آپ نے زندگی میں بہت سی‘ بہت ہی عجیب خبریں پڑھی ہوں گی لیکن یقین کیجئے‘ ایسی عجیب و غریب خبر پہلے شاید ہی پڑھی ہو گی جو کل اخبارات میں چھپی۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیر منصوبہ بندی اور ترقی نے ٹیکس محصولات بڑھانے کے لئے 40کروڑ ڈالر کا غیر ملکی قرضہ لینے کی منظوری دی ہے۔ خبر میں لکھا ہے کہ وزیر صاحب کے بقول یہ قرضہ لینے سے ٹیکس دہندگان کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ کیا یہ کوئی سائنسی دریافت ہے؟ اگر ہے تو اسے بھی اتنی ہی اہمیت ملنی چاہئے جتنی ’’بلیک ہول‘‘ کے کنارے کی تصویر لینے والی خبر کو ملی ہے؟ غیر ملک سے اتنا قرضہ لے کر ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھ سکتی ہے تو آج تک کسی بھی ملک کی کسی بھی حکومت کو یہ خیال کیوں نہیں آیا! یہ رقم کہاں استعمال کی جائے گی؟ کیا اس سے جادو ٹونہ کرنے والے عامل’’ہائر‘‘ کئے جائیں گے جو چلے کاٹیں گے اور لوگ ٹیکس لے لو ٹیکس لے لو کے نعرے لگاتے اپنے دفتروں کارخانوں سے نکل پڑیں گے؟ یا شاید وہ روایتی جادو کی ہنڈی چلائیں گے جو ٹیکس نہ دینے والے کے سر پر پھٹے گی؟ وزیر موصوف خسرو بختیار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صاحب کرامت ہیں۔ ان کے ہاں کرامتوں کا دریا ایک عرصے سے بہنا شروع ہوا اور اب تک بہہ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘40کروڑ ڈالر یعنی 60‘ارب روپے کے اس فنڈ کے نتیجے میں بھی وہ کوئی کرامت دکھانے والے ہوں۔کرامتوں پر نظر رکھنے والے بہر حال خبردار ہیں۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے ایک بار پھر صدارتی نظام کی مزاحمت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ نظام لانے کی کوشش کی گئی تو ملک ٹوٹے گا۔خدانخواستہ‘ لیکن صدارتی نظام والے ایک بار ملک توڑنے کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔ شاید ایک اور کامیابی کی امنگ مچل رہی ہو۔ بلاول کی یہ خبرداری کہیں ان کے ارادوں کے لئے مہمیز نہ بن جائے‘ یعنی اسپ تمنا کے لئے چابک۔جفر‘رمل‘ زائچہ ‘ نجوم کا علم رکھنے والے یہاں بہت ہیں اور ایسے بھی ہیں جو شیشے کا گلوب گھما کر آئندہ بینی کرتے اور احوال بتاتے ہیں۔ ایک محدود سا علم ہمارے پاس بھی ہے‘ اس کی رو سے بلاول کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مزاحمت کی تیاری بے شک برقرار رکھیں لیکن بے فکر رہیں‘ صدارتی نظام لانے کے سارے راستے بند ہوچکے ہیں۔ ٹکریں مارنے والوں کو ٹکریں مارنے دیں۔پارلیمانی دیوار اب ٹوٹنے والی نہیں۔ ٭٭٭٭٭ کئی’’پڑھے لکھے‘‘اصحاب یہ نہیں سمجھ پا رہے اور پوچھتے ہیں کہ صدارتی نظام سے کوئی ملک کیسے ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر ٹوٹ سکتا ہے تو امریکہ اور فرانس کیوں نہیں ٹوٹے‘ مصر اور ترکی کیوں قائم ہیں؟۔ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جسے ہمارے ہاں سمجھانے کی کوشش کرنے والے پیچیدہ بنا دیتے ہیں حالانکہ بالکل سادہ بات ہے اور وہ یہ کہ جس بھی کثیر القومی ملک میںصدارتی نظام آئے گا‘ وہ ٹوٹ جائے گا چاہے وہ سوویت یونین ہو‘ یوگو سلاویہ ہو یا سوڈان ہو۔ مطلق واحد قومی ملک دنیا میں کوئی نہیں ہوتا لیکن وفاقی اصطلاحات کے حوالے سے واحد قومی ملک اسے کہتے ہیں جہاں ایک ہی قوم ستر اسی یا نوے فیصد اکثریت رکھتی ہو۔ ایسے ملکوں میں صدارتی نظام کامیاب ہو سکتا ہے جیسے ترکی ہے کہ ستر فیصد آبادی ترک ہے یا جیسے بنگلہ دیش ہے جہاں 90فیصد سے زیادہ بنگالی ہیں۔(اگرچہ اس ملک میں پارلیمانی نظام ہے( یا جاپان ہے جہاں تقریباً سو فیصد جاپانی ہیں یا ایران ہے جہاں 70فیصد سے زیادہ ایرانی (فارسی) ہیں یا سعودی عرب ہے جہاں سو فیصد عرب ہیں یا امریکہ ہے جہاں ستر فیصد گورے ہیں۔ بھارت میں اگرچہ بھارتی ہندی قوم کو اکثریت ہے(55فیصد) لیکن یہ غالب نہیں۔ پاکستان میں سب سے بڑی قوم پنجابی ہے لیکن وہ لگ بھگ 50فیصد ہے‘ غالب اکثریت نہیں اور اگر اس میں سے سرائیکی قوم کو نکال دیا جائے تو یہ چالیس فیصد بھی نہیں رہتی۔ صدارتی نظام میں بڑی قوم کو چھوڑ کر باقی ساری قومیں غیر مطمئن ہو جاتی ہیں۔ پارلیمانی نظام میں انہیں احساس رہتا ہے کہ نظم و نظام حکومت میں وہ بھی شریک ہیں۔ حصہ‘بقدر جثہ ٭٭٭٭٭ ممتاز دانشور احمد بلال محبوب نے صدارتی نظام کی بحث کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ یہ مصنوعی بحث ہے۔ احمد بلال کو معلوم ہونا چاہیے کہ نئی رائج الوقت ڈکشنری میں مصنوعی کے معنے حقیقی کے ہیں۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت کے سابق دور میں مہنگائی کی کم شرح گیس‘ بجلی کے نرخوں ‘ لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور ڈالر کی کم قیمت سمیت ہر’’حقیقی‘‘ شے کو ’’مصنوعی‘‘ قرار دے دیا ہے اور آج کی حقیقی ‘ مہنگائی کو پچھلے ہی ہفتے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے ’’مصنوعی‘‘ کا نام دیا ہے۔ امید ہے احمد بلال صاحب نے مصنوعی بحث کہتے ہوئے پرانی ڈکشنری ہی استعمال کی ہو گی۔ ایسی بات ہے تو ان کی بات پاکستان کے حامیوں کے لئے حوصلہ افزا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزیر فیصل وا وڈا نے کہا ہے کہ ڈیم فنڈ پر حکومت کا کوئی چیک(کنٹرول) نہیں۔ یہ بیان انہوں نے ایک ارب نوکریاں دینے کے اعلان کے اگلے روز دیا۔چیک کیوں نہیں ہے؟ ڈیم فنڈ کے لئے کئی مہینے جو عظیم اشتہاری مہم ٹی وی چینلز اور اخبارات میں چلتی‘ اس میں ثاقب نثار کے ساتھ ساتھ عمران خاں کی تصویر بھی تو چھپتی رہی ہے۔ اس نغمے کے ساتھ کہ ’’ہم یہ ڈیم بنائیں گے‘‘اتنا پیسہ جوڑیں گے وغیرہ وغیرہ‘‘یہ بس ایک غیر اہم سا سوال ہے اور کچھ نہیں۔ ڈیم کا ماجرا رات گئی‘ بات گئی‘ والا ہے‘ معاملے پر مٹی ڈالئے اور آگے بڑھیے۔