بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے اس دھماکے نے دنیا بھر کے سامنے لاتعداد سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سترہ سالہ ’’سول وار‘‘ نے لبنان کی معیشت کو اتنا تباہ نہیں کیا ہو گا جس قدر دور رس اور تباہ کن اثرات اس دھماکے سے مرتب ہوں گے۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ چند سو افراد کی جانیں گئی ہیں، چند ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں اور چند کلو میٹر کے علاقے کی عمارات تباہ ہوئی ہیں۔ اس سے کئی گناہ زیادہ تباہی تو 2006ء میں آئی تھی جب ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’اسرائیل‘‘ میں جنگ ہوئی تھی۔ حزب اللہ تو اپنے ٹھکانوں میں محفوظ و مامون رہی، لیکن اسرائیل نے پورا بیروت راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اس چونتیس روزہ جنگ کے بعد بیروت کے شہریوں نے اسے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ لیکن اس دفعہ بحران سے نکلنا مشکل ہے۔ پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لبنان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جو بیرونِ ملک آباد لبنانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم پر چلتا ہے۔ اس وقت اندازاً سینتالیس لاکھ لبنانی اپنے ملک میں رہتے ہیں اور ایک کروڑ اسی لاکھ بیرونِ ملک قسمت آزمائی کرکے رقوم گھر بھیجتے ہیں جو لبنان کی جی ڈی پی کا 17 فیصد ہیں۔ بیرونی ملک سے آنے والی اسقدر رقوم کے باوجود بھی لبنان بدترین قرضوں کی لپیٹ میں ہے۔ لبنان میں غلّہ نہیں ہوتا کیونکہ سب تو ملک چھوڑ گئے، فصلیں کون اگائے، اس لئے غلّہ باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ دھماکے کے قریب ہی خوراک کا گودام تھا، جس میں لبنان کا 85فیصد غلّہ پڑا ہوا تھا جو جل کر راکھ ہو گیا۔ دھماکہ جس گودام میں ہوا ہے اس میں ایمونیم نائٹریٹ کی موجودگی میں بھی پراسراریت ہے۔ روس کی کمپنی کا جہاز ’’MV Rhosus‘‘ دوہزار سات سو پچاس ٹن ایمونیم نائٹریٹ لے کر موزمبیق جا رہا تھا کہ کچھ مالی مشکلات کی وجہ سے بیروت کی بندرگاہ پر رک گیا۔ بیروت کے کسٹم ڈائریکٹر ’’بدری داہر‘‘ کا کہنا ہے کہ بار بار اس جہاز کو وہاں سے جانے کیلئے کہا گیا، لیکن یہ وہاں سے ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہ ایک تیرتا ہوا بم تھا۔ کسٹم کے افسران نے عدالت کو لکھا کہ اس ایمونیم نائٹریٹ کو اتار کر کسی دوسرے ملک بیچنے کی اجازت دی جائے تاکہ یہ بندرگاہ محفوظ ہو جائے۔ جج کی عدالت میں روسی مالکان بھی جاپہنچے اور پھر جیسے عدالتوں میں ہوتا ہے، معاملہ لٹکتا گیا۔ سامان اٹھا کر بندرگاہ کے گودام میں رکھ دیا گیا تاکہ پورٹ کی برتھ خالی ہو سکے اور یہ مٹیریل گودام میں چھ سال سے پڑا ہوا تھا۔ ایمونیم نائٹریٹ در اصل کھاد بنانے کے کام آتا ہے، لیکن اپنی آتش گیری اور آتش زدگی کی صلاحیت کی وجہ سے بموں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسے بڑی پلاننگ سے نشانہ بنایا گیا، جس سے ایک تو 85 فیصد غلّہ جل کر راکھ ہو گیا اور دوسرا یہ کہ واحد بندرگاہ تھی جو بالکل تباہ ہو کر رہ گئی، یعنی اب گندم منگوانے کے سمندری راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ لبنان میں غلّہ اب صرف دو ممالک کی بندرگاہوں کے راستے آسکتا ہے، ایک اسرائیل اور دوسرا شام۔ کسقدر صفائی سے یہ کھیل کھیلا گیا ہے کہ وہ لبنانی حکومت جو پہلے ہی معاشی بدحالی کی بدترین مثال تھی، اسے ان دونوں ملکوں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ دھماکے سے پہلے لبنانی معیشت کا عالم یہ تھا کہ لبنان کے بیشتر علاقوں میں صرف تین گھنٹے سے بھی کم بجلی میسر تھی۔ صرف اس ایک ماہ میں لبنانی کرنسی کی قیمت ساٹھ فیصد گری۔ روٹی کی پورے ملک میں شدید قلت تھی، کیونکہ حکومت کے پاس باہر سے گندم منگوانے کیلئے زرمبادلہ ہی نہیں تھا۔ فیس بک اکائونٹس ایسے اشتہاروں سے بھرے ہوئے تھے جن میں لوگ خوراک کے لئے گھر کا سامان بیچ رہے تھے۔ مشکلات کے اس عالم میں حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر بھیک مانگنے کے لئے کھڑی تھی، اور دھماکہ ہو گیا۔ آج سے چودہ سال پہلے 2006ء کی تباہی کے بعد تمام عرب ممالک نے بیروت کی تعمیرِنو کے لئے بیشتر سرمایہ فراہم کیا اور صرف چند ماہ میں بیروت دوبارہ روشنیوں کا مرکز بن گیا تھا۔ لیکن اس تعمیرِ نو کے بعد بیروت کو بدترین فرقہ وارانہ بدمعاشی کا شکار کر دیا گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے پورے لبنان کو حزب اللہ نے امن قائم کرنے کے نام پر یرغمال بنا لیا ہو۔ ان دنوں حزب اللہ لبنان میں بیٹھ کر شام اور عراق میں لڑائی لڑتی ہے اور نتیجے میں لبنان کا غریب ملک شام و عراق سے آئے چودہ لاکھ مہاجروں کو پالتا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں حزب اللہ کے جانبازوں نے اسرائیل کا تو ایک بھی سپاہی جہنم رسید نہیں کیا لیکن شام اور عراق میں مسلمانوں کے گلے ضرور کاٹے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سال بعد کوئی ایک عرب ملک بھی لبنان کی ویسی مدد کرنے کو تیار نہیں جیسی انہوں نے 2006ء میں کی تھی۔ یہ ہے وہ بدترین بحران جس میں لبنان اسوقت گرفتار ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، مسقط اور بحرین اور دیگر ممالک ایک ایسے ملک کی مدد کو تیار نہیں جو حزب اللہ کا یرغمال ہو۔ دوسری جانب بدقسمتی دیکھئے کہ اس لبنان میں ایران کا اسلحہ تو دھڑا دھڑ برسوںسے آرہا ہے، لیکن دھماکے کے بعد ایران سے جو جہاز آئے ہیں، ان میں زیادہ تر زخمیوں کے علاج کے لئے دوائیاں اور تھوڑی سی خوراک تھی جو لبنان کے مسئلے کا حل نہیں۔ آیت اللہ خامنائی کی ہمدردی کا ٹوئٹ تو موجود ہے لیکن کیا کیا جائے، ایران تو خود اپنی ضروریات کے لئیے غلّہ باہر سے منگواتا ہے۔ ایران شام کی بندرگاہ ’’لتا کیہ‘‘ سے غلّہ بھجوا تو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے، کہ اس غلّے کی قیمت کون ادا کرے گا۔ لبنان حکومت کے پاس تو سرمایہ نہیں ہے اور اس کا حلیف ایران کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ عرب ممالک خاموش تماشائی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ 2006ء میں انہوں نے لبنان کو جو امداد دی تھی، اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ یمن سے لے کر کتیف تک ہر جگہ فرقہ وارانہ فساد کو بھڑکا کر پورے خطے میں آگ لگادی گئی۔ یہ ہے وہ المیہ، جس کا شکار بلادِ شام کا یہ ملک بنا ہوا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے 12اکتوبر 1187ء میں بیت المقدس میں فاتحانہ داخلے سے لے کر 1920ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک 623سال بلادِ شام کے مسلمانوں کی عظمت ، سربلندی اور سرفرازی کے سال تھے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور یروشلم میں یہودیوں کی واپسی سے اس دورِ فتن کا جو آغاز ہوچکا ہے اور سید الانبیا ؐ ء کی پیش گوئیوں کے مطابق اس کا مرکزی مقام بلادِ شام ہوگا۔ یہ علاقہ آخری بڑی جنگ میں امام مہدی کا ہیڈکوارٹر ہوگا، لیکن اس سے پہلے شام ہی وہ خطہ ہے، جس نے امام مہدی کے خلاف منظم ہونا ہے۔ اسی خطے سے ایک لشکر برآمد ہوگا جسے رسولِ ا کر مﷺ نے ’’سفیانی‘‘ کا لشکر بتایا ہے۔ روایات کے مطابق سفیانی بلادِ شام کا حاکم ہوگا جو ابتداء میں بہت متقی و پرہیزگار ہوگا، یہاں تک کہ اس کے نام کا خطبہ مسجدوں میں پڑھا جائے گا، پھر وہ ظلم پر اتر آئے گا اور مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے گا۔ یعنی بلادِ شام کے ان تینوں ممالک میں کوئی ایسا رہنمامسلط کیا جائے گا جو بظاہر نیک و پرہیزگار نظر آتا ہوگا، لیکن جب اسے حضرت امام مہدی کی خانہ کعبہ میں بیعت کا علم ہوگا تو وہ ان سے مقابلے کے لئے مکہ کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا (مستدرک، فیض القدیر، قرطبی)۔ احادیث میں امام مہدی کی پہچان کی دیگر علامتوں میں اصل بنیادی اور سب سے بڑی علامت یہی ہے کہ ان کے مقابلے میں شام سے آنے والے سفیانی کے اس لشکر کو اللہ تعالیٰ بیداء کے مقام پر زمین میں دھنسادے گا (بخاری، مسلم)۔ اس لشکر کے دھنسنے تک شام خون رنگ ہے، اس لئے کہ یہاں سے امام مہدی کے مخالف لشکر نے منظم ہونا ہے۔ یہ سب قتل و غارت اسی لشکر کے انتظام کیلئے کی جارہی ہے۔(ختم شُد)