پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وسیب کا تفصیلی دورہ کیا وہ ایک ہفتہ بلاول ہائوس ملتان میں رہے۔ سردار دوست محمد خان کھوسہ کی دعوت پر ڈیرہ غازیخان اور سردار بہادر خان سیہڑ کی دعوت پر لیہ اور ورکرز کنونشن میں خطاب کیلئے میلسی بھی گئے۔ اس دوران انہوں نے ورکرز کنونشن سے بھی خطاب کیا اور پارٹی کے مرحومین کیلئے تعزیت بھی کرتے رہے۔ مستقل قیام بلاول ہائوس ملتان میں رہا اور اسی مقام پر اخبارات کے ایڈیٹرز اور اہل قلم سے انہوں نے تفصیلی ملاقات کی۔ اس موقع پر سابق وزیرا عظم سید یوسف رضا گیلانی، سابق گورنر مخدوم سید احمد محمود، سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی، نتاشہ دولتانہ و دیگر رہنما موجود تھے۔ بلاول ہائوس میں وسیع پنڈال سجایا گیا تھا۔ نظامت کے فرائض سینئر صحافی مظہر جاوید نے سر انجام دیئے۔ سب کو گفتگو اور سوالات کا موقع فراہم کیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے تمام سوالات کے جوابات سنجیدگی سے دیئے۔ البتہ بہت سے سوال وہ گول بھی کر گئے اور میرے سوال پر تو انہوں نے نو کمنٹ کہہ کر جان چھڑائی۔ افغانستان کی صورتحال، اس بارے پاکستان کے کردار، پی ڈی ایم اور سیاسی امور پر بہت سوالات ہوئے۔ رضی الدین رضی نے برطرف کئے گئے پندرہ ہزار ملازمین کی بات کی اور کہا کہ میں خود متاثرین میں شامل ہوں اس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے 1993ء سے 1996ء تک ملازمتیں دیں ، میاں نوازشریف آئے تو ملازمین کو برطرف کر دیا گیا۔ مگر یوسف رضا گیلانی نے ان سب کو بحال کیا۔ اب پندرہ سے بیس ہزار ملازمین کو پھر سے نکال دیا گیا ہے۔ برطرف کئے گئے ملازمین کیلئے ہم سیاسی اور قانونی جنگ لڑیں گے اور اُن کا حق دلائیں گے۔ کچھ دوستوں نے طویل سوالات بھی کئے اور کچھ نے تجاویز سنائیں یا مسائل کا حل بتانے کی بجائے خطاب کر ڈالا۔ لیکن میں نے اختصار سے کام لیا اور کہا کہ فیصل کریم کنڈی موجود ہیں۔ انہوں نے صوبے کیلئے ہمارے ساتھ مل کر جدوجہد کی ہے۔ کیا آپ ان کے ڈی آئی خان، ٹانک کو سرائیکی صوبے کی تنظیم میں شامل کریں گے؟ اس پر انہوں نے نوکمنٹ کہا۔ میں نے یہ سوال کیا کہ سندھ کی دوسری بڑی زبان سرائیکی ہے۔ کیا سندھ میں آپ سرائیکی بچے کو اُس کی ماں بولی میں تعلیم کا حق دیں گے؟ اور مزید یہ کہ سندھ کے قدیم و جدید شعراء نے سرائیکی میں ادب تخلیق کیا ہے جو کہ سندھ کا اثاثہ ہے۔ کیا سندھی ادبی ادارے سندھ کی سرائیکی ادبی میراث کو محفوظ کرنے کیلئے کتابوں کی اشاعت کریں گے؟ اس پر بلاول نے کہا کہ ہم اس حق میں ہیں کہ پاکستان کی تمام زبانوں میں تعلیم ہونی چاہئے۔ تمام زبانوں کے ادب کو فروغ ملنا چاہئے۔ کتابوں کی اشاعت ہونی چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کو دو حاضر سروس پروفیسر صاحبان پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین اور پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی نے تجویز دی کہ پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے نام کو سرائیکی وسیب میں تبدیل کرے۔ اس پر بلاول بھٹو نے کوئی واضح جواب نہ دیا۔ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی و دیگر کو سرائیکی اجرکیں پہنائیں جو کہ انہوں نے فوراً اتار دیں۔ حالانکہ والد اور دادا کے حوالے سے دیکھا جائے تو بلاول خود سرائیکی ہیںلیکن عجب بات ہے کہ وہ سندھی اجرک سے اس طرح کا سلوک نہیں کرتے جو کہ انہوں نے سرائیکی اجرک سے کیا۔ ہمارے دوست احمد کامران مگسی پیپلز پارٹی کلچرل ونگ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو اپنے والد علامہ رحمت اللہ طارق کی کتاب ’’انسانیت پہچان کی دہلیز پر‘‘ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہماری تنظیم کا نام جنوبی پنجاب بدل کر سرائیکی وسیب رکھ دیں۔ احمد کامران مگسی نے شرعی نقطہ نظر سے بھی کہا کہ قرآن کی روح سے بھی پہچان تبدیل کرنا یا مسخ کرنا غلط ہے۔ کتاب کا آغاز قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتا ہے۔ ترجمہ:’’ جو لوگ استحصال اور جبر کے ہاتھوں ( اپنے ہی دیس میں ) بے بس و کمزور بنائے گئے ، ہم چاہتے ہیں کہ انہیں اُبھار کر پیشوائی عطا کریں اور ( اپنی ) سر زمین کا وارث بنائیں ۔ ‘‘ ( القصص۔ 5 ) ۔ کتاب کا انتساب سرکار رسالت مآب کے نام سے اس طرح شروع ہوتا ہے ’’ انتساب ‘ محمد الرسول اللہ ؐ کے نام جنہوں نے کائنات بشری کو جہالت کی دلدل سے نکال کر تعارف کی ڈگر پر چلایا ۔جنہوں نے انسان جو کہ نسب اور قومیت کے بغیر ’’ نامعلوم ‘‘ اور مجہول تھا اسے قومیت اور زبان کے احاطے میں لا کر معلوم اور متعارف بنایا ۔ جنہوں نے مہاجرین اور انصار میں ضابطۂ اخوت قائم کر کے مہاجروں کو احساس دلایا کہ ’’ جذبہ و تحلیل ‘‘ سے ہی ہم آہنگی اور مفاہمت کے جذبات پروان چڑھ سکتے ہیں ۔ جنہوں نے انسانی نفسیات، ضروریات اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے مدینہ کی طرف مہاجرین کی بڑھتی ہوئی یلغار کو ’’ لا ہجرۃ بعد الفتح ‘‘ کہہ کر ہمیشہ کیلئے مقامی ملک / علاقہ پر ناروا بوجھ کا خاتمہ فرما دیا ۔ جنہوں نے ’’ حب الوطنی من الایمان ‘‘ کا پیغام دیکر وطن سے محبت اور وابستگی کے فطری جذبے کو ایک نئی جِلا بخشی ۔ ’’ قرآن قومی تشخص کو لازمی قرار دیتا ہے اور قومیت کو ابہام میں رکھنے والے کی گواہی مسترد ہے ‘‘ کے عنوان سے مصنف رقم طراز ہیں کہ قوموں اور قومیتوں کے وجود کی نفی کرنے میں وہی لوگ پیش پیش ہیں جن کے مفادات اور حقوق محفوظ ہیں لیکن نفسیاتِ وحی کی نظر میں رکھنے والے بخوبی احساس کرتے ہیں کہ اسکے نزدیک ہر قوم اور قبیلہ اس انداز سے متعارف ہو کہ دوسرا اسکی پہچان کو مسخ یا نفی نہ کر پائے ۔ فرمان الٰہی ہے ، ترجمہ: اے نوع انسان ! ہم نے عورت و مرد سے تمہاری تخلیق کی اور پھرقوموں اور قبیلوں میں اس لئے تقسیم کیا کہ تم متعارف بنو اور متعارف رہو (الحجرات 13 )‘‘ ۔ یہ تھا احمد کامران مگسی اور اُن کے والد کی کتاب کا حوالہ لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی ہی جماعت کے عہدیدار کو معقول جواب نہیں دیا۔ یہی عہدیدار ہیں جو کہ پارٹی کی جنگ لڑتے ہیں۔ کارکن لڑتے رہتے ہیں مگر سردار لوگ جب پارٹی میں شامل ہوتے ہیں یا پھر سابق گورنر سردار ذوالفقار خان کھوسہ جیسی شخصیات نوازشریف کے بعد بلاول بھٹو کو تحائف پیش کرتے ہیں تو کارکن کے دل پر جوقیامت گزرتی ہے اسکے بارے میں وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتا۔