وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی قیمت احتساب سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مختلف تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجرموں کی بجائے دیگر مسائل پر توجہ کا مشورہ دینے والے لوگ ملک کے خیر خواہ نہیں۔ عہدوں پر جرائم پیشہ افراد قابض ہوں تو ترقی نہیں ہوتی۔ نیب کے ترمیمی آرڈیننس پر تنقید کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’’نیب قوانین میں اصلاحات خود اپوزیشن کا مطالبہ تھا اور اب اس سلسلے میں منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حزب اختلاف پارلیمنٹ میں قانون کی بجائے ذاتی مقدمات کا دفاع کرتی ہے‘‘۔ وزیراعظم نے احتساب کے عمل سے پیچھے نہ ہٹنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ تحریک انصاف کی بنیاد ہی اس وعدے پر اٹھائی گئی تھی کہ بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے گا اور بدعنوانوں کا احتساب ہو گا۔ تحریک انصاف کی دو عشروں سے زاید سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ بلا امتیاز احتساب کا نعرہ مقبول رہا۔ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے پہلی تقریر میں جہاں معاشی بحالی، ہمسایہ ممالک سے تعلقات اور صحت و تعلیم کی سہولیات کے متعلق قوم کے سامنے اپنا وژن پیش کیا وہاں انہوں نے بدعنوانی کے خاتمہ اور احتساب کے متعلق اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ بھی کیا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے کام کرنے والے اداروں کو آزادانہ طور پر فرائض ادا کرنے کا کہا۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نیب اور دیگر اداروں کے کام میں مداخلت سے گریز کیا تا ہم یہ امر قابل توجہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بدعنوانی کی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات یا پہلے سے زیر سماعت مقدمات میں سرکاری اداروں کی کارکردگی اطمینان بخش دکھائی نہیں دی۔ حالیہ دنوں حکومت نے نیب کا ترمیمی آرڈیننس منظور کیا ہے۔ اس آرڈیننس کے نفاذ سے قبل ایسی اطلاعات لیک ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ حکومتی شخصیات سمیت اپوزیشن کی اہم شخصیات کے خلاف قانونی کارروائی محدود ہو سکتی ہے۔ کئی سرکاری افسران کو بھی نیب کے ترمیمی آرڈیننس کی منظوری کے بعد فائدہ پہنچنے کی بات کی گئی۔ نیب کے ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا کہ نیب کاروباری افراد کے معاملات میں مداخلت کا مجاز نہیں رہا۔ اس ترمیم کے بعد ٹیکس، لیویز اور ان سے منسلک دیگر معاملات جو نیب کے تفتیشی و تحقیقی مرحلے میں ہیں وہ مزید کارروائی کے لیے متعلقہ اداروں کو چلے جائیں گے۔ نیب کے ترمیمی آرڈیننس میں شق 9کی ذیلی شق 6اے میں ترمیم کے ذریعے قرار دیا گیا ہے کہ عوامی عہدہ رکھنے والی کسی بھی شخصیت کے خلاف تب تک کوئی کارروائی نہیں کی جا سکے گی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے اختیارات کے غلط استعمال سے مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ اس ترمیم کا فائدہ ان تمام مقدمات میں ہو سکتا ہے جن میں نیب کارروائی کا آغاز اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کے تحت کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے میں حالیہ ترامیم سے نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے احسن اقبال، آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں گرفتار بیورو کریٹ فواد حسن فواد، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف، ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں مل سکتا ہے۔ حکومتی ترجمان ڈاکٹر فردوس عاشق کا کہنا ہے کہ آئے روز نیب کے خلاف محاذ کھولنے والی مسلم لیگ ن کا نیب ترمیمی آرڈیننس پر سیاست کرنا افسوسناک ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف ضرور کارروائی ہو گی جنہوں نے طریقہ کار کی خامیوں یا محکمانہ نقائص کی وجہ سے ذاتی مفادات حاصل کیے ہوں گے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے اثاثہ جات میں بے پناہ اضافہ کرنے والے عوامی عہدیدار کارروائی سے مبرا نہیں ہوں گے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس پر دو طرح سے ابہام ظاہر ہوا۔ پہلا حکومتی ردعمل کی صورت میں اور دوسرا اپوزیشن کا اس پر ردعمل۔ ایک آزمودہ طریقہ کار ہے کہ جب کسی اہم معاملے پر حکومت قانون سازی کرتی ہے تو تمام سرکاری ذرائع ابلاغ کو اس سلسلے میں پالیسی دی جاتی ہے۔ اسی طرح حکومتی ترجمانوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حکومتی فیصلے کا دفاع کن بنیادوں پر کرنا ہے اور اپوزیشن کے اعتراضات کو عوامی سطح پر کس طرح زائل کرنا ہیں۔ نیب کے ترمیمی آرڈیننس پر جب ذرائع ابلاغ نے مسلسل تنقیدی روش اختیار کی تو وزیر اعظم نے پارٹی اور حکومتی ترجمانوں کا اجلاس طلب کر کے ہدایات دیں کہ کس طرح اس آرڈیننس کا دفاع کیا جائے۔ یہ طریقہ کار معمول کے رائج اصولوں کے برعکس اور حکومتی صفوں میں ناتجربہ کار افراد کے عمل دخل کی علامت ہے۔ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کو کرپشن کے خاتمہ کی بنیاد پر ووٹ دیئے ہیں۔ حکومت جب اس سلسلے میں اہم فیصلے کرے گی اور فیصلوں کی تشریح کے متعلق مؤثر وضاحت نہ کر پائے گی تو اس سے شکوک و شبہات کا جنم لینا قدرتی امر ہو گا۔ حکومت کی ذمہ داری صرف فیصلے کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا ہی نہیں ان فیصلوں سے متعلق اگر شکوک اور ابہام پیدا ہو کر عوامی بے چینی کی وجہ بنے تو اس صورتحال میں حکومت کا ایک وضاحتی عمل بھی دکھائی دینا چاہئے۔ پاکستان میں ہر جگہ بدعنوانی ہے۔ اس بدعنوانی نے مسائل کی شدت بڑھا دی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے عوام کو توقع ہے کہ وہ بلاامتیاز احتساب کو یقینی بنائے گی اور سیاسی مصلحتوں کو اپنے اصولوں پر غالب نہیں آنے دے گی۔