خلافتِ عثمانیہ کے اختتام، جنگِ عظیم اوّل میں اتحادی افواج کی فتح اور قومی ریاستوں کے قیام کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ مسلمانوں کے ذہنوں سے صدیوں پرانا ’’ملتِ اسلامی‘‘ کا جغرافیہ ’’محو‘‘ ہو کر رہ گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ حکیم اور سید الانبیاء ﷺ نے اپنی احادیث میں جن علاقوں کا تذکرہ کیا ہے، ان کی وسعت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرکے انہیں مخصوص نام دے کر ان کی وہ شناخت مٹانے کی کوشش کی گئی جو احادیثِ رسول ﷺ میں ملتی ہے۔ اس تقسیم کا سب سے بڑا نشانہ ’’بلادِ شام‘‘ ہے۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے سات ہزار سال پرانا ہے، آج کی موجودہ چار قومی ریاستوں، اردن، لبنان، شام اور فلسطین (اسرائیل) پر مشتمل ہے۔ قدیم رومن اس علاقے کو ’’لیونٹ‘‘ (Levant) کہا کرتے تھے، جس کا مطلب ہے ’’اُبھرتے ہوئے سورج کی سرزمین‘‘۔ اسی سرزمین کے متعلق اللہ فرماتا ہے، ’’اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، وارث بنا دیا، اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا ہے‘‘ (الاعراف: 137)۔ ’’یہ بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کے بعد اس خطے میں آبادی کا ذکر ہے‘‘۔ اسی سرزمین کے مرکز یروشلم کی ’’مسجدِ اقصٰی‘‘ کا تذکرہ فرماتے ہوئے اللہ نے کہا، ’’پاک ہے وہ ذات جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی، جس کے قرب و جوار کے علاقے کو ہم نے بابرکت بنایا ہے (بنی اسرائیل: 1)۔ سید الانبیاء ﷺ نے تین دفعہ فرمایا ’’یاطوبیٰ للشام‘‘ یعنی ’’شام کی سعادت کا کیا کہنا‘‘ کہا، صحابہؓ نے پوچھا کیونکر، فرمایا ’’رحمت کے فرشتوں نے اپنے پرو بازو شام پر پھیلا رکھے ہیں (ترمذی، مسند احمد، مستدرک الحاکم)۔ اسی سرزمینِ شام کو ہی اللہ نے آخری معرکۂ خیر و شر کے لئیے منتخب کیا ہے۔ حضرت ابوذرغفاریؓ کی وہ حدیث جو اسقدر جامع ہے اور جسے حاکم نے شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اس حدیث میں رسولِ اکرم ﷺ کے یہ الفاظ ’’الشامُ ارض الحشر والمنشر‘‘ شام محشرومنشر کی سرزمین ہے (مسند احمد، ابنِ ماجہ، ابنِ عساکر، حاکم)۔ یہ اور دیگر لاتعداد احادیث سے بات عیاں ہوتی ہے کہ قیامت کے نزدیک اہلِ ایمان اس خطے میں جمع ہوتے چلے جائیں گے، اسلئے کہ حضورﷺ نے خود یہاں کوچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ کی وہ حدیث کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا، ’’آخری زمانے میں تمہاری مختلف فوجیں ہونگی، شام میں، عراق میں اور یمن میں، پوچھا گیا ہم کس سمت جائیں، فرمایا تم لوگ شام کی فوج میں شامل ہو جانا اور جو یہ نہ کرسکے تو وہ یمن کی فوج سے جا ملے اور ان کے چشموں کا پانی پئیے‘‘ (بخاری، مسند احمد، ابودائود، حاکم)۔ اسی سرزمینِ شام سے ہی ایک لشکر امام مہدی کے مقابلے کے لئیے نکلے گا اور مکہ کے نزدیک ’’بیدائ‘‘ کے مقام پر زمین میں دھنسا دیا جائے گا (بخاری، مسلم)۔ احادیث کی کتب میں یہ امام مہدی کی شناخت کے لئے دی گئی سب سے واضح علامت ہے۔ اسی لشکر کے دھنسائے جانے کے بعد امام مہدی کا بڑی عالمی جنگوں کے دوران ہیڈکواٹر دمشق کے پڑوس میں واقعہ مقام ’’غوطہ‘‘ میں ہوگا۔ سید الانبیاء ﷺ نے ہجرتِ مدینہ کے بعد صرف ایک ہی ہجرت کی پیش گوئی کی ہے، فرمایا’’ہجرت کے بعد ہجرت ہوگی، پس بہترین شخص وہ ہوگا جو اس جگہ ہجرت کرکے جائے گا جہاں حضرت ابراہیم ؑ ہجرت کر کے گئے تھے (ابودائود)۔ یہی ’’بلادِ شام‘‘ ہے جہاں سید نا عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول ہونا ہے، یہیں دجال کا قتل اور اسی علاقے کے مرکز ’’بیتِ مقدس‘‘ سے اُس لشکر نے ترتیب پانا ہے، جس نے اس خطے میں آکر یہاںکے لوگوں سے مل کر ’’غزوۂ ہند‘‘ برپا کرنا ہے۔ جس خطے کی اسقدر اہمیت ہو اسے کیسے متحد رہنے دیا جا سکتا تھا۔ زوالِ خلافتِ عثمانیہ تک یہ خطۂ اس سلطنت میں دل کی طرح دھڑکتا رہا۔ جو لوگ ’’ارطغرل غازی‘‘ ڈرامہ آج کل دیکھ رہے ہیں، انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ وہ تمام معرکے اسی بلادِ شام میںمنعقد ہوئے تھے۔ ان سے پہلے نو صلیبی جنگیں جو 1145ء سے 1268ء تک لڑی گئیں، ان کا میدانِ جنگ بھی یہی شام کا علاقہ تھا۔ اسی سرزمین کے شہر دمشق میں ایک شخص ’’یوحنا الدمشقی‘‘ (John Of Damascus)پیدا ہوا، جس نے اسلام کے خلاف جھوٹ اور نفرت کی بنیاد پر ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد رکھی جس میں توہینِ رسالت اور توہینِ اسلام کے وہ تمام پہلو شامل تھے جن کی بنیاد پر آج بھی مغرب میں اسلام اور رسولِ اکرمؐ کی شخصیت سے نفرت پیدا کی جاتی ہے۔اسقدر اہم اور مبارک سرزمین کو پہلی ہی جنگِ عظیم کے بعد شام، اردن، لبنان اور برطانوی فلسطین نامی ملکوں میں تقسیم کردیا گیا۔ لبنان کا علاقہ ایسا تھا جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ آباد تھے۔ یہ خطہ یکم ستمبر 1920ء میں فرانس کے حصے میں آگیا۔ یہاں میرونائٹ (Maronite) عیسائی، یونانی آرتھوڈوکس عیسائی، سنی مسلمان، شیعہ، دروز جو شیعہ سے علیحدہ ہوئے اور اپنے عقائد کی وجہ سے ایک نئی شناخت ہیں، سب موجودہ تھے۔ اس کے علاوہ رومن کیتھولک عیسائی اور یہودی غرض کون ہے جو آج بھی یہاں آباد نہیں ہے۔ اس وقت لبنان میں تقریباً اٹھارہ مختلف مذاہب پائے جاتے ہیں۔ یہ خطۂ اسقدر اہم تھا کہ بیروت شہر میں امریکن یونیورسٹی 1866ء میں قائم ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ بیروت ابھی خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا اور امریکہ تو ابھی تک ان عالمی طاقتوں میں شمار ہی نہیں ہوتا تھا جو دنیا کے معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں، مگر یورپ کے صیہونی یہودی، امریکہ کی معیشت اور حکومت دونوں پر اپنا قبضہ جما چکے تھے۔ بلادِ شام سے علیحدہ کئے جانے والا یہ خطہ جو آج ’’لبنان‘‘ کہلاتا ہے، اسے جب عالمی طاقتوں نے مکمل آزادی دی تو 1943ء میں ایک ایسا معاہدہ وجود میں آیا جو تحریر نہیں کیا گیا تھا، لیکن وہ آج تک لبنان میں نافذ العمل ہے۔ اس معاہدے کے مطابق لبنان میںپارلیمانی نظامِ حکومت ہوگا، جس کے تحت لبنان کا صدرہمیشہ میرونائٹ (Maronite) عیسائیوں میں سے ہوگا، وزیر اعظم سنی مسلمان، سپیکر اسمبلی شیعہ، ڈپٹی سپیکر پارلیمنٹ اور ڈپٹی وزیر اعظم یونانی آرتھوڈوکس عیسائی ہونگے۔ لبنان کے قیام کے فوراً بعداور 14مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کیساتھ ہی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ لبنان وہ واحد عرب ملک تھا جو اس جنگ میں شامل نہ ہوا، لیکن لبنان کے مسلمان اپنے طور پر اسرائیل پر حملے کرتے رہے۔ لبنان میں فلسطینی مہاجروں کی اکثریت آئی اور اسوقت انکی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔ بیروت کا یہ خوبصورت شہر اور لبنان کا ملک گذشتہ ایک صدی سے ایک مستقل فساد کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مگر یہ ملک 13 اپریل 1975ء میں ایسی قتل و غارت اور خانہ جنگی کا شکار ہوا جو 17سال تک چلتی رہی اور 26اگست 1991ء کے عام معافی کے اعلان پر ختم ہوئی۔ اسی خانہ جنگی کے دوران جنوری 1976ء میں شام نے لبنان کے ایک علاقے پر قبضہ کرلیا تاکہ وہ شیعہ امل ملیشیا اور دروز کی حمایت کر سکے۔ شامی افواج لبنان سے 2009ء میں ’’وزیراعظم رفیق حریری‘‘ کے قتل کے بعد واپس گئیں۔ اسی طویل خانہ جنگی کے دوران 1982ء میں اسرائیل نے بھی اپنی افواج لبنان کے بیشتر علاقوں، خصوصاً بیروت شہر میں اتار کر ان پر اس لیے قبضہ کر لیا تاکہ وہ عیسائی آبادی پر مشتمل جنوبی لبنانی فوج کی مدد کرسکے۔ اسرائیل کی افواج وہاںـ مئی 2000ء تک رہیں۔ اسی دوران صابرہ اور شطیلہ کے فلسطینی کیمپوں میں اسرائیل فوج نے عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ (جاری)