’’ نواسۂ بھٹو‘‘ بلاول بھٹو کا کراچی سے اپنے ’’ نانکے‘‘ (اردو/ ہندی میں نانیہال/ ننھیال) لاڑکانہ تک "Train March" یا سیاسی طور پر "Under Training March" کیا ہے؟۔ اُن کے بابا سائیںؔ (دامادِ بھٹو) آصف زرداری صاحب ہی جانتے ہوں گے؟ لیکن بلاول نے اپنے بابا سائیں اور پھوپھی صاحبہ فریال تالپور کی حمایت میں ایک ایسی بونگی ماری ہے کہ ہر مسلمان اُس کی مذمت کرے گا‘‘۔ ابنِ آصف زرداری نے ’’ٹرین مارچ‘‘ کے دَوران مختلف "Railway Stations" پر خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ بھٹو خاندان کے لئے ہمیشہ راولپنڈی میں کربلاؔ برپا کِیا جاتا ہے‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ بھٹو خاندان کو سیّد اُلشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کے خاندان کو اپنے خاندان کے مماثل (Similar & Alike) قرار دینا (مسلمان کہلانے والے) کسی شخص کی طرف سے بد زبانیؔ ہی کہا جائے گا؟۔ اِسی طرح کی بدزبانی سپریم کورٹ کی طرف سے ’’ صادقؔ اور امینؔ‘‘ نہ ہونے پر نااہل قرار دئیے گئے ، سزاؔ یافتہ وزیراعظم کی بیٹی (زوجہ کیپٹن (ر) محمد صفدر) مریم نواز نے بھی (5 جولائی 2017ء کو ) پانامہ لیکس کیس میں "J.I.T" کے رو برُو پیشی بھگتنے کے بعد ، میڈیا سے خطاب کرتے ہُوئے ،سیاست میں سیّد اُلشہدا حضرت امام حسین ؑ کی ہمشیرہ محترمہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار ادا کرنے کا اعلان کِیا تھا۔

مَیں نے 9 جولائی 2017ء کے کالم میں مریم نواز کو مخاطب کرتے ہُوئے لکھا تھا کہ’’ حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ کے ناموں پر آپ کے تجارت پیشہ بھائیوں کے نام بھی حسن ؔنواز اور حسین ؔنواز ( رکھے گئے) ہیں جب آپ (اپنے منشور کے مطابق) حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اُسوہ میں ’’ جمہوریت کے استحکام اور جمہور کی بھلائی کے لئے‘‘ جدوجہد کریں تو کیا اِس سے پہلے آپ اور آپ کے دونوںبھائی اپنے اپنے اُسوہ پر توجہ دیں گے؟۔

معزز قارئین!۔ اِس طرح کے بدزبان لوگوں کے لئے فارسی زبان میں ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ چہ نسبت خاک را، با عالم پاک‘‘۔ سزا یافتہ مریم نواز صاحبہ اور حضرت علی ؑ کے صفاتی نام صفدرؔ والے کیپٹن (ر) محمد صفدر، ضمانت پر ہیں اور حسن نواز اور حسین نواز مفرورؔ (Absconders) ہیں ۔ میرے ایک لہوریؔ دوست ، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رُکن سیّد یوسف جعفری نے (جو پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد سیاست سے تائب ہوگئے تھے ) مجھے بتایا تھا کہ ’’ بلاولؔ ۔ زرداری قبیلے کے کسی بزرگ کا نام تھا‘‘ لیکن، مَیں نے مولوی نُور اُلحسن نیئر (مرحوم) کی ’’ نُور اُللغات‘‘ میں دیکھا تو پتہ چلا کہ ’’ کلاسیکی موسیقی کے اساتذہ کے مطابق ’’ 6 راگ ؔہیں اور 36 راگنیاںؔ اور ایک راگنی کا ؔنام ہے بلاولؔ ۔

6 نومبر 2016ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’ بلاول راگنی اور دوسری راگنیاں‘‘ جس پر کئی جیالوں نے مجھے ٹیلی فون پر اپنے ’’ لیڈر ‘‘ کی شان میں اپنے اپنے انداز میں غزلؔ سنائی اور مَیں نے بھی جوابِ آں غزل؟ ۔ 16 اگست 2016ء کو قمری مہینے کا 13 واں دِن تھا اور ہندی مہینے بھادوں کا دوسرا دِن جب (اُن دِنوں ) وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات جناب مولا بخش چانڈیو کا یہ بیان قومی اخبارات میں شائع ہُوا تھا کہ ’’ ہمارے لیڈر بلاول بھٹو زرداری چودھویں کا چاند ہیں اور وہ وقت آنے پر پاکستان کی قیادت کریں گے‘‘۔ 

معزز قارئین!۔ (18 اگست 2016ء کو )’’ چودھویں کا چاند۔ بلاول بھٹو زرداری‘‘ کے عنوان سے میرے کالم تو چھپ گیا تھا لیکن 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں انتخابی نشان ’’ تیر‘‘ (Arrow) والی آصف زرداری صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی۔ پی۔ پی۔ پی) نے حصہ لِیا۔ بلاول کے بابا سائیں آصف زرداری نے ’’ جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار’’اصلی پیپلز پارٹی‘‘ انتخابی نشان ’’ تلوار‘‘ والی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ ( پی۔ پی۔ پی) کو توانتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہیں دِی۔ اِس وقت قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ آف پاکستان کے سب کے سب منتخب ارکان کا تعلق جنابِ آصف زرداری کی ’’ پی ۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ سے ہے ۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کہلانے والے ( نواسۂ بھٹو ) بلاول بھٹو زرداری خود اپنے بابا سائیں کی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہُوئے تھے / ہیں۔ 

ہندو ’’دیو مالا ‘‘کے مطابق ’’ صدیوں پہلے ’’ چنڈی ‘‘(Chandi) دیوی کے نام پر لاڑکانہ کا نام ’’ چانڈیکا‘‘ (Chandika) تھا ۔چنڈی دؔیوی ۔ اِنسانوں کے کسی بُرے کام (گُناہ یا جُرم ) کو پسند نہیں کرتی تھی اور اپنے ناپسندیدہ اِنسانوں پر غیظ و غضب کا مظاہرہ کرتی تھی اور اُنہیں سخت سزائیں دیتی تھی‘‘۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے آبائو اجداد بھٹیؔ راجپوت تھے / ہیں اور وہ بھارت کے صوبہ ہریانہ کے علاقہ ’’ بھٹیانہ‘‘ سے ہجرت کر کے لاڑکانہؔ آباد ہُوئے تھے ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا اور پھر فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کی مارشلائی کابینہ میں بحیثیت وزیر تجربہ حاصل کِیا۔ 

  تقریباً 8سال تک فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کو ’’غازی صلاح اُلدّین ایوبی ؔ اور ’’ ایشیا کا ڈیگال‘‘ مشہور کرنے میں ناکامی کے بعد جب جون 1966ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو ، وفاقی وزیر کی حیثیت سے مستعفی ہُوئے تو ، اُنہوں نے خاموشی سے راولپنڈی سے لاہور تک"Train" پر سفر کِیا تھا۔ اِس سے قبل جب جنابِ بھٹو نے ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دَوران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ’’ ہم (یعنی اہل پاکستان) مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے ایک ہزار سال تک جنگ لڑیں گے ‘‘ تو ،پاکستان کے عوام ( خاص طور پر ) اہل پنجاب نے اُنہیں اپنا ہیرو بنا لِیا تھا ۔

30 نومبر 1967ء کو جنابِ بھٹو کے دواڑھائی سو دوستو ں اور عقیدت مندوں نے پنجاب کے داراُلحکومت لاہور میں جنابِ بھٹو کی چیئرمین شِپ میں ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم کی لیکن ،چیئرمین بھٹو نے لاہور میں کوئی "Bhutto House"تعمیر نہیں کرایا تھا اور نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے۔یہ اعزاز جنابِ بھٹو کے ’’روحانی فرزند ‘‘ آصف زرداری کو حاصل ہُوا ،جب وہ صدرِ پاکستان تھے۔اُن کے ایک عقیدت مندؔ ،بحریہ ٹائون کے مالک(خوبصورت نام والے) ملک ریاض حسین ؔنے اُنہیں بحریہ ٹائون لاہور میں دو سوکنال ۔ پانچ ارب (Billion) مالیت کا ایک "House" تحفہ میں دِیا جس کا نام جنابِ آصف زرداری نے "Bilawal House" رکھا ۔ 

معزز قارئین!۔ پنجاب میں جنابِ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘کے آخری وزیراعلیٰ تھے ، ملتان کے نواب صادق حسین قریشی۔ اُن کے بعد پارٹی کو پنجاب میں اپنا کوئی وزیراعلیٰ نصیب نہیں ہُوا۔ مَیں سوچ رہا ہُوں کہ اگر ’’نواسۂ بھٹو ‘‘ بلاول بھٹو ۔ اپنے بابا سائیں ؔاور پھوپھی فریال تالپور صاحبہ کے خلاف مقدمات ختم کرانے یا"N.R.O" کے لئے ، کراچی سے لاہور تک "Train March" کرتے تو ، وہ بہت "Rush"لیتے لیکن، اُنہوں نے تو کئی سال پہلے اپنے سندھی ووٹروں کو یہ نعرہ دِیا تھا کہ ’’ مَر سُوں ،مَرسُوں ، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ ۔سوال یہ ہے کہ ’’ اب ’’بلاول ہائوس لاہور ‘‘ کا کیا بنے گا ؟۔ وہ اکیلا اور سُنسان کیا سوچتا ہوگا؟۔ نامور (مرحوم) ناصر کاظمی نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ …

دِل تو، میرا اُداس ہے ، ناصرؔ!

شہرکیوں سائیں ، سائیں کرتا ہے!

…O…

سنسکرت ،ہندی اور اردو کے لفظ اُداس ؔکے معنی ہیں ۔ (افسردہ ، غمگین ) ۔ ایک اور شاعر نے شاید اپنی محبوبہ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

تُم ہواُداس ، نہ مَیں غمگیں !

یہ موسم کا چکرّ ہے !

…O…

لیکن، ویرانی یا وحشت کو ’’سائیں سائیں ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بقول شاعر …

’’وہ دشت ِہولناک ، جو کرتا تھا سائیں سائیں !‘‘

معزز قارئین!۔ مولا بخش چانڈیو صاحب اپنے لیڈر بلاول بھٹو زرداری کو ’’چودھویں کا چاند ‘‘ کہہ چکے ہیں اِس لئے مَیں تو اخلاقاً ؔ۔’’ بلاول ہائوس‘‘لاہور کو ’’ بھوت بنگلہ‘‘ نہیں کہہ سکتا لیکن، کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ بلاول بھٹو زرداری اپنے بابا ؔسائیں کے  صدقے ؔ ؔ (Gift to the Poor) پنجاب کے غریبوں کے لئے بلاول ہائوسؔ میں’’ منجّی بسترا ‘‘کا بندوبست کردیں‘‘۔