مبتلا ہونے کا بہانہ کر کے علاج کے لئے لندن جانے کے لئے عدالتوں میں درخواستیں دائر کرتے ہیں ۔ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد عوام کو تو، چُورن کی ضرورت نہیں ؟۔ ایسے لوگ تو غربت کے باعث ’’ صُوفی اِزم‘‘ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔ اُنہیں تو فارسی زبان کی یہ ضرب اُلمِثل پڑھائی یا سِکھائی جاتی ہے کہ ’’ خُوردن برائے زیستن و ذکر کردن‘‘ (یعنی۔ کھانا زندہ رہنے اور عبادت کرنے کے لئے ہے) ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ’’ کم کھانے ، کم بولنے اور کم سونے والا شخص ولّی اللہ ہوتا ہے‘‘۔ چشتیہ سلسلے کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر حضرت فرید اُلدّین مسعود شکر گنج ؒ کا ایک شعر ہے کہ … روٹی میری کاٹھ کی ، لاوَن میری بُھکھّ! جِنہاں کھادی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ! …O… یعنی۔ ’’ میری روٹی لکڑی کی ہے اور بھوک ہی میرا سالن ہے ۔ جو لوگ چوپڑی روٹی کھائیں گے وہ ( آخرت میں ) بڑے دُکھ برداشت کریں گے ‘‘۔ صُوفی اِزم کے برعکس زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ’’ اکثر لوگ (خاص طور پر) بالائی طبقے کے لوگ ، جن میں مذہبی سیاستدان بھی شامل ہیں ، کھانے کے لئے ۔زیادہ کھانے کے لئے اور کھاتے رہنے کے لئے ہی زندہ رہتے ہیں ؟۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دَور میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ’’ پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی ، جس میں چند مذہبی جماعتیں بھی شامل تھیں ۔ ایک دِن جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’’ یہ حلوا کھانے والے مولوی میرا کیا مقابلہ کریں گے ؟‘‘۔ پھر کیا ہُوا ؟۔ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ میں شامل مذہبی قائدین نے ہر شہر اور گائوں میں حلوے کی دیگیں پکا ، پکا کر ، اپنے حامیوں میں تقسیم کرنا شروع کردِی تھیں۔ اُن دِنوں یہ لطیفہ عام ہُوا کہ’’ ایک مولوی صاحب اِتنا زیادہ حلواکھا گئے کہ گر پڑے‘‘۔ اُن کے ایک شاگرد نے کہا کہ’’ حضرت مولانا !۔ یہ لیجئے ! ۔ تھوڑا سا چُورن کھالیجئے !‘‘ ۔ تو اُنہوں نے شاگرد سے کہا کہ ’’ کمبخت ! اگر پیٹ میں جگہ ہوتی تو، تھوڑا سا حلوا اور نہ کھا لیتا؟‘‘۔ ’’ ٹھیکہؔ دار فضل اُلرحمن صاحب!‘‘ معزز قارئین!۔ ہندی اور اردو زبان کے لفظ ’’ٹھیکہ‘‘ کے بھی دو معنی ہیں ۔ ایک تو، اجارہ دینا یا لینا ۔ (Contract) ۔ اجارہ لینے والے کو ’’ٹھیکیدار ‘‘ کہتے ہیں ۔ ایک اور معنی یہ ہیں کہ ’’ طبلے یا ڈھولک کو (گانے کے ساتھ ) خاص طریقے سے بجانا ۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے "Contract" (ٹھیکہ ) کی بات کی ہے اور اُنہوں نے فضل اُلرحمن صاحب کو "A.P.C" کا "Contractor" کہا ہے کہ جن کا ٹھیکہ ؔ "Flop" (ناکام) ہو جائے گا ‘‘۔ مَیں ڈاکٹر صاحبہ کے اِس خیال کو تسلیم نہیں کرتا۔ اِس لئے کہ ’ ’ فضل اُلرحمن صاحب اور اُن سے پہلے اُن کے والد مرحوم مفتی محمود صاحب کا بھی کوئی ٹھیکہ ؔ (Flop) نہیں ہُوا۔ مفتی صاحب نے اپنے دوسرے ساتھی ’’ کانگریسی مولویوں‘‘ کے ساتھ مل کر تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قیام پاکستان کے بعد ٹھوک بجا ؔکر کہا تھا کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘ لیکن ،مفتی صاحب نے دھڑلے سے پاکستان میں سیاست کی (اور اپنے مریدوں کی نظر میں) کامیاب ؔرہے ۔ 2 جنوری 1965ء کو طے شدہ صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ٔ محترمہ مادرِ ملّت متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں تو، مفتی صاحب نے فتویٰ دِیا کہ ’’ شریعت کی رُو سے کوئی عورت اسلامی مملکت کی سربراہ نہیں ہوسکتی؟‘‘۔ مفتی صاحب نے اپنی شریعت کے مطابق فوجی آمر ، صدر ایوب خان کی حمایت کی ۔ ’’فضل اُلرحمن صاحب کا اجتہادؔ؟‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہُوئیں تو، فضل اُلرحمن صاحب نے عورت کی سربراہی کے بارے میں ’’ اجتہاد‘‘ کِیا اور محترمہ کے اتحادی بن گئے۔ محترمہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ’’ مَیں نے محترمہ وزیراعظم سے صاف کہہ دِیا ہے کہ ’’ اگر آپ ’’سٹیٹ بنک آف پاکستان ‘‘کی چابیاں بھی فضل اُلرحمن صاحب کو دے دیں تو، بھی وہ ، مطمئن نہیں ہوں گے ؟‘‘۔ اِس پر میڈیا نے فضل اُلرحمن صاحب سے پوچھا کہ ’’ حضرت !۔ آپ وزیر داخلہ نصیر اللہ خان بابر پر ہتک ِ عزت کا مقدمہ کب کر رہے ہیں؟‘‘ تو، اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مَیں نے یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردِیا ہے ‘‘۔ ستمبر 2008ء میں ’’ دامادِ بھٹو‘‘ آصف زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ’’ کیوں نہ ہم 30 سال کے لئے مسئلہ کشمیر کو"Freeze" (منجمد) کردیں ؟‘‘۔ (مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کے لئے ) صدر زرداری نے یہ ٹھیکہؔ فضل اُلرحمن صاحب کو دے دِیا اور اُنہیں ’’ کشمیر کمیٹی ‘‘ کا چیئرمین مقرر کردِیا۔ جون 2013ء کو میاں نواز شریف نے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھاتے ہی مسئلہ کشمیر کو ’’ منجمد‘‘ کرنے کا ٹھیکے دار فضل اُلرحمن صاحب ہی کو مقرر کردِیا۔ ’’یادگاری لوح مفتی محمود!‘‘ معزز قارئین!۔ 14اکتوبر 2017ء کو فضل اُلرحمن صاحب کے والد ِ مرحوم مفتی محمود صاحب کی 37 ویں برسی سے ایک دِن پہلے 13 اکتوبر کو ، اسلام آباد کے وزیراعظم آفس میں نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے "His Master's Voice" ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے "Four Colour" یاد گاری لوح مفتی محمود کی نقاب کُشائی کی اور اُن کی دینی ، قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف کے طور پر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کِیا؟ ۔ مسلم لیگ کے صدارتی امیدوار ؟ ایک ’’کامیاب ٹھیکیدار ‘‘ کی حیثیت سے فضل اُلرحمن صاحب کا نام ’’مسلم لیگ کی تاریخ میں ‘‘ ہمیشہ جلی / جعلی حروف سے ضرور لکھا جائے گا کہ ’’ ستمبر 2018ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کو ’’ بابائے قوم‘‘ اور اپنا پیر و مُرشد ماننے والوں نے فضل اُلرحمن صاحب کو اپنا امیدوار بنایا ۔ موصوف ہار تو گئے لیکن، اصل میں وہ لوگ ہار گئے ہیں ، جنہوں نے قائداعظمؒ کے دشمن کانگریسی مولویوں کی ’’باقیات کے سرخیل ‘‘ کو اپنا قائد منتخب کِیا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان صاحبہ ! پھر بھی آپ فضل اُلرحمن صاحب کو ایک "Flop Contractor"کیسے کہہ سکتی ہیں؟۔