میرے ٹیبل پر بھارت کی باصلاحیت اور بے باک رائٹر ارون دھتی رائے کی نئی کتاب ’’آزادی‘‘ رکھی ہے۔ میں اس خاتون کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جس کی تحریر میں خوبصورتی بھی ہے؛ روانی بھی ہے اور سچائی بھی ہے۔ ارون دھتی رائے وہ ادیبہ ہے جس نے کشمیر کے لیے حق پرست آواز بلند کی۔ اس حق پرستی کے پاداش میں اس پر الزامات بھی عائد کیے گئے۔ اس کو پاکستان کی ایجنٹ بھی قرار دیا گیا۔ اس کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔ سوشل میڈیاپر اور بھارت کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس خاتون کے خلاف شرمناک مہم چلائی ہے۔ یہ سب قوتیں مل کر بھی ارون دھتی رائے کو اپنے راستے سے ہٹانے میں ناکام ہوئی ہیں۔ جب کسی انسان میں سچ بیدار ہوتا ہے تو وہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔ ارون دھتی رائے کسی پارٹی میں نہیں۔ وہ کسی ریاست کی وزیر نہیں۔ وہ سچ کی سفیر ہے۔ اس کا قد اب اتنا بڑھ گیا ہے کہ مودی اور اس کی ہندو قومپرست ٹیم اس خاتون کے سامنے بونوں کی مانند نظر آتی ہے۔ ارون دھتی رائے کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں مگر اس کا ایک ایک لفظ سیاست میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی پہلی ناول ’’گاڈ آف سمال تھنگز‘‘ بھی سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔ بیس برس کے بعد انہوں نے جو دوسری ناول ’’منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپینیس‘‘ لکھی وہ تومکمل طور پر سیاسی ہے۔ ارون دھتی رائے ایک سیاسی روح کی مالک خاتون ہے۔ یہ ارون دھتی رائے کی خوبی ہے کہ اس کی سیاست اقتداری نہیں۔ اس کی سیاست باغی ہے۔ وہ بغاوت سے پیار کرتی ہے۔ اس لیے اس کو ان عام لوگوں سے پیار ہے؛ جو لوگ ’’بڑی جمہوریت‘‘ میں برے طریقے سے کچلے جا رہے ہیں۔ وہ مسلمان نہیں ہے مگر کشمیر سے لیکر گجرات اور دلی تک جہاں جہاں بھی بھارتی مسلمانوں سے مظالم ہوئے ہیں؛ اس نے ان اعمال کے خلاف حق و سچ کا پرچم بلند کیا ہے۔ارون دھتی رائے صرف سچ تو لکھتی ہے مگر اس میں تحریر کا وہ شاندار آرٹ ہے جو انسان کے دل میں اتر جاتا ہے۔اس کی تحریر خوبصورت بھی ہے اور خطرناک بھی ہے۔میں اس خاتون مصنفہ کی تازہ کتاب ’’آزادی‘‘ پر لکھنا چاہتا تھا۔ میں نے قلم بھی اٹھایا مگر کورے کاغذ پر کوئٹہ کے مناظر ابھر آئے۔ پانچ دن گذرنے کے باوجود سڑک پر پڑی ہوئی لاشیں اور اس پر ماتم کرتی ہوئیں مائیں؛ بہنیں اور بیٹیاں۔ یہ سب کچھ بہت دردانگیز اور تکلیف دہ تھا۔ وہ لوگ جو مقتول ہوئے؛ وہ لوگ مزدور تھے۔ ان کو جس طرح بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا وہ انداز غیر انسانی اور وحشی تھا۔ انسان آخر انسان ہے۔ وہ اپنے عمل میں تو بہت بڑا اور بیحد سخت ہے مگر اپنے احساسات میں وہ کس قدر نرم و نازک اور حساس ہے۔ ان انسانوں کو نصف شب جس طرح قتل کیا گیا،ان کی زندگی والی تصاویر میں ان کی خوبصورت آنکھیں ہم سب سے سوال کرتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ ہمارا قصور کیا تھا؟‘‘اور ہم سب لاجواب ہیں۔ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ جب کوئی المیہ بہت بلند ہوجاتا ہے تب اس کی درد میں بڑی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہزارہ برادری کے لوگوں سے گذشتہ برسوں سے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہر حساس دل میں درد کی شمع تھرتھراتی ہے۔ ارون دھتی رائے کی کتاب ’’آزادی‘‘ بہت عمدہ کتاب ہے۔ اس کتاب کا فوری طور پر اردو میں ترجمہ ہونا چاہئیے۔ میرا خیال تھا کہ جب میں مذکورہ کتاب پر لکھوں گا تب ان پبلشر حضرات سے بھی مطالبہ کروں گا کہ وہ جب بھی کسی کتاب کا ترجمہ شایع کریں اس کے مصنف سے اجازت ضرور حاصل کریں۔ یہ بات اخلاقی اور اصولی طور پر درست نہیں کہ مصنف کومعلوم ہی نہیں اور اس کی کتاب یا اس کی کتاب کا ترجمہ شایع ہوکر مارکیٹ میں موجود ہو۔ اس سلسلے میں مجھے قرت العین حیدر کے حوالے سے بھی چند باتیں کرنا تھیں۔ میں نے اس حوالے سے نوٹس بھی لیے تھے مگر جب لکھنے کا وقت آیا تو میری آنکھوں میں ہزارہ برادری کے معصوم مظلوم بھر آئے۔ جب اپنے گھر میں آگ لگی ہو تب کتابوں کے حوالے سے دانشوری کرنا کس قدر دشوار اور غیر اخلاقی ہے۔ اس بات کا احساس مجھے پوری شدت کے ساتھ ہو رہا ہے۔بھارت کے ایک ماؤ نواز باغی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے: ’’تم بانسری کس طرح بجا سکتے ہو؟/اگر تمہارے سینے میں سنگین پیوست ہے۔/تم کس طرح ساز سے اپنا دل بہلا سکتے ہو؟/اگر تمہاری انگلیاں فگار ہیں۔/تم گیت کس طرح گا سکتے ہو؟/اگر تمہارے ہونٹ زخمی ہیں‘‘ دانشوری بری نہیں ہے۔ دانشوری بہت اچھی ہے۔ بیحد ضروری ہے۔ مگر جب دردناک مناظر آپ کے دل کو اپنے گھیرلیں تب آپ کے خیالات اس تکلیف سے کس طرح بازو چھڑا سکتے ہیں؟ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ارون دھتی رائے کو لکھتا کہ بھارت صرف اپنی دھرتی پر ظلم کا بازار گرم کرکے نہیں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بلوچستان میں جو آگ بھڑکا رہا ہے؛ اس کے حوالے سے بھی انہیں قلم اٹھانا چاہیے۔بھارت پاکستان کو جس طرح بلوچستان میں بلیک میل کر رہا ہے وہ عمل انتہائی قابل مذمت ہے۔ بھارت کیا چاہتا ہے؟ کیا وہ کوئٹہ کومقتل میں تبدیل کرنے کی سازش کرکے کشمیر پر پاکستان کو کسی سمجھوتے پر مجبور کرنا چاہتا ہے؟جب سیاست اس قدر سنگین ہوجاتی ہے تو پھر انسانیت کی بات کون کرے؟ بھارت کا رویہ قابل مذمت ہے مگر ہم بھارت پر تنقید کرنے کے ساتھ اپنے ملک کے ان سیاستدانوں کے کردار پر بھی نظر ڈالیں جو ہزارہ برادری کے شہداء کی لاشوں پر سیاست چمکانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ اگر مریم نواز اور بلاول زرداری ہزارہ کے لوگوں سے ہمدردی کرنے کے لیے آئے تو یہ ایک اچھی بات ہوئی،مگر یہ اچھی بات اس وقت بری بن جاتی ہے جب اس ماتمی ماحول میں مریم اور بلاول بلوچستان میں آگ لگانے والے بھارت کی مذمت کرنے کے بجائے اپنے ملک کی حکومت پر تنقید کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔جب بھی کوئی آفت امڈ آتی ہے تب ملکی سیاستدانوں کا فرض ہے کہ وہ متحد ہوجائیں اور قوم کو منتشر ہونے سے بچائیں۔ مریم نواز اور بلاول زرداری صاحب اپنی آنکھوں میں سیاسی آنسو لیکر ہزارہ برادری سے ہمدردی کے بہانے اپنے ملک کی حکومت کو نشانہ بنانے سے باز رہتے تو قوم کو ایک مثبت پیغام ملتا۔ پاکستان میں سب جانتے ہیں کہ زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے پاس اس قوم کی لوٹی ہوئی کتنی دولت ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس لوٹی ہوئی قومی دولت سے چند لاکھ نکال کر وہ ہزارہ برداری کے دکھی خاندانوں کی مدد کرتے؟ مگر ان کا مقصد ہزارہ برادری کی مدد کرنا نہیں بلکہ اپنی سیاست کو چمکانا تھا۔جس قوم کے لیڈر ایسے ہوں؛ وہ قوم بیرونی سازشوں کا مقابلہ کس طرح کرسکتی ہے؟کیاسیاستدانوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اقتدار کے لیے غریب عوام کی لاشوں کو سیڑھی بنائیں؟ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ سچ اور حق کی بات کرنے کے بجائے مصنوعی دکھ کی اداکاری کی جائے۔ ارون دھتی رائے کی کتاب بھی اس قسم کے سیاسی دوغلے پن کے خلاف ہے۔ میں اس کتاب کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ مگر جب ہماری دھرتی پر لاش بکھرے ہوئے ہوں اور ان لاشوں کی تدفین کے بجائے آگ پر ایندھن انڈیلنے کی کوشش کی جائے تو انسان اپنے جذبات کا اظہار کس طرح کر سکتا ہے؟ مرزا غالب نے کس تلخی دل سے لکھا تھا: ’’سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی دل کیا قیامت ہے کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے‘‘