حکومت میں آنے سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے قوم سے جو وعدے کیے تھے ان میںسے ایک یہ تھا کہ وہ اختیارات کو نچلی سطح پر منتخب اداروں کو منتقل کریں گے۔تاہم تین برس گزر گئے وہ اپنے منشور پر عمل نہیں کرسکے۔ کسی حد تک ڈیڑھ سال سے جاری کورونا وبا کو بھی اس تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ گلی محلوں میںبڑے پیمانے پر سیاسی‘ انتخابی سرگرمیاں وبا میں اضافہ کا باعث بن سکتی تھیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پنجاب میں پہلے سے موجود بلدیاتی نظام کو قائم نہیں رہنے دیا۔ اسکی پانچ سالہ مدت رواں سال کے آخر میں مکمل ہونا تھی لیکن مقامی اداروں کو وقت سے دو سال پہلے توڑ دیا گیا۔ یہی حال خیبر پختونخواہ میں ہے کہ دو سال سے صوبہ میں منتخب بلدیاتی ادارے کام نہیں کررہے۔سندھ میں پیپلزپارٹی نئی مردم شماری کے بہانے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کررہی ہے۔ فی الحال تحریک انصاف اُسی راستے پر چل رہی ہے جس پر ہماری سیاسی پارٹیاں اور سویلین حکمران ہمیشہ سے چلتے آئے ہیں۔ پنجاب میں 1970 سے اب تک دس بار ایسا ہوچکا ہے کہ الیکشن کے ذریعے بننے والے بلدیاتی اداروں کوانکی مدت سے پہلے رخصت کردیا گیا۔جمہوریت کی علمبردار پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ایک بار بھی بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے۔انکے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن کے بقول وہ اور سابق وزیراعلیٰ حنیف رامے بھٹو صاحب کو بلدیاتی انتخابات کروانے کا مشورہ دیا کرتے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن وہ کبھی نہیں مانے۔ انکی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے بھی کبھی میونسپل الیکشن نہیں کرائے۔2010 میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوئی تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے تین سال تک انکے انتخابات نہیں کروائے۔پنجاب حکومت کبھی بلدیاتی قانون بدلتی رہی۔ کبھی انتخابات ملتوی کرنے کی خاطر وارڈوں کی حلقہ بندیوں میں تبدیلی کا بہانہ بناتی رہی۔ جب سپریم کورٹ نے مداخلت کی اور بلدیاتی انتخابات کرانے کے احکامات جاری کیے تو 2013میں چار و ناچار بلدیاتی اداروں کا ایک نیا قانون لایا گیا جس کے تحت منتخب مقامی اداروں کے اختیارات بہت کم کردیے گئے۔جنرل ایوب خان اورجنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومتوں میں بنائے گئے میونسپل ادارے انکی نسبت زیادہ مؤثر تھے۔شہباز شریف نے بلدیاتی اداروں کو کمزور کرنے کیلیے انکے کئی فرائض پبلک کمپنیوں کو سونپ دیے۔میونسپل ادارے محض برائے نام تھے‘ صرف دکھاوے کیلیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے جب بھی بلدیاتی الیکشن کروائے ہر موقع پر سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرکے اپنے اُمیدواروں کی جیت یقینی بنائی۔ جو تھوڑے بہت اختیارات اور مالی وسائل مقامی حکومتوں کو حاصل تھے وہ مسلم لیگ(ن) کے مقامی رہنماؤں کی سرگرمیوں اور پارٹی تقریبات میں استعمال کیے جاتے تھے۔ سویلین حکومتیں مقامی اداروں کے الیکشن نہیں کرانا چاہتیں کیونکہ وزرائے اعلیٰ سرکاری افسروں کے ذریعے نچلی سطح تک اپنے کنٹرول کے خواہاں رہتے ہیں۔ ارکان ِصوبائی و قومی اسمبلی کی کوشش ہوتی ہے کہ بلدیاتی الیکشن نہ ہوں اور انکی چودھراہٹ اور اختیارات مقامی سطح پرمنتخب نمائندوں کے پاس نہ جائیں۔ کوئی سیاسی لیڈر یہ نہیںچاہتا کہ مقامی سطح پراسکی گرفت کمزور ہوجائے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی میونسپل الیکشن منعقد ہوتے ہیں تو سیاسی جماعتیں اور لیڈراِن میں جوش و خروش سے حصّہ لیتے ہیں خواہ یہ انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر ہوں ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں غیر جماعتی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن کرائے گئے تو پیپلزپارٹی نے ’عوام دوست‘ کا لیبل اختیار کرکے اپنے امیدوار کھڑے کیے جو بڑی تعداد میںکامیاب ہوئے۔ جب غلام حیدر وائیں (مرحوم)مسلم لیگ(ن) کے وزیراعلیٰ تھے تو غیر جماعتی بنیاد پربلدیاتی الیکشن کرائے گئے جس میںتمام پارٹیوں نے جوش و خروش سے حصّہ لیا۔ وائیں نے کھُلے عام اعلان کیا کہ جو جیت گیا وہ مسلم لیگ کا ہوگا یعنی حکمران جماعت میں شامل ہوجائے گا۔ غیر جماعتی بنیاد پرمقامی الیکشن کرانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جیتنے والے کونسلر وںکو وفاداری تبدیل کرنے میں کوئی قانونی مشکل پیش نہ آئے۔جنرل مشرف کے دور میں دو مرتبہ غیرجماعتی بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔ دونوں مرتبہ سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں نے بھرپورشرکت کی۔ دو تہائی منتخب لوگ کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔ کونسلر‘ ناظم‘ مئیر وغیرہ عوام سے براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں۔ انکا کچھ نہ کچھ اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ قومی اور صوبائی الیکشن لڑنے میں انکی حمایت اہم کرادار ادا کرتی ہے۔ اسی لیے بڑے سیاستدان اپنے قریبی رشتے داروں کو ناظم اور مئیر کا الیکشن لڑواتے ہیں۔ وہ اپنے علاقہ کو مخالف دھڑے یا پارٹی کے کنٹرول میںجانے نہیںدینا چاہتے۔کہنے کو ہماری پارٹیاں اور لیڈر جمہوریت کے دعوے دار ہیں لیکن عملی طور پر انکے آمرانہ رویے ہیں ۔ یہ اپنے اختیارات کسی سے بانٹنا نہیں چاہتے۔ دو سال پہلے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے نیا بلدیاتی قانون تعارف کروایا ۔ اسکے تحت بلدیاتی اداروں کے اختیارات میں قدرے اضافہ کیا گیا ہے لیکن اب بھی انکا دائرہ کار جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنائی گئی مقامی حکومتوں کی نسبت بہت کم ہے۔ نئے قانون کا اہم پہلو یہ ہے کہ مئیر اور ناظم کے الیکشن براہ ِراست عوام کے ووٹوں سے ہونگے‘ کونسلروں کے ذریعے نہیں۔ میونسپل فرائض انجام دینے والی کمپنیاں ختم ہوجائیں گی یا بلدیاتی اداروں کے ماتحت ہوجائیں گی۔نئے قانون کے تحت صوبائی حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ کا ایک تہائی بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کی پابند ہوگی۔ اگر اس بات پر عمل کیا گیا تو یہ ایک انقلابی تبدیلی ہوگی۔یونین کونسل کا سائز کم کرکے اسکا نام دیہات میں ویلیج کونسل رکھ دیا گیا ہے جبکہ شہروں میں نیبرہڈ کونسل۔ یہ کونسلیں مقامی حکومتوں کی سب سے بنیادی اکائیاں ہیں۔انکو مضبوط بنانے کیلیے نئے قانون میںانکو ضلع کونسل یا تحصیل کونسل کے ماتحت نہیں رکھا گیا بلکہ صوبائی حکومت انہیں براہ ِراست فنڈز فراہم کرے گی۔ تاہم اس نئے قانون میںاب مزید ترامیم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ نئے قانون میں ضلع کونسل کا ادارہ ختم کردیا گیا تھا۔ صرف تحصیل کونسل تھی۔ اب کہا جارہا ہے کہ ضلع کونسل کو بحال کردیا جائے گا۔ چند روز پہلے ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز میں الیکشن کرائے گئے ہیں۔ پنجاب میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوںبری طرح شکست ہوئی ہے۔بڑے شہروں ملتان‘ لاہور اور راولپنڈی میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا ہارنا پارٹی کیلیے بڑا دھچکا ہے۔ بہرحال اُصولی سیاست کا تقاضا تو یہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان دونوں صوبوں میںاپنی حکومتوں کو جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کرانے کی ہدایت کریں۔ اس عمل سے انکی سیاسی ساکھ میںاضافہ ہوگا ۔ جمہوری عمل کو تقویت ملے گی۔