گزشتہ روز بلوچستان میں دہشت گردی کے دو مختلف واقعات میں 7 سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے ، بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ، ایک عرصے سے پاکستان کے دشمن دہشت گردی کر رہے ہیں ۔ ان کے تانے بانے افغانستان سے ہوتے ہوئے بھارت سے جا ملتے ہیں ۔ ان حالات میں ملک کی سرحدوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ ایف سی کے ساتھ ساتھ بلوچستان حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ ایک کورونا کا عذاب ہے ، دوسرا اس طرح کے واقعات نے پوری قوم کو مغموم کر کے رکھ دیا ہے ۔ ہر محب وطن پاکستانی پاک فوج کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور سلام پیش کرتا ہے۔ لیکن پاک فوج کے جوانوں کو صرف خراج تحسین پیش کرنا کافی نہیں ، بلکہ اصلاح احوال کیلئے ملک کے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگااور ملکی ترقی و بہتری کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں ۔ بلوچستان میں دہشت گرد کاروائیوں اور مداخلت کے تانے بانے تحقیق کرنے پر بھارت ، افغانستان سے ہوتے ہوئے امریکا اور اسرائیل تک جا ملیں گے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان کی افغانستان اور افغانیوں سے ہمدردی ہے مگر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سابقہ تاریخ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے موجودہ واقعات سے سابق و موجودہ افغان حکمران لا علم نہیں سب کچھ ان کی آشیرباد سے ہو رہا ہے۔ بھارت دریائے کابل پر ڈیم کیلئے افغانستان سے تعاون کر رہا ہے ، اس کا مقصد بھارت کی افغان قوم سے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بغض ہے ۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ قومی حکمت عملی بنانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاستدانوں کی ذاتی لڑائیاں اپنی جگہ مگر اس مسئلے پر قومی اتحاد کی ضرورت ہے ۔ بلوچ رہنما رؤف خان ساسولی نے ایف سی کے جوانوں کی شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے بجا اور درست کہا کہ بلوچستان کے سرداروں کی بجائے عام آدمیوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ۔ مودی کے آنے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی مذموم کاروائیاں بڑھ چکی ہیں ۔ افغانستان کے راستے بھارت ڈبل گیم کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ افغانستان سے صدیوں پرانا بدلہ لے رہا ہے ۔ نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ افغانستان کے لوگ کرائے کے قاتل ہیں ، پیسے لے کر ہر حملہ آور کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان پر چڑھ دوڑتے ہیں ۔ پاکستان بنے گا تو ہندوستان کی جان چھوٹ جائے گی ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارت افغانیوں کو پاکستان سے الجھا کر ایک طرف افغانستان سے پرانا بدلہ چکا رہا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان سے دشمنی پر کمر بستہ ہے ۔ بھارت نے پاکستان سے ملحقہ علاقوں میں اپنے سفارت قائم کر رکھے ہیں ۔ وہ انہی سفارت خانوں کے ذریعے بلوچستان میں اسلحہ اور سرمایہ بھیجتا ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت بلوچستان کے راستے پورے پاکستان میں اپنی مذموم کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور سرائیکی خطے کے دیرہ جات بھارت کی نظرِ بد سے محفوظ نہیں ۔ میں نے چند دن پہلے بھی لکھا تھا کہ ڈی جی خان جوکہ معدنی دولت سے مالا مال ہے اور جہاں سے یورنیم بھی پیدا ہو رہی ہے ، پر دشمن کی نظریں ہیں ، پچھلے دنوں نئی بننے والی فورٹ منرو پُل کو نقصان پہنچایا گیا اور ڈی جی خان میں ریلوے پٹری کو بم سے اڑایا گیا ، بھارت افغانستان کی معرفت را کے ذریعے علاقے میں دہشت گردی کرتا رہتا ہے ۔ جس پر عسکری ادارے یقینا نظر رکھے ہوئے ہونگے ، اس کے ساتھ وسیب کے عام آدمی کو بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو دولخت کرانے کے باوجود بھارتی رہنماؤں کی نفرت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ۔ اس ساری کہانی کو سمجھنے کیلئے تاریخ کا ادراک ضروری ہے ، تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے ۔ روس افغانستان میں موجود رہا اسکے اپنے مفادات ہیں ، اب روس کی جگہ بھارت نے لے لی ہے ۔ امریکا خود کو افغانستان کا فاتح سمجھتا ہے ، امریکا کے اتحادیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں پاکستان کو صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کیلئے قومی و خارجی پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ وہاں کی سیاست سرداروں کے پاس ہے جو کہ عام آدمی کو انسان نہیں سمجھتے ، نواز شریف کے گزشتہ پانچ سال واضح مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ بلوچستان میں ڈھائی سال عوامی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تھے ، ان کے دروازے عام آدمی کے لئے کھلے تھے ، وہ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کے مسائل پوچھتے ، ان کے بعد ڈھائی سال حکومت بلوچستان کے سردار ثنا اللہ زہری کے پاس آئی اور سب نے دیکھا کہ ان کے دور میں عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ۔ بلوچستان کے غریب لوگ کمانڈر سدرن کمانڈ عاصم سلیم باجوہ اور ناصر خان جنجوعہ کے ادوار کو یاد کرتے ہیں جنہوں نے عام آدمی کی خبر گیری کی ، یہاں تک کہ بکریاں چرانے والوں کو بھی فوج میں بھرتی کرایا ۔ بلوچستان کے لوگ سول بیورو کریسی کے حوالے سے مہر جیون خان ، ملک مشاق اعوان اور ناصر کھوسہ کو یاد کرتے ہیں ۔ بلوچستان کی لیڈر شپ کا تعلق بالا دست طبقے سے ہے ۔ بلوچستان کو سرداروں کی نہیں غمخواروں کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ، اس کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں ، این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں بلوچستان کو مرکز سے بھی فنڈز ملتے ہیں مگر یہ فنڈز عام آدمی کی بہتری یا بلوچستان کی ترقی کی بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ بلوچستان کے عام آدمی کیلئے جاپان نے فنڈز دیئے ، گوادر کے حوالے سے چین بھی دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے مگر بھارت و افغانستان کی بلوچستان میں مداخلت کے باعث سننے میں آیا ہے کہ چین گوادر کی بجائے کراچی کے ساحل پر نئی بندرگاہ کی تلاش میں ہے ۔ بلوچستان اور پاکستان کی بہتری اس میں ہے کہ بلوچستان میں سرداروں کی بجائے عام آدمی کو مضبوط کر کے بھارت و افغانستان کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے ۔