کچھ یادیں، کچھ باتیں اور بہت سی شخصیات آپ کے شعور کی سڑک کب پھلانگ کر لاشعور میں براجمان ہوجاتی ہیں … پتہ ہی نہیں چلتا۔ وقت کی تقسیم میں حال او رماضی یوں گڈمڈ سے ہوجاتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی کے مطابق ’شام کی بات بھی لگتی ہے بہت دور کی بات‘۔ غالباً 2005ء کی بات ہے میں جس روزنامے کے لیے کالم لکھا کرتا تھا اس کی خوش قسمتی تھی اور ہماری بھی کہ اس کے اداراتی صفحے کے ایڈیٹر جناب اطہر ندیم صاحب تھے۔ صحافت کے باوقار ناموں میں سے ایک نام۔ ایسے میں برادرم اشرف شریف خوش نصیب ہیں کہ ان کو ابتدا سے ہی ایسا دیانت دار اور علم دوست استاد میسر آیا۔ تو جب بھی روزنامہ کے دفتر جاتے ادب سے سیاست تک اور تاریخ سے مذہب تک سبھی موضوعات پر احباب سے مکالمہ ہوتا۔ ایسے میں اطہر ندیم صاحب سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا۔ ایک دن اطہر ندیم کہنے لگے ’’کیا تم نے فتوحات مکیہ پڑھی ہے‘‘؟ ہمارا جواب نفی میں تھا۔ ’’اور فصوص الحکم‘‘۔ اس مرتبہ بھی جواب اثبات میں نہ دے سکا۔ اگلے دن ایف سی کالج سے اپنا لیکچر ختم کرکے فتوحات مکیہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ ایک طالبعلم سے ڈرائیونگ کی درخواست کی کہ داتا دربار کے نواح میں گاڑی چلانا میرے بس میں نہ تھا۔ ابن عربی کی فتوحات مکیہ چھ حصوں پر مشتمل تھی اور فصوص الحکم ایک جلد پر مشتمل۔ اسے لائل پور (فیصل آباد) کے صائم چشتی نے بڑی محنت اور ریاضت سے دقیق عربی سے اُردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ان دنوں میں کلاس کو اسلام کے سیاسی افکار پڑھا رہا تھا۔ رات کو امام خمینی اور ڈاکٹر علی شریعتی کو پڑھ کر لیکچر تیار کرتا اور پھر ابن عربی اور ابن عربی۔ وقت اپنا سفر طے کرتا رہا… دنیا داری کے ہنگام میں یہ کتابیں شیلف میں لگی مسکراتی رہیں۔ پھر پتہ چلا کہ ٹھنڈے میٹھے ارشاد عارف صاحب کے ایک قریبی عزیز ہیں جو ابن عربی پر کام کرچکے ہیں۔ ان سے اس عزیز کا نام پوچھا اور پھر … تلاش در تلاش۔ پچھلے دنوں ایک بک ہائوس کے شیلف میں ان کی کتاب ’’مواقع النجوم‘‘ دیکھی، خریدی اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ وہی ابن عربی جس کو سمجھنے کی بہت سی کاوشیں میں کر چکا تھا۔ آپ کا نام محمد تھا، کنیت ابوبکر اور لقب محی الدین تھا۔ آپ کو ابن العربی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ منظر عام پر آنے والی آپ کی کتب تقریباً پانچ سو ہیں … آپ مرسیہ (اندلس) میں پیدا ہوئے۔ ان کے حالاتِ زندگی ماورائے عقل واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ لکھا ہے ’’ابن عربی مصر اپنی قیام گاہ پہنچے اور نیند نے آنکھوں میں قیام کرلیا۔ خواب میں دیکھا آسمان کے تمام ستاروں سے ان کا تعارف کرایا جارہا ہے اور پھر حروف کے ساتھ ان کی دوستی کروائی جارہی ہے۔ صبح شہر کی جانب نکلے کہ کوئی مردِ عارف ملے تو اس سے خواب کی تعبیر دریافت کی جائے۔ پھر وہ مل ہی گیا اور آپ نے اسے اپنا خواب سنایا اور تعبیر کے طالب ہوئے۔ وہ آپ کو پہچانتا نہ تھا۔ اس نے کہا کہ صاحب خواب کے لیے علوم علوی اور علم الاسرار اور فلکیات و نجوم کے دروازے کھل جائیں گے۔ اہل زمانہ میں اس باب میں کوئی اس کا ہم سر نہ ہوگا‘‘۔ فتوحاتِ مکیہ … کیونکر اور کیسے لکھی گئی… اس کا بیان اس تحریر کے بس کا روگ نہیں۔ بس اتنا کہ ابن عربی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’گمان کرتا ہوں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ نہ اس جیسی کتاب لکھی گئی اور نہ لکھی جائے گی۔ سمودی ہیں اس میں انوکھی اور عجیب باتیں‘‘۔ اس کتاب کی تکمیل میں ابن عربی نے اپنی زندگی کے 35 سال صرف کیے۔ سوانح نگار لکھتا ہے کہ اس کتاب کی تکمیل کے بعد اس کتاب کو کعبۃ اللہ کی چھت پر رکھ دیا گیا۔ جہاں وہ ایک سال تک رکھی رہی۔ اس سال بارشیں بھی معمول سے زیادہ ہوئیں۔ ایک سال بعد اس کتاب کو کعبۃ اللہ کی چھت سے اتارا گیا تو بارش کے پانی نے اس کا ایک حرف تک نہیں مٹایا تھا۔ اس لیے اس کا نام ’’فتوحات مکیہ‘‘ رکھا گیا۔ ابن عربی کا ایک مکالمہ جو ایسی ہستیوں سے ہوا جو تفصیلی ذکر کی حامل ہیں۔ مگر اس عظیم عالم نے کہا … اس کا حاصل یہ ہے: ’’جان لو! خیر وجود میں آیا اور شر عدم میں ہے۔ خدا نے انسان کو اپنی رحمت سے پیدا کیا۔ انسان کے وجود میں خالق کے اسماء کی صفات پائی جاتی ہیں۔ جب ذات کا مشاہدہ ہوتا ہے تو توجہ صفات سے ہٹ جاتی ہے۔ جب ذات … ذات کا مشادہ کرتی ہے تو کثرت اپنی وحدت کی طرف لوٹ جاتی ہے … قطرہ سمندر میں مدغم ہوجاتا ہے‘‘ ۔ یہ تھا فلسفہ وحدت الوجود۔ یہ فکر اور فلسفہ ابن عربی سے منسوب ہوگیا۔ آپ کے فلسفہ وحدت الوجود سے اختلاف کرنے والے بے شمار ہیں۔ وہ فلسفہ وحدتِ شہود بیان کرتے ہیں مگر اس کا بیان ایک مشکل کام ہے۔ 627ء ہجری کے محرم کا آخری عشرہ تھا۔ ابن عربی نے خواب دیکھا … آقائے دوجہاںؐ کی زیارت ہوئی۔ آپؐ کے دست مبارک میں ایک کتاب ہے۔ آپؐ کہہ رہے ہیں ’’یہ کتاب لو اور اسے لوگوں تک پہنچائو تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں‘‘۔ پھر حضورؐ نے آپ کو کچھ مطالب اور معانی عطا کیے۔ آپ نے اللہ سے توفیق کی دعا کی اور کتاب کی تصنیف میں جُٹ گئے۔ اس کتاب کا نام ’’فصوص الحکم‘‘ ہے۔ یہ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود پر حرف آخر مگر کئی اعتبار سے مبہم ہے۔ ابن عربی کی تصانیف میں تصوف کے بنیادی مباحث بھی ہیں، روح کی ماہیت پر گفتگو بھی ۔ اعمال کس طرح قلب و نظر کو متاثر کرتے ہیں۔ منازلِ علم … علم کے اسرار، باطنی دنیا، عرش اور ایسے بہت سے موضوعات جنہیں لفظوں کی گرفت میں لانا دقیق ہی نہیں مشکل تر بھی ہے۔ ابن عربی کے مطابق ’’علم خدا کا عطا کردہ ہے اور عقل کی بساط سے بہت بلند ہے‘‘۔