بلاول بھٹو زرداری پنجاب کے ایک ہفتے کے دورے کے سلسلے میں ملتان پہنچے ہیں۔ اُن کی آمد پر ملتان میں خوش آمدید کے بورڈز لگائے گئے ہیں۔ اخبارات کو بھی اشتہارات جاری ہوئے ہیں۔ خوش آمدید کہنے والوں میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی، سابق گورنر مخدوم احمد محمود، سید یوسف رضا گیلانی کے بھائی سید مجتبیٰ گیلانی اور اُن کے بیٹوں سید عبدالقادر گیلانی، سید علی موسیٰ گیلانی، سید علی حیدر گیلانی، سید علی قاسم گیلانی کے نام شامل ہیں۔ اس سے ایک تاثر یہ پیدا ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی ملتان میں ایک گھر کی جماعت ہے۔ گزشتہ روز ملتان پریس کلب میں انڈس ویلی اتحاد اور صوبہ محاذ کی طرف سے افغانستان کی صورتحال کے موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے جہاں افغانستان کی صورتحال کا تفصیل سے ذکر کیا وہاں وسیب کے حوالے سے بھی گفتگو کی اُن کی تحریر شدہ تقریر اخبارات کو بھی جاری ہوئی۔ سید یوسف رضا گیلانی نے وہاں وسیب کی بات کی اور وسیب کے مسائل کا تفصیل سے ذکر کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ روزنامہ 92 نیوز کے قارئین کی آگاہی کیلئے تقریر کے اقتباس کالم میں شامل کروں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے سیمینار کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں خدانخواستہ حالات خراب ہوتے ہیں اور لوگ ہجرت پر مجبور ہوتے ہیں تو اس کا وسیب پر اثر پڑے گا اور ڈی آئی خان ، ٹانک پہلے بھی بہت متاثر ہوئے ہیں اب بھی اُن پر دبائو بڑھے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آپ کی خواہش بھی ہے اور مطالبہ بھی کہ وسیب کو شناخت ملنی چاہئے اور صوبہ بھی ملنا چاہئے۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ اعزاز پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل ہے کہ پیپلز پارٹی نے صوبے کیلئے عملی قدم اٹھایا اور صوبے کے قیام کیلئے پارلیمانی صوبہ کمیشن قائم کیا۔ جس نے اپنا کام نہایت ایمانداری سے مکمل کیا اور آئین ساز ادارے سینٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس ہوا۔ ایک لحاظ سے ہماری حکومت نے صوبے کے مسئلے کو آئینی تحفظ دیا اگر (ن) لیگ اُس وقت ہمارا ساتھ دیتی تو آج صوبہ بھی بن چکا ہوتا اور وسیب کو شناخت بھی مل چکی ہوتی مگر ہم صوبے سے آج بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ پیپلز پارٹی کو جونہی اسمبلی میں اکثریت ملی صوبہ پیپلز پارٹی ہی بنائے گی۔ یہ وعدہ ہمارے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کا بھی ہے اور یوسف رضا گیلانی بھی اس فورم سے صوبے کے عہد کی آپ کے سامنے تجدید کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے صوبے کے قیام کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ صوبہ کمیشن تو کیا اس حکومت نے صوبہ کمیٹی بھی نہیں بنائی۔ صوبے کے نام پر مذاق کر رہے ہیں۔ ملتان اور بہاولپور سیکرٹریٹ کے نام پر تفریق پیدا کر رہے ہیں یہ صوبہ بنانے نہیں بلکہ صوبے کا مقدمہ بیگاڑنے اور وسیب کو ایک دوسرے سے لڑانے والی بات ہے۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ تحریک انصاف نے وعدہ صوبے کا کیا، منشور میں بھی لکھا کہ ہم صوبہ بنائیں گے۔ عمران خان نے تحریری طور پر لکھ کر دیا کہ سو دن میں صوبہ بنائیں گے۔ میرا سوال ہے کہ اب سول سیکرٹریٹ کہاں سے نکل آیا؟ سول سیکرٹریٹ کی تو بات ہی نہیں ہوئی اور سول سیکرٹریٹ صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ حکومت صوبے کے قیام کیلئے اقدامات کرے۔ پیپلز پارٹی ایوان میں صوبے کا ساتھ دے گی۔ سول سیکرٹریٹ کے مسئلے پر حکومت کی غیر سنجیدگی ملاحظہ کریں کہ سول سیکرٹریٹ کو ملتان، بہاولپور دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اب کہا جا رہا ہے کہ سول سیکرٹریٹ کے ارکان ڈی جی خان میں بھی بیٹھیں گے۔ یہ بہت بڑا مذاق ہے جو کہ خطے کے عوام کیساتھ کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ ایک صوبے کے چار سیکرٹریٹ ہوں گے تو ظاہر ہے لوگوں کو ایک جگہ کی بجائے چار جگہوں پر دھکے کھانا پڑیں گے اور اگر پوٹھوہار اور پنڈی والوں نے بھی اس طرح کے مطالبات شروع کر دیئے تو اس کا کیا بنے گا؟ اس حکومت نے ایک بھی مسئلہ حل نہیں کیا جبکہ سینکڑوں مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ صوبوں کی خود مختاری کوبھی چھیڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ موجودہ برسراقتدار جماعت کے رہنمائوں کو جمہوری اقدار کا علم نہیں، بہت بڑا اقتدار ان کو دلایا گیا ہے مگر یہ پھر بھی مطمئن نہیں۔ پارلیمانی طرز حکومت کی بجائے یہ لوگ ایوب خان والے واحدانی طرز حکومت کے بارے میں سوچتے نظر آتے ہیں مگر پاکستان پیپلز پارٹی ہر غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی سوچ کے خلاف مزاحمت کرے گی۔ آخر میں یہ کہوں گا کہ یقینا آپ کا مطالبہ ہو گا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی تنظیم کا نام جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی وسیب رکھے اس سلسلے میں ہم اپنی جماعت میں بات کریں گے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں تمام فیصلے جمہوری انداز میں ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پیپلز پارٹی اگر وسیب سے مخلص ہے تو اپنی تنظیم کا نام جنوبی پنجاب کی بجائے سرائیکی وسیب رکھے۔ میں نے کہا تھا کہ جنوبی پنجاب لغوی اعتبار سے بھی غلط ہے کہ وسیب کے بہت سے اضلاع پنجاب کے جنوب میں نہیں آتے۔ یونیورسٹیوں میں سرائیکی میں پی ایچ ڈی تک ہو رہی ہے اسے کوئی جنوبی پنجابی نہیں کہتا۔ میں نے کہا کہ گیلانی صاحب! ذوالفقار علی بھٹو سرائیکی سے محبت کرتے تھے اور عدالت عالیہ میں اپنی تقریر کا اختتام سرائیکی اشعار کہہ کر کیا تھا۔ آپ کی حکومت اٹھارویں ترمیم کے ذریعے خیبرپختونخواہ کو شناخت دینے کا کریڈٹ حاصل کرتی ہے۔ میرا سوال ہے کہ وہ کون سا آئین ہے جو پشتون قومیت کو شناخت دے اور سرائیکی سے اُس کی شناخت چھینے؟ آخر میں بلاول بھٹو زرداری کو وسیب آمد پر خوش آمدید کہوں گا کہ وہ اپنے وسیب میں آئے ہیں۔ ایک لحاظ سے اُن کی زبان بھی سرائیکی ہے کہ اُن کے والد آصف زرداری اور دادا حاکم علی زرداری خود کو سرائیکی کہتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی خان پور آمد کے موقع پر ہمارے ایک سرائیکی شاعر نے ایک نظم اُن کی خدمت میں پیش کی تھی اُس وقت بلاول بھٹو چھوٹے تھے۔ نظم کا ایک شعر اس طرح تھا : ساڈے بارے وی سوچ سندھڑی تیڈے بلاول دی خیر ہووے