بلوچستان میں پچھلا ہفتہ سرپرائز سے بھر پور رہا ۔ قدوس بزنجو قسمت کے دھنی ٹھرے دو وزراء اعلٰی کو ایوان اقتدار سے نکالنے والے قدوس بزنجو کیخلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو کمال مہارت سے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف یعنی آگ اور پانی کے ملاپ سے قدوس بزنجو نے اپنی حکومت بچا لی۔ ابھی ایک دن ہی نہیں گزرا تھا بلوچستان میں بلدیاتی انتخاب کا میدان سجا اور ماحول بہت پرجوش رہا۔ سرکاری زرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد سے زائد رہا غیر سرکاری تنظیم فافن کی رپورٹ میں اس چالیس سے پچاس فیصد بتایا گیا ہے۔ بلوچستان جیسے قبائلی ماحول میں ایک سو بتیس خواتین نے مخصوص نشستوں کے بجائے جنرل نشستوں پر انتخاب لڑا جو کہ ایک اچھی ابتداء ہے۔ تاہم فافن نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ صوبے کے دس اضلاع ایسے تھے جہاں سے ایک بھی خاتون امیدوارنے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جوسیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔جب بلوچستان کوصوبے کا درجہ دیا گیا جس کے بعد پہلا انتخاب ہوا اور نیپ نے بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کیساتھ حکومت بنائی تھی بلوچستان کے سیاسی حلقے انیس سو ستر کے انتخابات کو غیر متنازعہ الیکشن قرار دیتے رہے ہیں اب دو ہزار بائیس میں بلدیاتی انتخابات کو غیر سرکاری تنظیم نے فافن نے یہ سند اپنی رپورٹ میں دی ہے کہ یہ غیر متنازعہ بلدیاتی انتخابات تھے ان انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن نے جو انتظامات کئے اور صوبائی حکومت کا جو کردار تھا وہ قابل تعریف ضرورہے۔ بلوچستان میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں موجودہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ان انتخابات کی دوڑ میں کہیں پیچھے رہ گئی ہے جبکہ سابقہ حکمران اور موجودہ اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف تو بمشکل ساتویں اور آٹھویں نمبر پر آئی ہے لیکن پہلے نمبر پر کوئی سیاسی جماعت سامنے نہیں آئی بلکہ آزاد امیدواروں نے میدان مار لیا ہے۔ آزاد امیدواروں کے بعد صوبے کی حکمران جماعتوں بی اے پی اور اسکے اتحادیوں کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھی مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی ف دوسرے نمبر پر رہی ہے جبکہ تقسیم کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی تیسرے نمبر پر رہی جبکہ نیشنل پارٹی نے سردار اختر مینگل کی جماعت سے بہتر نتائج دیتے ہوئے چوتھے نمبر پر جگہ بنائی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں سیاسی اکھاڑے سے باہر ہونے والی جماعتیں نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ نے بلدیاتی انتخابات میں سیاسی رنگ میں واپسی کی ہے۔ ڈاکٹر مالک کی نیشنل پارٹی نے تربت میں بی اے پی کی حکومتی اتحاد میں ایک رکن قومی اسمبلی اور اور پانچ اراکین قومی اسمبلی بمعہ احسان شاہ کو سرپرائز دیا ہے۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے پشتون علاقوں میں واپسی کی کوشش کی ہے تاہم وہ پشتون علاقوں میں اپنی روایتی حریف جمعیت علماء اسلام کو زیر نہیں کرسکی۔گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے انیس سو ستر کے انتخابات کی تاریخ دہرائی ہے۔ جیسے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے ریاست قلات کے شہزادے کو شکست دی تھی۔ ایسے ہی مولانا ہدایت الرحمان نے گوادرمیں قوم پرست جماعتوں کو چاروں شانے چت کردیا۔ حمل کلمتی المعروف ڈپٹی چیف منسٹر کو ہمیشہ یہ زعم رہا کہ وہ گوادر کہ الیکٹیبل ہیں اور رہینگے لیکن انکا یہ زعم ایک ٹرائکا نے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں توڑا ہے۔ اس ٹرائکا میں ایک مذہبی سیاستدان ایک سابق قوم پرست سیاسی کارکن اور مچھلیاں فروخت کرنے والی بزرگ خاتون شامل ہیں ۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق ان انتخابات کا ٹرن آٗوٹ پچاس فیصد رہا ہے اس بار بلدیاتی انتخابات کی خاص بات ایک نہیں ایک سے زائد ہیں۔ آزاد امیدواروں کی بھاری اکثریت میں کامیابی ایک بات کو ثابت کرتی ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں چاہے وہ وفاق پرست جماعتیں ہو ں یا قوم پرست جماعتیں وہ اپنا پولیٹیکل نیٹ ورک مضبوط نہیں کر سکی ہیں۔ اب گوادر میں ساحل سمند ر پر شکست کا مزہ چکھنے کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی کے حمل کلمتی نہ صرف حلقے میں فعال ہوئے ہیں بلکہ ٹویٹر پر بھی یہ بتا رہے ہیں کہ انہوں گوادر کو کیسے دبئی اور سنگا پور بنانے کیلئے کام جاری رکھا ہوا ہے۔ گوادر کے نتائج کے بعد بلوچستان میں جھالاوان کے صدر مقام خضدار میں بلوچستان عوامی پارٹی کے آغا شکیل خضداری نے بھی تین قبائلی سرداروں انکی قوم پرست سیاست اور مذہب پرستوں کو ٹف ٹائم دیا جو کہ حیران کن ہے گو کہ ہدایت الرحمان کی طرح انہیں واضح یا فیصلہ کن برتری نہیں ملی۔ لیکن قبائلی اور مذہبی سیاست کے دوام میں گھرے خضدار میں آغا شکیل نے بد ترین مخالفین کو بیٹھ کر بندر بانٹ پر مجبور کردیا کیونکہ نیشنل پارٹی ، بی این پی مینگل اور جمعیت علماء اسلام یکجا نہ ہوتیں تو ان فریقین میں نیشنل پارٹی کیساتھ ملکر آغا شکیل درانی میونسپل کمیٹی خضدار کے مئیر بن سکتے تھے یا نیشنل پارٹی کو مئیر شپ دیکر ڈپٹی مئیر بن سکتے تھے۔ آغا شکیل خضداری کا راستہ روکنے اور انہیں خضدار کا اسٹیک ہولڈر نہ ماننے کیلئے قبائلی سردار اور مذہبی زعماء نے ایکا کرکے عہدے بانٹ لئے لیکن عوام کو یاد ہوگا بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنی اتحادی نیشنل پارٹی کو چند ماہ پہلے تک بھی شفیق مینگل سے اتحاد پر ڈیٹھ اسکواڈ کا سہولت کار ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ اب ایک نئے اسٹیک ہولڈر کو روکنے کیلئے پچھلے گناہ معاف ہوچکے ہیں۔ بلوچستان کے حالیہ بلدیاتی انتخابات ایک گھٹن زدہ ماحول میں نہ صرف تازہ ہوا کا جھونکا ہیں بلکہ یہ ایک بہتر مستقبل کی نوید ہیں ۔ ان انتخابات کے بعد صرف گوادر میں اگر قانون اجازت دے تو حق دو تحریک خواتین کی مخصوص نشست پر ماسی زینی کو منتخب کرواکے شہر کا مئیر بنا دے تو بلوچستان کی پہلی خاتون مئیر ایک مچھلی فروش بن سکتی ہے اور اسکا فائدہ حق دو تحریک کو سیاسی طور پر ہوگا۔ تاہم گوادر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی عوام اور منتخب نمائندوں نے کرنا ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج بے اختیار بلدیاتی نظام میں رہ کر عوامی مسائل کو حل کرنا ہے جس امید کے تحت عوام نے انہیں منتخب کیا ہے اب صوبائی حکومت سے اختیارات کا حصول منتخب بلدیاتی نمائندوں کیلئے ایک نیا چیلنج ہوگا۔