ِ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ پنجاب کے بعد پاکستانی سیاست پر چھایا سکوت ختم ہوگیا ہے۔ جہاں ملک کی دوسری بڑی پارٹی اس سال کے آخر میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے لیے بیانہ از سر نو ترتیب دے رہی ہے وہیں پر پاکستان پیپلز پارٹی کو وہ مطلوبہ زمین مل گئی ہے جہاں کھڑے ہوکر وہ نواز لیگ مخالف نوے کی دہائی کے بیانیے پر واپس جاسکتی ہے۔ یہ جنوبی پنجاب کے جیالوں کی امنگوں اور خواہشات کا جزیرہ ہے جو اسے پنجاب کی سیاست میں حصہ دار بناتا ہے۔سرائیکی صوبے کے وعدے پر وہ تھل اور دامان سے وہ ووٹ لیکر پر وفاق میں حکومت بناتی رہی ہے۔پی پی صوبہ تونہ دے سکی البتہ ہزاروں کی تعداد میں نوکریاں اس نے دیں ہیں ۔ تاہم ستر والی دہائی کا پنجاب پیپلز پارٹی کو اب تک نصیب نہیں ہوا ۔ نوے کی دہائی ، جب جمہوریت دس سالہ آمریت کے شکنجوں سے آزاد ہوئی تھی ، پنجاب پر تسلط کی جدوجہد میں گزری تھی۔ جنوبی پنجاب ، جہاں اس نے نوکریاں دیں اور قومی پرستوں کی ایک بڑی کھیپ جس کے ذہن میں اس نے سرائیکستان کی فصل بوئی تھی ، اس کے ساتھ رہی لیکن وسطی پنجاب اس سے دور چلا گیا۔ دوہزار آٹھ کے انتخابات میں البتہ یہ پنجاب میں حکومت بنانے کے قریب ہوگئی تھی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی بہاول پور میں نواب صلاح الدین عباسی کی تائید و حمایت سے پھر پور انداز سے جیتی لیکن اسکا وار خالی گیا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں مرکزی پنجاب اور خطہ پوٹھوار اور قریب ہوگیا۔ خوش قسمتی سے میثاق جمہوریت کی مضبوط رسی کو دونوں نے تھامے رکھا۔ مرکز میں خطہ ملتان سے یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے خطے کے لیے مخصوص سارے فنڈز اپنے شہر پر لگادیے۔ تین سالہ دور اقتدار کے آخری دنوں میں جلال پور پیروالہ میںاعلان کردیا کہ سرائیکی صوبہ پیپلز پارٹی کے منشور میں شامل ہوگا۔ قومی اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد منظور کرائی تو ن۔لیگ ن نے پلٹ کر وار کردیااور صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی کہ پنجاب میں ایک نہیں بلکہ دو صوبے (جنوبی پنجاب اور بہاولپور) بنائے جائیں۔ ملتان اور اوچ کے مخدوموں کا گٹھ جو ڑ اور کچھ پیپلز پارٹی کے یہ خدشات کہ کہیں نئے صوبے روایت ہی نہ بن جائیں، اس معاملے کو سینٹ میں لٹکا دیا۔پارلیمانی کمیٹی میں مسلم لیگ (ن) نے شرکت نہیںکی اور پیپلز پارٹی نئے صوبوں کے قیام کے لیے کمیشن بنانے کی مطالبے سے پہلو بچاتی رہی۔ سینٹ سے بہالپور۔جنوبی پنجاب صوبہ کا بل پاس کروایا گیا۔ اگلے انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کی قربانیوںاورسینٹ سے پاس کیے گئے نئے صوبے کا بل ، پیپلز پارٹی کے کام نہ آیا۔ قوم پرست خوش تھے کہ بہاولپور نئے صوبے میں شامل ہے ۔ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں جنوبی پنجاب میںکامیابی کا سہر ہ ن لیگ کے سر رہا۔پیپلز پارٹی کے جنوبی پنجاب سے بوریا بستر لپیٹنے کے حوالے سے دو بیانیے سامنے آئے۔ایک، خطے میں ستر کی دہائی سے قائم پیپلزپارٹی کے غیر اعلانیہ ثقافتی ونگ، سرائیکی لوک سانجھ، کا اصرار تھا کہ یوسف رضا گیلانی اور ان کی پارٹی کو سرائیکی صوبہ پر سیاست کی سزا ملی۔ دوسرا، غیر جانبدار حلقوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی ایک حکمت عملی کے تحت جنوبی پنجاب سے کھسک گئی تھی کیونکہ پارٹی کی مرکزی قیادت سمجھتی تھی کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں قوم پرستی کی آگ کے شعلے سندھ تک بھی پہنچ سکتے تھے۔ ن لیگ مرکز اور صوبے میں بر سرا قدار آگئی تو پیپلزپارٹی اسکے اقتدار کو، جس کی جڑیں ہلانے کے تحریک ِانصاف در پیتھی۔ پیپلز پارٹی نے سینٹ میں اپنی پوزیشن اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے بہت فائدے اٹھائے ۔ سندھ کو وفاق سے صوبائی فنڈز بھی ملتے رہے اور نجکاری کے جمود کے فائدے بھی۔ احتساب کا عمل بھی رکا رہا کہ دونوں سیاسی پارٹیوں کا اس میں فائدہ تھا۔ دوہزار اٹھارہ میں البتہ نقشہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ن لیگ وسطی پنجاب تک محدود ہوئی لیکن اختیارات اور وسائل سے محروم تمام علاقوں میں تحریک انصاف نے جھنڈے گاڑدیے۔ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں میں جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے عملی اقدامات کا وعدہ کیا تھا۔ وفاق میں اسے عددی اکثریت کا مسئلہ تھا تو اس نے پنجاب اسمبلی کی قرارداد کی روشنی میں انتظامی صوبے بنانے کے اقدامات کیے ہیں جس میں ملتان اور بہاولپور میں سول سیکریٹریٹ قائم کیے گئے ہیں۔ اب پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب کی پھر سے ضرورت پڑگئی ہے۔ نوے کی دہائی میں پارٹی کے بیانیے پر ایمان لانے والے جیالوں کی ساکھ میثاق جمہوریت نے لیکن ختم کردی ہے۔ دوہزار آٹھ کے انتخابات سے لیکر پیپلز پارٹی کی پاکستان جمہوری تحریک سے علیٰحدگی تک کا سفر اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو سندھ میں دوام بخش گیا اور مرکز میں اس نے اٹھارویں ترمیم پاس کرانے کے ثمرات بھی خوب سمیٹے ہیں لیکن اس کا مسلم لیگ ن کے ساتھ گٹھ جوڑ جنوبی پنجاب کے جیالوں کو چڑاگیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی ن لیگ سے اپنے راستے جدا کرگئی ہے لیکن جنوبی پنجاب کی ' پَخ' جیالوں کے گلے میں اٹک سی گئی ہے۔ بہت کم ہیں جن کا ایمان سلامت رہ سکا ہے۔کچھ ستون الٹ گئے ہیں ، دیگر لڑکھڑا رہے ہیں، آج گریں یا کل۔ ترقی پسند سوجھل دھرتی واس قوم پرست پارٹیوں کو انتخابی سیاست کی راہ دکھا رہی ہے لیکن کچھ خوش فہم (جیسا کہ مایہ ناز شاعر اور جنوبی پنجاب ثقافتی ونگ کے صدر اشو لال فقیر) اور بائیں بازو کے قوم پرست (شہزاد عرفان ) کی دانست میں چھوٹے صوبوں کے مفاد میں ہے کہ پنجاب کا ملکی سیاست میں وزن کم ہو تو پیپلز پارٹی کریڈٹ لینے کے لیے اسے ضرور تقسیم کرے گی ۔ لسانیت کی بنیاد پر نہ سہی کسی اور بنیاد پر ،ایک دفعہ صوبہ بن جائے تو اسکا نام بھی تبدیل ہوجائیگا اور بطرزخیبر پختونخواہ حجم بھی۔ ایسا ترقیاتی فنڈز اور نوکریوں جیسے فوائد کے تناظر میں کہا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو۔زرداری نے حال ہی میں جنوبی پنجاب کا دورہ کیا اور کچھ پرانے ساتھیوں کو پارٹی میں دوبارہ خوش آمدید کہا تو سرائیکی لوک سانجھ کی پارٹی میں موجود لابی یہی کوشش کرتی رہی کہ وہ مجوزہ صوبہ کی حمایت کریں لیکن اسے جنوبی پنجاب نہ کہیں۔ انہوں نے لاج رکھ لی اور اسے وسیب کہنے پر اکتفا کیا: نینہ لایم کارن سکھ وے میاں پیَ پلڑے ڈوڑے ڈکھ وے میاں (خواجہ فرید)