بلاول بھٹو اگرچہ کافی عرصے سے میدان سیاست میں زور آزمائی کررہے ہیں لیکن ا ب بتدریج ان کی دھاک بیٹھ رہی ہے۔ حال ہی میں ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس میں انہوں نے ایک بھارتی صحافی کو نہایت ہی متاثر کن انٹرویو دیا۔ پاکستان کے نقطہ نظر کا ہی دفاع نہیں کیا بلکہ قومی موقف کو بہت خوبصورت اور پر اعتماد انداز میں دنیا کے سامنے رکھا۔سوالات نہ صرف تلخ بلکہ بعض تو زہر میں بجھے ہوئے نشترتھے لیکن بلاول نے ایک ایک اعتراض کا نہ صرف کمال مہارت بلکہ ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح جواب دیا۔ ان کا طرزگفتگو اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح جارحا نہ نہیں بلکہ اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح مفاہمانہ اور دوستانہ اور لب ولہجہ مستحکم تھا۔ گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان کو دنیا میں ایک خطرناک ملک کے طور پر پیش کیاگیا ۔بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کے خلاف مقدمہ عالمی برادری کے سامنے پیش کیا تو امریکیوں نے نہ صرف اس کی ہاں میں ہاں ملائی بلکہ اسے شہہ بھی دی۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں ‘امریکہ کسی ملک کے خلاف متحرک ہوجائے تو عالمی میڈیا، انسانی حقوق کے علمبردار اور سول سوسائٹی سب مل کر اسے دنیا میں اچھوت بنادیتے ہیں۔ اتفاق سے ان برسوں میں پے درپے ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے جن کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔ نائن الیون کے مابعد کی افغان جنگ نے بھی پاکستان کے امیج کو بری طرح مسخ کیا۔ امریکہ ،بھارت اور افغانستان کے مابین گہری اسٹرٹیجک شراکت داری ابھری جس کا بنیادی ہدف پاکستان کو علاقائی سیاست سے بے دخل کرنا اور اسے داخلی عدم استحکام کا شکار کرنا تھا۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء نے پاکستان کے مخالفین کا کام اور آسان کردیاکیونکہ مغرب میں فوجی آمریت نہیں بلکہ جمہوریت کا چورن بکتاہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پاکستان کو ایک اعلیٰ پائے کی سیاستدان سے محروم کیا۔وہ مغرب کے ساتھ مکالمہ کرنے اور انہیں قائل کرنے کی اہلیت رکھتیں تھیں۔ ان کی شہادت کے بعد پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی لیکن وہ کوشش کے باوجود دنیا کو قابل ذکر حد تک اپنا ہمنوا نہ بناسکی۔ کرتی بھی کیسے ‘ایبٹ آباد میں ایک فوجی آپریشن میں اسامہ بن لادن برآمدہوا۔ پاکستان کے مخالفین کے لیے یہ جشن کا دن تھا لیکن ہمارے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہ تھا۔ 2013ء میںپاکستان کی سیاست کا پنڈولم گھومتاہے اورجناب نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوتے ہیں۔ انہوں نے خارجہ امور کے سدھار میں کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ کل وقتی وزیرخارجہ تک تعینات نہ کیا۔خود وہ اردو زبان میں خطابت کے جوہر ضرور دکھاتے ہیں لیکن دقیق موضوعات اور بیرونی مہمانوں کے ساتھ سفارتی رکھ رکھاؤ کے ساتھ گفتگو کے فن میں نوازشریف عشروں کی مشق کے باوجو د تاک نہ ہوسکے۔ تحریک انصاف نے دائیں بازو کی سیاست ہتھیانے کی خاطر امریکہ مخالف لیکن عوامی جذبات سے ہم آہنگ سیاسی حکمت عملی اختیار کی۔اس کے نتیجے میں وہ خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن نقصان یہ ہوا کہ انہیں شدت پسندوں کے حامیوں کے ساتھ شناخت کیاجانے لگا۔ عمران خان کو طالبان خان کے نام سے پکارا جانے لگا۔آصف علی زرداری اگرچہ سیاست کے گھاگ کھلاڑی قرارپائے لیکن وہ گفتگو کے ماہر ہیں نہ انداز تکلم سحر انگیز ہے۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ پاکستان کا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے والا اب کوئی سیاستدان نہ رہا۔بلاول بھٹو کی ورلڈ اکنامک فورم، بھارتی میڈیا اور بعدازاں جناب حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو نے امید کی کرن روشن کی ہے کہ نہیں ابھی اس خاکستر میں چنگاری موجود ہے۔ بلاول بھٹو کے انٹرویو ز میں جو بات مجھے اچھی لگی وہ ان کا صاف گو ہونا ، پاکستان کی مشکلات اور چیلنجز کا درست ادراک اور عالمی امور کا فہم ہے۔ وہ قومی ریاستی اداروں کو اپنا حریف تصور کرکے انہیں رگڑا لگانے کے بجائے ان کی اونرشپ لیتے ہیں ۔ دنیا کوبتاتے ہیں کہ پاکستان موجودہ پالیسیاں اپنانے پر کیوں مجبور ہوا ۔ پاکستان کے مشکل مسائل مثال کے طور پر افغانستان، بھار ت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر پر کیا نقطہ نظر ہے اور اس موقف کا سبب کیاہے؟ وہ کشمیر پر بنا کسی ہچکچاہٹ کے پاکستانی موقف پیش کرتے ہیں جو کشمیریوں کی امنگوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔ بلاول بھٹو کی اٹھان ایک قومی رہنما کی سی ہے۔ انہوں نے اچھا کیا کہ مریم نوازشریف کے برعکس ریاستی اداروں کے ساتھ متھا نہیں لگایا۔ پیپلزپارٹی اور اسٹبلشمنٹ کے مابین عشروں پر محیط کشمکش کا اس ملک نے بہت خمیازہ بھگتاہے۔ اچھا ہوا کہ فریقین نے محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جہاں پیپلزپارٹی کھڑی ہوتی تھی وہاں آج نوازشریف اور مریم نوازشریف کھڑے ہیں۔ وہ فوج اور عدلیہ کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے خلاف رائے عامہ کو متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم بنا کرپیش کرتے ہیں۔ مقرر عرض ہے کہ اس ملک میں ایسی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں جہاں سیاستدان بلکہ حکمران جماعت اپنے ہی ماتحت اداروں کے خلاف محاذ آراہو۔ مریم نواز بھی بلاول بھٹو کی طرح سیاست میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں۔ وہ بے نظیر بھٹو کی طرح دلیر اور گفتگو کے فن سے بھی واقف ہیں۔ اپنا نقطہ نظر جم کر پیش کرتی ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ مسلسل ایسی گفتگو کرتی ہیں جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے مناسب نہیں۔ بلاول بھٹو اور مریم نوازشریف کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں سیاست کا ایک باب بند ہونے کو ہے۔ نوازشریف، آصف علی زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی اور چودھری شجاعت حسین سب کے سب ستر کے پیٹے میں ہیں۔ وہ سیاست میں زیادہ عرصہ سرگرم نہیں رہ سکتے ۔ سیاست کا میدان نوجوانوں کے لیے خالی ہورہاہے۔انہیں زیادہ دانشمندی کے ساتھ اپنے پتے کھیلنے ہوں گے۔صبر سے اپنی باری کا انتظارکرنا ہوگا لیکن یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آج کا پاکستان ایک بیدار اور متحرک لوگوں کا ملک ہے۔ آپ کا کردار اور خاص کر سیاسی اور سماجی امورپر نقطہ نظر رائے عامہ کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ طرززندگی بھی معاشرتی اقدار سے میل کھاتا ہوا نظر آنا چاہیے۔