یہ 2008 ء کی بات ہے جب بلوچستان میں زمین نے کروٹ لی اور آن کی آن میں سینکڑوں گاؤں ملبے کا ڈھیر بن گئے،زخمیوں کا تو شمار ہی کیا جان سے جانے والوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی۔ سرو قد درختوں کی وادی زیارت میں کچھ زیادہ ہی تباہی آئی تھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یہاں ڈینو سار اچھلے ہیں ،دوردراز کے گاؤں دیہات سے زخمیوں کو چارپائیوں پرڈال ڈال کر عارضی طور پر بنائے گئے امدادی کیمپوں میں لایا جارہا تھا ،لوگ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے تھے۔ زخمیوںکی آہ و بکا دل چیرے ڈالتی تھی ،مرنے والوں کے لئے اجتماعی قبریں کھودی جارہی تھیں میں یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا یہاں وقت اپنی رفتار سست کر لیتا ہے یا بلوچستان وقت کی قید سے آزاد ہے ؟ ایسا نہیں ہے توپھر بلوچستان اتنا پیچھے کیوں ہے ،یقین نہ آتا تھا کہ یہ اکیسویں صدی کا بلوچستان ہے جہاں ضروریات زندگی عیاشی کے خانے میں لکھی جاتی ہیں، میںزیارت کے پہاڑوں پر کئی دن امدادی سرگرمیاں رپورٹ کرتا رہا اور جب کوئٹہ پہنچا تو اتفاق سے کوئٹہ پریس کلب میں وہاں حکمران پیپلز پارٹی کے ایک رکن قومی اسمبلی جنہیں زرداری صاحب نے امدادی سرگرمیوں کا نگراں مقرر کیا تھا اپنی کارگزاری بتارہے تھے میں بیٹھ گیا اورہکا بکا ہو کرسننے لگا وہ جب خاموش ہوئے تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے چھوٹتے ہی عرض کیا جناب ! آپ نے جو فرمایا ایساہی ہوگا لیکن میں ابھی جس زیارت سے آرہا ہوں وہاں تو حال یہ ہے کہ ایک عورت کو چارپائی پر ڈال کر آٹھ گھنٹے کی مسافت کے بعد زیارت ڈسٹرکٹ لایا جاتا ہے کہ ذرا دیکھیں اس میں کہاں کہاں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے اور سرکاری اسپتال والے اسے کوئٹہ بھیج دیتے ہیں کہ ان کے پاس ایکسرے مشین کی سہولت نہیں ۔۔۔میرے تلخ سوال پر ایم این اے صاحب نے صرف ایک جملہ کہا ’’جناب! آپ نے درست کہا بدقسمتی سے یہ ایک زیارت کا نہیں پورے بلوچستان کا حال ہے ‘‘ میرا دوسری بار پسماندہ بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے آواران میں2013ء میں جانا ہوا اتفاق سے اس بار بھی زلزلہ کی تباہ کاریاں میری منتظر تھیں۔ خوفناک زلزلے نے آواران میں بڑی تباہی مچائی تھی،یہ علاقہ مسلح باغیوں کی آماجگاہ ہے ،ناراض بلوچ آواران کے پہاڑوں پر راکٹ لانچروں کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں ،نیچے سڑک سے گزرنے والی گاڑیاں ان کے نشانے پر ہوتی ہیں یہاں امن و امان کی صورتحال نہائت خراب تھی ،زلزلے کے بعد مچنے والی تباہی نے ناراض مسلح بلوچ تنظیموں کو مجبورکیا کہ وہ یہاں امدادی سرگرمیوں کی اجازت دیں ،انہوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی این جی او کو یہاں آنے کی اجازت ہوگی ،ایدھی ،الخدمت اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جو اس وقت تک کالعدم نہیں ہوئی تھی یہ وہاں پہنچی ،بطور ایک صحافی مجھے بھی یہاں آنا پڑا اور مجھے وہ سب دیکھنا پڑا جو زندگی میں کبھی نہ دیکھا تھا یہاں میں نے غربت افلاس کو چلتے پھرتے سانس لیتے دیکھاآواران میں کہیں پینے کے پانی کا ایک نلکا تھا نہ کہیں ایک فٹ سڑک،درو دیوار پاکستان کے خلاف نعروں سے رنگے ہوئے تھے۔ میں حیران تھا کہ یہ بھی پاکستان کا حصہ ہے ،وہاں کے سرکاری اسپتال میں ایکسرے مشین تھی لیکن کبھی اس سے ایک ایکسرے بھی نہیں کیا گیاتھااسپتال کے گیٹ پر بڑا سا تالا لگا رہتا تھا جسکی ضرورت نہ تھی لوگوں کو خبر تھی کہ اس شفا خانے میں انکے لئے شفا نہیں ہے،یہ چیل کا وہ گھونسلا ہے جس میں ماس نہیں ،وہاں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب ہم زیادہ بیمار ہوجاتے ہیں تو مال مویشی بیچ کر کسی کی گاڑی کرائے پر لے کر کراچی چلے جاتے ہیں کراچی آواران سے پانچ سے چھ گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں پہنچتے ہی آواران کے بلوچوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں فلک بوس عمارتیں ،سڑکیں ،چمکتی ہوئی گاڑیاں ،اشیائے ضرورت سے بھری دکانیں اور جگمگاتے شاپنگ مال ۔۔۔یہ سب ان کے احساس محرومی کو سو سے ضرب دے رہے ہوتے ہیں بلوچستان کا گڈانی پاکستان میں شپ بریکنگ کا واحد علاقہ ہے یہاں اپنی زندگی پوری کر لینے والے جہاز لائے جاتے ہیں انہیں جیٹی پر لاکر خالی کیا جاتا ہے اورپھر مزدور محنت کش ویلڈنگ برنر سے اسے کاٹ کاٹ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں جو مختلف اسٹیل ملز خریدلیتی ہیں ،جنوری2017ء میں ایل پی جی کا ایسا ہی ایک جہاز پلاٹ نمبر ساٹھ پر لایا گیا اسے اسکریپ کرنے کے لئے مزدوروں کے حوالے کر دیا گیا ،جہاز کے ٹکڑے کرنے سے پہلے اس سے سارا تیل نکال لیا جاتا ہے تاکہ ویلڈنگ برنر سے آگ نہ بھڑک اٹھے ۔بدقسمتی سے اس جہاز میںآگ بھڑک اٹھی پچپن مزودر اندر کام کر رہے تھے بہت سوں نے سمندر میں چھلانگ لگا کر جان بچائی اور جو اندر رہ گئے انکا کچھ پتہ نہیں چلا ایک رپورٹر کی حیثیت سے مجھے فوراوہاں پہنچنے کے لئے کہا گیا میں وہاں گیا اورپھر ایک اور ہی دنیا دیکھی مزدوروں کی یہ دنیا سو فیصد رسک پر تھی،ان کے لئے برائے نام احتیاطی اقدامات تھے گڈانی کراچی سے قریب ہی ہے جب وہاں میڈیا کی گاڑیاں قطار سے لگیں تو کمشنر صاحب کو بھی آنا پڑا جنہیں صحافیوںنے آڑے ہاتھوںلیا میں نے کمشنر صاحب بہادر سے عرض کیا جناب ! اتنی شدید آگ تھی اور آپ لوگ کراچی سے آنے والی اسنارکل کا انتظار کر رہے تھے ،کیوں؟‘‘۔ جواب ملا اس لئے کہ ہمارے پاس اسنارکل ہے ہی نہیں ،میں نے حیرت سے کہا گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں اسنارکل نہیں ! انہوں نے میرے ہی لہجے میں جواب دیا صرف گڈانی میں نہیں پورے بلوچستان میں ایک بھی آگ بجھانے والی اسنارکل نہیں ہے۔ آج کا بلوچستان بالکل ویسا کا ویسا ہی ہے،لٹا پٹا،لق و دق صحرا جیسا جہاں کچہری میں دھماکہ ہو جائے توکوئٹہ کے جنرل اسپتال میں بستر کم پڑ جاتے ہیں ،پورے بلوچستان میں امراض قلب کا اک اسپتال نہیں،آج بھی بلوچستان کے پاس آگ بجھانے والی ایک بھی جدید گاڑی نہیں ،پورے بلوچستان کے لئے صرف کوئٹہ میں پوسٹ مارٹم کی سہولت موجود ہے ،چندیونیورسٹیاں ہیں لیکن تعلیمی معیار شرمناک حد تک مایوس کن اور اسکا ذمہ دار بلوچستان کا کرپٹ سرداری نظام اور ہماری حکومتیں ہیں جو سرداروں کو قابو کرکے بلوچستان کو قابو کرنا چاہتی ہیں اور یہ سردار ان بلوچوں سے کتنے مخلص ہیں اسکا اندازہ ان کے رہن سہن سے ہی ہوجاتا ہے جنکا ہر ویک اینڈ کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن میں گزرتی ہے،این جی او سے وابستہ ایک دوست نے بتایا کہ اک بار نواب اکبر بگٹی صاحب کے اک صاحبزادے کا فون آیا وہ کہنے لگے اک علاقے میں ہیپاٹائٹس کی ویکسینیشن کرانی ہے ،میں نے کہا نواب صاحب ! حکم کریں کب ڈیرہ بگٹی پہنچوں ؟ کہنے لگے وہاں نہیں فیصل آباد جانا ہے دراصل ،فیصل آباد میں نواب صاحب کی چوتھی بیگم کا میکہ تھا بیگم کا اپنے علاقے والوں کے لئے دل دکھا ہوگا تو انہوں نے نواب صاحب سے ذکر کردیا اب بیگم کی بات کیسے ٹالی جاتی نواب صاحب نے ویکسینیشن کا انتظام کرادیا لیکن انہیں پھر بھی ڈیرہ بگٹی کے غریب بگٹیوں کا خیال نہیں آیا جہاں پینے کامٹیالا پانی گردے گھول کر پی جاتا ہے بلوچستان ناراض ہے،شدید ناراض ہے،اس ناراضگی نے نئی دہلی کو سازشیں کرنے کا موقع دے دیا ہے،بلوچوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر دے دیئے ہیں اسے منا لیں یقین کریں بلوچ پہاڑوں سے پاکستان کا پرچم اٹھائے اتریں گے انہیں سینے سے لگانا ہوگا اپنا بنانا ہوگا عزت دینی ہوگی امن و امان کا اسی فیصد مسئلہ اسی معانقے سے اسی مصافحے سے خل ہوجائے گا بشرط کہ ہم خلوص دل سے آگے بڑھیں۔