اکبر الہ آبادی نے کہا تھا : ہم ایسی کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کوپڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں اس شعر کو پڑھنے کے بعد بار بار نظام تعلیم کا جائزہ لیتا رہا کہ ایسا کہاں ہوتا ہے ۔جب مدارس کے نصاب اور ماحول کا جائزہ لیا تو وہاں قال اللہ و قال الرسول کی صدا سنائی دی ۔ایک وحشی صفت کو بھی اچھا انسان بنانے کا ماحول نظر آیا ۔طلبا میںادب اس قدر کہ خود ادب بھی حیران۔ ہڑتال، جلائو گھیرائو،اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی ،بہت بڑی بات۔اساتذہ کے سائے پر بھی پائوں رکھ کر گزرنا ، گوارا نہیں ۔ مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی بھارت کے ایک جید عالم دین ہیں ۔ آپ نے سورہ الکہف کی تفسیر میں دجالی نظام تعلیم کی دوخصوصیات لکھی ہیں:حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو قتل کردیا کہ وہ بڑا ہوکراپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر میں مبتلا کرے گا ۔جس بچے کو پسند کیا گیا ،وہ دو خصوصیات کا حامل ہوگا۔ اول، اللہ کا خوف رکھنے والا پاکیزہ لڑکا۔دوئم ،رشتہ داروں سے حسن سلوک میں بہتر۔آپ فرماتے ہیں :یہاں سے پتا چلاجس نظام تعلیم سے بچوں میں یہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں ،وہ نظام دجالی ہے۔ہمیں بھی دیکھنا چاہیے کہ ہمارے بچے اپنے نظام تعلیم سے کیا سیکھ رہے ہیں ۔ برادرم مولانا احمد حنیف جالندھری نے جامعۃ الخیر لاہور سے قرآن کریم حفظ کرنے والے62بچوں کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ۔ میں جب پنڈال میں پہنچا تو اساتذہ ،علما کرام ااور حفاظ ِقرآن کے ساتھ ساتھ ان کی فیملیاںموجود تھیں ۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے روح رواں مولانا قاری حنیف جالند ھری قرآن کی عظمت پر خطاب فرما رہے تھے ۔آپ نے عصر حاضر کی مثالیں دیکر ،جس احسن انداز میں مدارس اور سکولز و کالجز کے تعلیمی نظام کا جائزہ پیش کیا ،وہ حاضرین نے نہ صر ف سماعت کیا بلکہ دلوں میں بھی اتر گیا ۔ حافظ قرآن دنیا میں رزق میں کشادگی کا سبب اور آخرت میں والدین کی شفاعت کا ذریعہ بنے گا ۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے قائد اعظم ؒ کے بارے میں فرمایاتھا: بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان۔ عمر بھر جھوٹ نہ بولا، خیانت کا ارتکاب کیا اور نہ پیماں شکنی کا۔ سچا مسلمان اور کیا ہوتا ہے۔افسوس زمانہ حاضر کے سیاستدانوں میں یہ صفت موجود نہیں۔مگر اگر کسی نے سیاست دانوں میں سچا عاشق رسول دیکھنا ہے ،تو وہ کیپٹن (ر)صفدر ہے ۔ایک امیر گھیرانے کا داماد ہونے کے باوجود ،عشق مصطفی اس کے خون میں شامل ہے۔کل کی تقریب میں حفاظ کرام کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اس کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ جس زمین پر بارش نہ ہو،وہ زمین بنجر ہو جاتی ہے۔جس گھر میں دین نہ، وہ گھر ویران ہو جاتا ہے۔چوہدری برادران کے گھر میں بھی ایک چراغ جل رہا ،جس کی روشنی سے درودیوار جگمگا رہے ہیں ۔ چوہدری راسخ الہٰی نے والد صاحب کی سیاست کا رخ بھی دین کی جانب موڈ دیا ہے ۔تبلیغی جماعت کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے ،جس نے کئی افراد کی زندگیاں بدل دی ہیں ۔قاری حنیف جالندھری صاحب نے اپنے خطاب میں مثال دی ہے کہ مرحومین کو ایسے ہی ثواب ملتا ہے ،جیسے ہمیں آج کے دور میں ایزی لوڈ ۔یقینی طور پر مولنا محمدالیاس ؒ بانی تبلیغی جماعت کی قبر پر نور برس رہا ہو گا ۔ جامعۃ الخیر کا سنگ بنیادسید نفیس الحسینی ؒ ،ڈاکٹر سید عبد القادر آزاد ؒ ،مولنا سلیم اللہ خان ؒ اور مولانا عبد الرحمن اشرفی ؒ نے رکھا تھا ۔چاروں بزرگ اللہ کو پیارے ہو چکے، مگر ان کا لگایا ہوا پودا اب تناور درخت بننے جارہا ہے ۔جس مدرسے سے 62بچوں نے قرآن مجید حفظ کر لیا ۔وہ اب ترقی کی منازل طے کرنا شروع ہو چکا ہے ۔اگر شعبہ جات کا جائزہ لیا جائے تو ،شعبہ حفظ،درجہ کتب ،تدرین المعلمین، عربی لینگوئج کورس،انگلش لینگوئج کورس،کمپیوٹر کورس اورالیکٹریکل کورس کے شعبہ جات ہیں ۔محکمہ اوقاف پنجاب کے زیر انتظام جامعہ ہجویریہ کے علاوہ لاہور کے کسی بھی مدرسہ میں یہ کورسز نہیں پڑھائے جاتے ۔وہاں پر بھی ڈاکٹر سیدطاہر رضا بخاری سابق ڈی جی اوقاف کی شب و روز کی محنت سے یہ ایک ماڈل مدرسہ قائم ہوا تھا ۔ کراچی کے جامعۃ الرشید کی بات ہی دوسری۔پاکستان بھر کے وفاق کے لیے جامعۃ الرشید ایک مثال۔کاش کوئی تقلید بھی کرے۔ برادرم احمد حنیف نے ایک ہی چھت تلے کئی نورانی چہروں کو جمع کر رکھا تھا ۔مفتی محمدحسن صاحب،مولنا فضل الرحیم صاحب،مولنازاہد الراشدی صاحب،استاذی مولنا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی صاحب ،مولانا اجود عبید،مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی اور عزیزم مولانا عثمان آفاق۔سبھی علماعصرحاضرکے عارف قائد وفاق المدارس العربیہ مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی صاحب کو سننے کے لیے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ چند روز قبل حرمت سود پر بھی کراچی میں تمام مکاتب فکر کے علما کرام کو جمع کیا ۔اگر آدمی تعصبات سے دور ہو، تو لوگ ایسے ہی جمع ہوتے ہیں ،جس طرح پروانے شمع کے گرد ۔وہی آدمی پورے قد سے کھڑا رہ سکتا ہے، خوب سوچ سمجھ کر جس نے ایک رائے قائم کی ہو۔ اپنے موقف کی حقانیت پر جسے پورا یقین ہو۔ قائد اعظمؒ کے زیرِ استعمال ساز و سامان کی حفاظت کرنے والے نگہبان نے قرآن کریم کے ان نسخوں کا ذکر کیا، جن سے آپ استفادہ کیا کرتے۔ محکم یقین کے وہ حامل نہ ہوتے، اگر اللہ پر ان کا ایمان پختہ نہ ہوتا۔ اس بلند مقام پر وہ کس طرح فائز ہوئے؟ کیا یہ فقط بچپن کی تربیت کا نتیجہ تھا؟ سندھ مدرستہ الاسلام کے اساتذہ کا فیض یا اس کے سوا بھی؟ یہ قرآن کریم کا اعجاز دکھائی دیتا ہے ۔ مطالعہ کی عادت کی افزائش کیلیے ماحول کی بڑی اہمیت ہے،اچھا علمی ماحول، اہل علم کی صحبت اور علمی فضا ایک جاہل آدمی کے اندر بھی علم کی پیاس پیدا کردیتی ہے۔ جبکہ غیر علمی ماحول اور جہلا کی صحبت علم دوستوں کے مزاج کو بھی بگاڑنے کا سبب بنتی ہے۔ دینِ اسلام کا امتیاز ہے کہ اس کے تمام شرعی علوم اپنے کہنے والے کے ساتھ سند کے ذریعے قائم اور مربوط ہیں، اسی امتیازی خصوصیت کی بنیاد پر علومِ اسلامیہ کی استنادی حیثیت نہایت مضبوط ہے، اس کے برعکس دوسرے ادیان اور مذاہب کے بنیادی عقائد سے لے کر عام علوم تک کی حیثیت نہ صرف مشکوک بلکہ ناقابلِ اعتمادہے۔اسناد دراصل کسی بھی علم کے قابلِ اعتماد ہونے یا نہ ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خصوصاً علم حدیث میں کہ اس کے پورے ذخیرے کا دارمدار سند میں مذکور راویوں پر ہوتا ہے۔ راوی قابل اطمینان ہیں تو حدیث قابلِ قبول ہے، ورنہ نہیں۔ سند زمانے کے ساتھ ساتھ لمبی ہوتی گئی، جو زمانہ دورِ رسالت کے قریب ہے، اس کی سندیں مختصر ہیں، اور جو زمانہ بعید ہے، وہاں سلسلہ سند نسبتاً لمبا ہے۔ برادرم احمد حنیف جالندھری کی زبان سے حفظ قرآن مجید کی سند سنی تو حیران رہ گیا ۔اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔