لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر نیب نے پیرا گون ہائوسنگ سوسائٹی سکینڈل میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو گرفتار کر لیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ نیب نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی طلب کر رکھا ہے۔ نیب کی تحقیقات اور نئی گرفتاریوں میں زیادہ تر ان سیاستدانوں کا نام آ رہا ہے جو اعلیٰ حکومتی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ ملزمان کی سیاسی حیثیت کے باعث بعض حلقوں نے ان قانونی کارروائیوں کو سیاسی انتقام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

عدالت عظمیٰ کے وہ ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جن میں سابق حکومتوں کو سسلی کے جرائم پیشہ مافیاز کے طرز پر چلانے کی مثال دی گئی۔ یقینا سارے سیاست دان جرائم پیشہ ہیں نہ ان کی دیانت داری اور حب الوطنی پر شک کیا جا سکتا ہے مگر سیاسی جماعتوں کی ملکیت رکھنے والے خاندانوں نے جس طرح جماعتی ڈھانچے کو جمہوری اصولوں کی بجائے اپنی خواہشات اور مفادات کے تابع رکھااس سے متعدد منفی روایات نے جڑ پکڑی۔ قانون پسند لوگوں کی جگہ ایسے افراد ہر شعبے میں آگے آنے لگے جو اپنی قیادت کو خوش کرنے کے لیے قانون شکنی پر آمادہ ہوتے ہیں۔ سیاسی قیادت چونکہ پہلے ہی اپنی جماعت کو کسی اصول کے تحت نہیں چلا رہی لہٰذا وہ شہریوں اور سرکار کی اراضی پر قبضہ کرنے والوں، رشوت لینے اور دینے والوں، ملاوٹ کرنے والوں، بھتہ لینے والوں، اقربا پروری اور بدعنوانی کے مرتکب افراد کو اپنے سہارے کے طور پر استعمال کرتی رہی۔ اس وقت ملک کی حالت پر غور کریں تو ہر خرابی کا پس منظر سمجھ میں آ جائے گا۔

افراد خاندان میں اور خاندان قبیلوں میں ڈھلتے رہتے ہیں۔ قبیلے اپنے تعصبات کے ساتھ زندہ رہتے ہیں مگر قومی ریاستوں کی تشکیل کے بعد قبیلوں کو ثقافتی اور سیاسی وحدت کو مرکز بنا کر قوم کی صورت میں ڈھلنا پڑا۔ پاکستان کا قیام ایک ایسی قوم کے لیے الگ خطہ حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کا نتیجہ تھا جو سیاسی اور ثقافتی انفرادیت کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی شناخت کو بھی اہمیت دیتی تھی۔ اس تفہیم کے تحت پاکستانی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شہری اپنے طرز عمل سے اعلیٰ اقدار کا نمونہ پیش کرے۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت رائج ہے۔ اس طرز حکومت میں سیاسی جماعتیں خود کو عوام کی نمائندگی کے لیے پیش کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کرتی ہیں جو عوام کی زندگی مشکل بنائے ہوئے ہوں۔ عوام جس سیاسی جماعت کے منشور اور قیادت پر اعتماد کا اظہار کریں اسے آئینی طور پر یہ حق مل جاتا ہے کہ ریاست کی انتظامیہ کی ذمہ داری سنبھال لے۔ ریاست کے وسائل بڑھانا اور مسائل میں کمی کے لیے حکومت دیانتداری سے کوشش کرتی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر قائم مملکت خداداد پاکستان کی اکثر سابق حکومتوں نے اپنی آئینی اور قومی ذمہ داریوں کا احساس نہ کیا۔ جس جماعت کو قومی ترقی اور بہبود کے نام پر ووٹ ملے اس کے رہنمائوں نے ریاستی وسائل کو ذاتی ترقی و خوشحالی کی طرف موڑ دیا۔ اس طرح سیاستدانوں کے درمیان ملکی خدمت کے لیے مسابقت ریاستی وسائل کو لوٹنے کی دوڑ کی شکل اختیار کر گئی۔

پارلیمنٹ میں آنے والے لوگ دیانتدار اور قوم کے حقیقی خادم ہوتے تو وہ پارلیمنٹ کو طاقتور بناتے۔ پارلیمنٹ اس قابل ہوتی کہ ہر نوع کی پالیسی پر یہاں مفید تجاویز آتیں۔ پارلیمنٹ ہی وہ پہلا پلیٹ فارم ہوتی جہاں کسی رکن کی غیر قانونی سرگرمی پر شکایت کی تحقیقات کی جاتیں اور مناسب سزا کی سفارش کی جاتی۔ ایسا ہوتا تو پارلیمنٹ مضبوط ہوتی اور خود احتسابی کی روایت مستحکم ہوتی۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ دونوں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، دونوں کو متعدد بار اقتدار ملا۔ یہ ان کا قومی فرض تھا کہ ملک ہمیں احتساب کا ایسا نظام قائم کرتے جس کی فعالیت اور غیر جانبداری ہر شک سے بالاتر ہوتی۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے نوے کے عشرے میں احتساب کے جس ادارے کی داغ بیل ڈالی اس نے سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے سوا کوئی کام نہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی دنوں میں نیب نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ ایسے لوگوں کے مالیاتی اور انتظامی جرائم کی تحقیقات ہوئیں جو کسی حکومت میں با اختیار منصب پر فائز رہ چکے تھے۔ یہ سلسلہ اسی روح کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا تو ہر سو پھیلی بدعنوانی کو قابو کرنے میں آسانی ہوتی مگر جنرل پرویز مشرف کی سیاسی مجبوریوں نے آخرکار  مطلوب سیاستدانوں کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ 2008ء میں پیپلزپارٹی کو چوتھی بار اقتدار ملا مگر سیاسی مفاہمت کے نعرے نے احتساب کی کوئی شکل نہ بننے دی۔ 2013ء میں مسلم لیگ(ن) اقتدار میں آئی تو عوام اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ کب بیرون ملک چھپائے گئے اثاثے اور دولت ملک واپس لائی جاتی ہے اور سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کا کب حساب لیا جاتا ہے۔ 2018ء میں جب مسلم لیگ(ن) کی حکومت پانچ برس مکمل کر کے رخصت ہوئی تو درجنوں معاملات میں اس پر کرپشن اور بے ضابطگی کے الزامات تھے۔ حکومتی وزراء اور حکمران خاندان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا تھا جبکہ جو اثاثے اور آمدن ظاہر کیے گئے تھے وہ بہت کم تھے۔ ایسے غیر شفاف رہن سہن کے باعث سیاست دان اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ اس لیے عوام ہر با اختیار اور طاقتور شخصیت کی گرفتاری پر اب ’’سیاسی انتقام‘‘ یا ’’جمہوریت دشمنی‘‘ کے فریب میں نہیں آتے۔ نیب اگر پراسیکیوشن کے نقائص کو دور کرے اور بلا امتیاز اپنی کارروائیاں جاری رکھے تو طاقتور کے قانون سے ماورا ہونے کا تاثر ختم ہو سکتا ہے۔