ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسیویں برسی تھی اور اسکی دوسری نسل مزار پر حاضر تھی۔بلاول بھٹو اور اسکی بہنیں اور کزنز بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے لیڈر کی نسل سے ہیں جس نے پاکستان میں عوامی شعور اجاگر کرنے میں انقلابی کردار ادا کیا۔ بھٹو کی شخصیت کے حوالے سے تنازعات ہو سکتے ہیں لیکن عوام کے لئے جو درد انکے دل میں تھا اس نے عوام کے دل کو چھوا، اسی لئے آج بھی اگر پیپلز پارٹی یہ نعرہ لگاتی ہے کہ بھٹو زندہ ہے تو اسکا بنیادی اشارہ عوام کی طرف ہوتا ہے جن کو بھٹو نے متاثر کیا۔ بھٹو کے کھاتے میں کچھ بھی ڈال دیں لیکن کرپشن کے حوالے سے اشارۃً دشمن بھی الزام تراشی نہیں کر سکتا۔بد قسمتی یہ ہے کہ بھٹو کی وراثت کے سب سے بڑے دعویدار بلاول بھٹو خود اگر کرپشن میں ملوث نہیں ہیں لیکن ان کو جو اپنے ددھیال کی طرف سے وراثت ملی ہے اس میں کرپشن کے الزامات کے انبار کے علاوہ کچھ نہیں۔ نانا اور والدہ کی سیاست انکے لئے سرمایہ ہے لیکن یہ سرمایہ کرپشن کے الزامات کے دفاع کے لئے کھوٹہ سکہ ثابت ہو رہا ہے۔بلاول بھٹو کی تقریر سن کر جو بات سمجھ آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ دو چیزیں ہمارے ملک کے وسائل، سیاست، اقتصادیات پر قابض اشرافیہ کبھی اس ملک میں پنپتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ایک جمہوریت اور دوسرا انصاف کا نظام۔ یہ دونوں انکی طاقت، اثرو رسوخ اور معاشی ترقی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سول حکومت ہو یا فوجی آمریت وہی چہرے ایوان اقتدار کی راہداریوں میں نظر آتے ہیں ۔ نظام میں 70سال بعد بھی کوئی قابل ذکر تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملتی۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس کے لئے ذہنی تربیت کی بہت شروع سے ضرورت ہوتی ہے۔ ایک خاص مزاج اپنانا ہوتا ہے۔ جمہور کے لئے عزت دل میں نیک نیتی سے ہونی ضروری ہے۔اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ بھٹو کے وارث ہیں اس لئے راتوں رات جمہوریت کے چیمپئن بن جائیں۔ذوالفقار علی بھٹو کے وارثوں کو جمہوریت ساز اور جفت ساز میں فرق معلوم ہونا چاہئے ۔جمہوریت پائوں کی جوتی نہیں کہ جب دل کیا سائز دے کر تیار کروا لی۔ جمہوریت سر کا تاج ہے جو جمہور آپ کو پہناتے ہیں۔ اس کے ذریعے جو ذمہ داری تفویض ہوتی ہے اس کو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق نبھانا جمہوریت ہے۔میرٹ پرلوگوں کااہم عہدوں کے لئے چنائو، اقربا پروری سے گریز، اپنی حالت کی بجائے عوام کی بھوک پیاس اور ضرورتوں کا خیال رکھنا۔ایسی جمہوریت کس کو گوارا ہے۔کروڑوں روپے لگا کر انتخاب اس لئے تو نہیںلڑا جاتاکہ عام لوگوں کے بھلے کا سوچا جائے۔لیکن ہماری سیاسی قیادت کا قصور بھی نہیں ہے انکو سائزدے کر حکومت حاصل کرنے کی عادت ڈالی گئی ہے۔ان کے لئے میدان تیار کر کے دیا جاتا ہے جس میں انکی جیت یقینی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کوہلو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔اس سے نکلنے کا راستہ اس ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کو کئی بار ملا لیکن کوئی کاوش نہیں کی گئی اور معاملہ اگلی حکومت پر چھوڑنے پر اکتفا کیا گیا۔ جمہوریت کی طرح انصاف کے موثر نظام کا قیام بھی ہمارے حکمرانوں یا حکمرانی کے خواہشمندوں کو کسی صورت گوارا نہیں ہے۔جب بھی ملک میں ایسی کوئی کاوش ہوئی جس کے نتیجے میں ایک آزاد عدلیہ کا قیام ہوتا نظر آیا ان حکمرانوں نے ہر حربہ استعمال کر کے اس کو روکنے کی کوشش کی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کو انکے برادر ججوں کے ذریعے عدالت سے اٹھا کر باہر پھینکنے کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔اسکے بعد جنرل مشرف نے جو کچھ عدلیہ کے ساتھ کیا خصوصاً چیف جسٹس افتخار چوہدری کو نکالنے کا فیصلہ، اسی ذہن کا شاخسانہ ہے جو ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ اس میں سیاستدان، بیورو کریٹ، کمیشن مافیا، ٹھیکیدار، قبضہ گروپ وغیرہ سب شامل ہیں۔ان سب کو انصاف کا منصفانہ نظام نہیں چاہئے۔کیونکہ جیسے ہی منصفانہ نظام آئے گا سب سے پہلے انکے گریبانوں پر ہاتھ پڑے گا جو کہ آجکل ہو رہا ہے۔اور جب کبھی بھی کسی آزاد جج یا عدالت نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے اسکے لئے زندگی مشکل کر دی گئی ہے۔ آجکل بھی عدلیہ کے فیصلوں کے حوالے سے ایسا کام ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس میں کامیابی ابھی تک نہیں ہو پا رہی ۔ جمعہ کے روز جو کچھ نیب کے اہلکاروں کے ساتھ حمزہ شہباز کی گرفتاری کے وقت کیا گیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قانون جب تک حکمرانی کے عادی لوگوں کی باندی بنا رہے تو ٹھیک ہے اگر انکے خلاف استعمال ہو تو یہ کسی صورت گوارا نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اگر ملک میں آزاد عدلیہ ہو گی اور صحیح جمہوریت ہو گی تو موجودہ سیاسی قیادت میں سے اکثریت جیل میں ہو گی یا جلا وطن ہو جائے گی۔سیاست کو کاروبار کا ذریعہ سمجھنے والے سیاست سے توبہ تائب ہو کوواقعی کوئی کاروبار کر رہے ہونگے اپنی روٹی روزی کے لئے۔پولیس مقابلے، لا پتہ افراد، دہشت گردی اور دولت کا ارتکاز بھی ختم ہو گا اور وسائل سے مالا مال ملک کسی بیرونی قرضے کا مرہون منت بھی نہیں رہے گا۔ جمہوریت اور انصاف کی برکات ایسے لوگوں کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں جن کی ساری زندگی نوٹ جمع کرتے اور انہیں گنتے گزر گئی ہو۔ ایسا یہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔اس لئے دن بدن فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اور حکومت کے خلاف تحریک کے بڑے بڑے اعلانات ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی ،مولانا فضل الرحمٰن کے لانگ مارچ سے نہ آصف علی زرداری کے دھرنے سے، مسلم لیگ (ن) تو شاید اسکا حصہ بننے کو بھی تیار نہ ہو۔جہاں تک بلاول کی بات ہے تو انکی لات کتنی موثر ہو سکتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ صرف ایک مشورہ ہے کہ ننگے پائوں لات مارنے کوشش کرنے میں موچ آ سکتی ہے لہٰذا بہتر ہو گا بوٹ پہن کر لات ماریں، حکومت گرے نہ گرے ہل ضرور جائے گی۔