سابقہ حکومتوں کی شاہ خرچیوں اور مالی بے ضابطگیوں کے باعث بلوچستان حکومت شدید مالی بحران سے دوچار ہوگئی ملازمین کو رواں ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بھی پیسے نہیں صوبے میں تمام سرکاری اکائونٹس کو فریز کردیا گیا صرف دو دن کے اخراجات کیلئے پیسے موجود ہیں جسکے بعد خزانہ خالی ہوجائے گا جبکہ سٹیٹ بنک نے بھی صوبائی حکومت کو اوور ڈرافٹ دینے سے انکار کردیا ہے دوسری طرف مالی بحران سے نمٹنے کیلئے صوبائی محکمہ خزانہ کے افسران نے وفاق سے مدد لینے کیلئے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے ہیں لیکن وہ بھی اپنی کوششوں میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں مالی بحران کے باعث کئی کمپنیوں اور ٹھیکیداروں کو ملنے والے چیکس بائونس ہوگئے صوبے بھر میں ترقیاتی کام ٹھپ ہو کر رہ گئے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی جس کے باعث کسی بھی وقت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق بلوچستان میں شدید مالی بحران پیدا ہوگیا جسکی وجہ سابقہ حکومت کی شاہ خرچیاں اور مالی بے ضابطگیاں بتائی جاتی ہیں حد تو یہ ہے کہ صوبے کے ڈھائی لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے بھی پیسے نہیں جو تقربیاً گیارہ سے بارہ ارب روپے کے قریب بنتے ہیں جبکہ پنشنرز اسکے علاوہ ہیں مالی بحران کے باعث صوبے کے تمام اضلاع کے ضلعی خزانہ اکائونٹس کو منجمد کردیا گیا ہے جسکی وجہ سے ٹھیکیداروں فرمز اور کمپنیوں کو جاری کئے گئے متعدد چیکس بھی باونس ہوگئے ۔ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس روز مرہ کے اخراجات کیلئے بھی پیسے نہ ہونے کے برابر ہیں صوبائی حکومت نے مالی بحران سے نمٹنے کیلئے سٹیٹ بنک سے اوور ڈرافٹ لینے کی کوشش کی تھی لیکن سٹیٹ بنک نے صوبائی حکومت کی کمزور مالی پوزیشن دیکھتے ہوئے اوور ڈرافٹ دینے سے انکار کردیا ۔ سرکاری ہسپتالوں نے مئی میں ادویات کی خریداری کی تھی انکی ادائیگی کے چیک بھی بائونس ہوگئے ہیں جسکی وجہ ان کمپنیوں نے سرکاری ہسپتالوں کو ادویات کی فراہمی بند کردی جسکی وجہ سے وادی کوئٹہ کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر آلات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق حکومت نے سرکاری فنڈز کو مال مفت دل بے رحم کی طرح لٹایا اور اپنے لوگوں کو نوازنے کیلئے سرکاری خزانے کا منہ کھول دیا اور اب صورتحال اس قدر گھمبیرہوگئی ہے دوسری طرف ادائیگیاں نہ ہونے کے باعث صوبے بھر میں ترقیاتی عمل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ۔محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق وفاق سے گیس ڈویلپمنٹ سرچارجز کی مد میں آنے والی رقم میں کٹوتی کے باعث تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی بمشکل ہو رہی ہے ، فنڈز کی عدم دسیتابی کے باعث ترقیاتی منصوبے بھی ٹھنڈے پڑ گئے ، بلوچستان میں نگران حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد پہلے سے جاری مالی مشکلات نے مزید سر اٹھایا، وفاقی حکومت کی جانب سے گیس ڈویلپمنٹ سرچارجز کی مد میں رواں ماہ 6ارب روپے کی کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے صوبے کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ، رواں مالی سال میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارجز کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے 18ارب روپے کم ملے ہیں،مالی مشکلات کے باعث محکمہ خزانہ کو جون کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی میں مشکل پیش آرہی ہے ۔