مجھ سا کوئی جہاں میں نادان بھی نہ ہو کرکے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو یہ اشعار بلاول کی تقریر سن کر ذہن میں آئے کہ وہ وقت آ گیا ہے کہ جب آپ کو اپنے کہے کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے مگر انجام سے بچنے کی کوشش تو سب کرتے ہیں حالات بہت سنجیدہ اور گھمبیر ہیں مگر نہ جانے مجھے بلاول کی ایک بات نے مسکرانے پر مجبور کر دیا اور میں اپنے ماضی میں جا پہنچا کہ یہی ایک خوبصورت چیز آپ کا اثاثہ ہوتی ہے۔ بلاول نے جب یہ کہا کہ وہ لات مار کر حکومت گرا دیں گے تو جہاں لات سے وابستہ محاورے یاد آئے کہ ’’ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘‘’’بم کو لات مارنا‘‘ وغیرہ وغیرہ وہاں کچھ واقعات بھی یاد آئے میرے قارئین یقینا میری بات سے محظوظ ہونگے۔ جب ہم ٹی وی کے لئے نغمے اور پروگرامز لکھا کرتے تھے تو ایک روز ہمارے ایک معصوم سے پروڈیوسر میاں صاحب بڑے راز دارانہ انداز میں مجھے کہنے لگے ’’شاہ صاحب آپ تیس سال کے بھی نہیں ہوئے اور آپ کے 9شعری مجموعے چھپ چکے ہیں۔ زیادہ تر اتنا کام وفات کے بعد ہوتا ہے جس انداز میں انہوں نے کہا میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ ان کی آنکھوں میں عجب حیرت تھی۔ آپ کہیں گے اس میں لات کہاں سے آ گئی؟ ابھی آئے گی۔ میں نے ذوالفقار فرخ سے شکایت کی کہ میاں صاحب کو پتہ نہیں چلتا کہ کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ فرخ کہنے لگا’یہ بات نہیں ایک حادثے میں میاں صاحب کے سر پر چوٹ لگی تھی اور ڈاکٹر نے سرجری کی تو ٹانگ کا ایک حصہ دماغ میں لگا دیا‘ تب سے وہ کبھی کبھی دماغ سے ٹانگ کا کام لیتے ہیں شاید وہ سوچنے کے لئے ٹانگ پر زور ڈالتے ہوں ویسے تو لات سے نواز شریف بھی یاد آتے ہیں کہ وہ بھی ہر مرتبہ’’ بم کو لات‘‘ ضرور مارتے ہیں۔ بلاول کے سپوکس مین نے کہا ہے کہ لات مارنے والی بات تو زبان کے غوطہ کھانے کے باعث ہوئی جےSlip of the tongueکہتے ہیں انہوں نے تالی مار کر حکومت گرانے کی بات کی تھی اب بتائیے کہ ’’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو ؟‘‘تالی مارنے سے آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے۔ پاٹیکر نے ایک فلم میں کہا تھا’’سالہ مچھر کیا چیز ہے اچھے خاصے بندے کو ہجڑا بنا دیتاہے‘‘ یعنی اسے مارنے کے لئے تالی ہی بجانا پڑتی ہے۔ ویسے تالی کوئی بری شے بھی نہیں’’تاڑی مار اڈا نہ باہو‘ اساں آپے اڈن ہارے ہو‘‘: خشک پیڑوں کی تالیاں سن کر زرد موسم نہ پھر بدل جائے فواد چودھری فرما رہے ہیں کہ یہ ساری چیخ و پکار اور ٹرین مارچ اباجی کو بچانے کے جتن ہیں ویسے چیخ تو عوام بھی رہے ہیں‘ ان کے پاس تو کوئی ٹرین بھی نہیں۔ شاید وہ تو اپنی عزت بچانے کے جتن کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے سوشل زندگی بہت مشکل بنا دی ہے ایک عوامی شاعر عارف پروہنا کہتا ہے: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجناں دا میل وی مہنگا خیر یہ بات تو صاحبان اقتدارکو کباب میں ہڈی کی طرح محسوس ہو گی بات ہم کر رہے تھے بلاول اور ان کے والد مکرم زرداری صاحب کی جو بیٹے سے بھی دو قدم آگے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اسلام آباد کی سڑکوں پر لیٹ جائیں گے اور حکومت کی چھٹی کروا دیں گے۔ ہمیں ایک بار پھر ہنسی آ گئی کہ بھائی جان اگر آپ ہی جا کر لیٹ گئے تو کھڑا کون رہے گا۔ موچی دروازے میں جماعت اسلامی کے جلسے میں گولی چلی تو کسی نے مولانا مودودی کو بیٹھ جانے کے لئے کہا مگر بہادر سید نے کہا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا‘ محترم زرداری صاحب نے پہلے بھی لیٹنے کی کوشش کی اور خود سپردگی کے اشارے کیے مگر بات مانی نہیں گئی۔ ویسے زرداری کی بات کوہمیشہ پر لگ جاتے ہیں’’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ ’’بلا دودھ پی جاتا ہے‘‘ اور میں ایوان صدر سے ایمبولینس کے ذریعے نکلوں گا‘ سب اقوال زریں ہیں مگر اب ان کا خیال ہے: خود ہی اک روز نکل آئے گا دیوار سے در ہم وہ خودسر ہیں کہ اب لوٹ کے جانے کے نہیں اب حمزہ شریف بھی شاید کارواں بغاوت میں شامل ہو جائیں کہ حکومت نے انہیں بھی ہاتھ ڈال لیا ہے۔ کہتے ہیں حمزہ کے گارڈز نے نیب ٹیم پر تشدد کیا ہے کپڑے پھاڑ دیے ہیں اور حمزہ کی گرفتاری کو ناممکن بنا دیا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ خبر کہ شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ آنے والے حالات کی سمت نمائی کر رہی ہے۔ حالات ایسے بدل رہے ہیں کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ سمجھنے کی صلاحیت ہی موقوف ہو گئی ہے خاں صاحب فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے وزیر کس قدر نفیس لوگ ہیں اور مزید یہ کہ انکشاف کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں۔ گویا نظریاتی بنیاد پر وہ ایک ہیں اور شاید آئندہ اکٹھے ہو کر الیکشن لڑیں۔ لوگوں نے بے تحاشہ پوسٹیں لگائی ہیں کہ گولی اور گالی واقعتاً ایک ہی نظریہ ہے۔ پتہ نہیں دونوں میں سے کس نے نظریہ بدلا ہے۔ پہلے تو پی ٹی آئی کا ایم کیو ایم سے بعد المشرقین تھا: انجم ذرا تو دیکھ تو ناصبح کی شوخیاں پہلو بدل کے مجھ سے بھی پہلے بدل گیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اصل مسئلہ الطاف حسین ہی کا ہو یااپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا۔‘‘ دیکھا جائے تو ساری فرسٹریشن سمٹ کر زرداری اور بلاول میں آ گئی ہے وہ سندھ کارڈ شو کر چکے ہیں جسے وہ ترپ کا پتہ سمجھتے ہیں یا کہ وہ ہے۔ دوسری جانب پانی حمزہ تک بھی پہنچ رہا ہے یہ کھیل عمران کا نہیں لگتا کہ اس میں سپورٹس مین سپرٹ نظر نہیں آتی۔ ویسے بھی سیاست کھیل ہرگز نہیں ہے اس میں حکمت عملی ضروری ہے۔ سب سے بڑی بات جو خاں صاحب کے سوچنے کی یا پھر وہ یہ کام کسی کے ذمے لگا دیں کہ وہ سوچے کہ انہیں اقتدار میں لانے والے ان سے خوش نظر نہیں آ رہے میری مراد عوام ہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ عوام انہیں لائے تو پھر ان کی مرضی۔ عوام کو اتنا سیاسی شعور ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ یقین کیجیے میرا گوالا جس سے میں دودھ لیتا ہوں کہنے لگا شاہ جی آپ نے سنا کہ حکومت 35مہنگی گاڑیاں خرید رہی ہے۔ بندہ پوچھے پہلے بیچی کیوں تھیں۔ پھر بولا ’’ایک دن یہ ان بھینسوں کو بھی یاد کریں گے جو انہوں نے آتے یہ پرائم منسٹر ہائوس سے نکال دی تھیں۔ آئے دن کبھی پچاس لاکھ گھر‘ کروڑ نوکریاں‘ بکریاں‘ مرغیاں اور انڈے کی صنعت پتہ نہیں سچ ہے یا مذاق: کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر بلی شیر کی خالہ ہے شیر کے ناخن کاٹ دیے گئے ہیں اور بلی اب شیر بنی ہوئی ہے۔ مست ہاتھی سے مگر سب ڈرتے ہیں۔ قانون جنگل کا ہو تو استعارے بھی جنگل کے استعمال ہوتے ہیں۔ کوئی بھی یکسو نہیں بات تب بنے گی جب غریب آدمی کو سکھ کا سانس آئے گا۔ اس وقت تو آٹے کے ساتھ گھن پس رہا ہے ہاتھیوں کی لڑائی عروج پر ہے پامال مگر عوام ہی ہونگے عوام گھاس ہی تو ہیں‘ اس سے گھوڑے کی دوستی نہیں ہو سکتی چلیے غالب پر بات ختم کرتے ہیں: عشرت ِقطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا