جس شہر کی میئر شپ کے لئے حکمران پیپلز پارٹی اور دوڑیں تمام توقعات اور اندازوں کے برخلاف ساری رکاوٹیں پھلانگ جائے اور اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کر دینے والی جماعت اسلامی میں اس وقت رسہ کشی جاری ہے اس کے لئے کئی امکانات موجود ہیں، کیا یہ ممکن ہو گا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جن کے زیرک والد انہیں مستقبل میں وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان دیکھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ حافظ نعیم کو یہ کہہ کر سب کو نہ صرف شسدر کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے میئر بن کر اپنا کردارادا کریں۔ساتھ ساتھ وہ پیپلز پارٹی کا وزن جماعت اسلامی کے ٹوکری میں ڈال کر حافظ نعیم کی جماعت کی تنظیم اور کمیٹیڈ ورکرز کی قوت کو اپنی حکومتی وسائل کی حرارت اور خود اپنی پارٹی کی ساکھ کو اور مستحکم اور اجلا کرنے کی امنگ کے ساتھ شہر قائد کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرنے کی سعی کریں، جس سے اس شہر کا دھندلا چہرہ نکھر جائے۔ممکن ہے ایسا نہ ہو۔اقتدار اور طاقت کی خواہش پیپلز پارٹی کو اپنا میئر منتخب کرانے کی کوشش کوہوا دے۔لیکن اس کا دوسرا ردعمل یہ ہو سکتا ہے کہ دوبارہ وزیر اعظم بننے کے لئے اپنے ترکش کے تمام تیر یکے بعد دیگرے داغ دینے والے عمران خان اپنے پرانے ساتھی اور اتحادی سراج الحق کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے میئر شپ کے لئے حافظ نعیم کے جھولی میں اپنا پورا وزن ڈال کر انہیں اس شہر کی قیادت کی ذمہ داریاں سونپنے کے لئے رضا مند ہوجائیں اور پیپلز پارٹی منہ دیکھتی رہ جائے لیکن اس میں جماعت اسلامی کے میئر کے لئے مشکل یہ ہو گی کہ شہری حکومت چلانے کے لئے انہیں جو وسائل اور فنڈز درکار ہوں گے اس میں صوبائی حکومت اس فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کرے گی جو وہ اپنے ایک اتحادی کی صورت میں کر سکتی ہے۔کراچی کے موجودہ شہری انتخابات میں اس شہر پر گزشتہ کئی دھائیوں سے اپنی طاقت اور عوامی حمایت کا سکہ جمائے رکھنے والی ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے بھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو یقینی طور پر اس خلاء کا فائدہ پہنچایا۔ جو ان کے بائیکاٹ سے پیدا ہوا۔لیکن گزشتہ چند سالوں میں انتخابی نتائج کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اپنے وجود کو منتشر اور تتر بتر ہوتا دیکھ کر ایم کیو ایم کو یہ احساس ضرور تھا کہ وہ بڑی تیزی سے اپنی عوامی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے، اس لئے انہوں نے اپنے تین گروپوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔فاروق ستار‘ مصطفی کمال کا خالد مقبول صدیقی کی ایم کیو ایم پاکستان سے ہاتھ ملانے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اپنی قوت کویکجا کرنے کا احساس پیدا ہوا ہے۔لیکن ابھی وہ اس بات کا اندازہ بھی نہیں کر پائے تھے کہ ان کی یکجا ہوتی قوت نے تمام ووٹرز اور سپورٹرز کو کیا پیغام دیا ہے یا وہ اس اتحاد کو کس طرح دیکھ رہا ہے۔پھر یہ بھی کہ ان تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد ایم کیو ایم کے پاس انتخابی دنگل میں اترنے کے لئے اتنا وقت بھی نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تنظیمی اور انتخابی اتحاد کو عملی شکل دے سکیں۔ کیونکہ اس معرکے میں یہ تینوں دھڑے اپنے اپنے انتخابی نشان کے ساتھ صف آرا تھے۔پھر ایم کیو ایم کے کیمپ میں وہ جوش و خروش بھی دکھائی نہیں دیتا تھا جو اپنے رہی سہی طاقت کے مظاہرے کے لئے ضروری تھا، اس لئے ایم کیو ایم کا بائیکاٹ خواہ اس کا جواز کوئی بھی ہو۔منطقی اور درست دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ اگر ایم کیو ایم انتخابات میں حصہ لیتی بھی تو اسے وہ نتائج نہیں ملتے۔جس کی وہ خواہش کر رہی تھی۔ان انتخابات میں آپ بآسانی کہہ سکتے ہیں کہ اس سے کراچی کی سیاست میں جماعت اسلامی کا ایک نیا جنم ہوا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کراچی کا وہ ووٹر جو ایم کیو ایم سے مایوس ہوا تھا، وہ گزشتہ نصف صدی پہلے کی سیاست کی طرح جماعت اسلامی سے رجوع کرنے کی خواہش کا اظہار کر رہا ہے۔نعمت اللہ خان کی کامیابی کو اس سے مماثل قرار نہیں دے سکتے۔اس وقت جماعت اسلامی کو خالصتاً ایک توانا ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے وکٹری اسٹینڈ پر لاکھڑا کیا تھا۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے۔ایم کیو ایم کے ووٹرز کی مایوسی نے اسے جماعت اسلامی کے کیمپ کی طرف منتقل کیا ہے۔دوسری طرف پیپلز پارٹی نے گزشتہ 15سال سے سندھ پر حکمرانی کرتے ہوئے اپنے وہ تمام وسائل اثرورسوخ اور عوامی رابطوں اور انتخابی معرکہ آرائی کے لئے ٹیکنیکی حربوںکا استعمال کرتے ہوئے خود کو کراچی کی ایک طاقتور نمائندہ جماعت کے طور پر پیش کیا ہے۔کراچی کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز ہوا ہے۔دوسری طرف 2018ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے والی پی ٹی آئی کو ان بلدیاتی انتخابات میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور یقینی طور پر پی ٹی آئی کی قیادت کو اس پر مایوسی کا سامنا ہے جو شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان کی مقبولیت کی تیز چلتی ہوئی ہوا ان انتخابات میں بھی انہیں وکٹری اسٹینڈ پر پہنچا دے گی۔لیکن ان انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنے مضبوط تنظیم سازی اور انتخابی عمل کے لئے ضروری لوازمات کو پورا کئے بغیر توقعات کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر سکتی۔یہ بات بھی صاف دکھائی دیتی ہے کہ عمران خان کی شخصیت کے سحر کے علاوہ کراچی کی سیاست میں پی ٹی آئی کے پاس کوئی دوسرا اثاثہ نہیں تھا اور نہ ہی ان کی مقامی قیادت میں کوئی ایسے چہرے ہیں جن میں عام لوگوں کے لئے کوئی کشش اور جاذبیت ہو اور سب سے بڑھ کر یہ بھی کہ پی ٹی آئی کے 4سالہ دور حکومت میں کراچی کے لئے ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ،جس کے وعدے کئے گئے تھے اور پی ٹی آئی کی انتخابی ٹوکری میں عمران خان کی شخصیت کے علاوہ کوئی بھی انتخابی نعرہ یا اثاثہ نہیں تھا۔ہر انتخابات کا ایک انداز اور میکنزم ہوتا ہے اور ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے حصہ میں جو کچھ آیا وہ صرف عمران کی شخصیت کا کمال تھا۔اس کے برخلاف پیپلز پارٹی نے باقاعدہ ایک منظم انداز سے وہ سب کچھ کیا جو انتخابی فتح کے لئے ضروری ہوتا ہے۔خاص طور پر پیپلز پارٹی نے کراچی جیسے شہر میں جو کبھی بھی اس کا نہیں رہا ایک زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا یہ درست ہے کہ گزشتہ 15سال میں سندھ پر حکمرانی کرنے والی اس جماعت کی عمومی کارکردگی کو زیادہ تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔کراچی جیسا بڑا شہر جن محرومیوں کا شکار ہے اس سے یہاں کے ہر طبقہ فکر شکوہ اور شکایات کرتا نظر آتا ہے۔یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے 52ملکوں سے بڑا ہے۔لیکن یہ بھی عجیب اعداد و شمار ہیں کہ ملک بھر میں اس شہر میں سب سے زیادہ مواقع ہونے کے باوجود سب سے زیادہ روزگاری ہے۔ یہاں پر 60فیصد لوگوں کو نلکے سے صاف پانی کی فراہمی ابھی تک ممکن نہیں بن سکی ہے۔  (جاری ہے)