اللہ تعالیٰ میاں نواز شریف کو صحت عطا فرمائے‘ تادیرسلامت رکھے‘ وہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ ہیں‘ ملک کے مقبول عوامی رہنما اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ جس پر 2018ء کے انتخابات میں سوا کروڑ ووٹروں نے اعتماد کیا۔ کسی سیاسی لیڈر کی بیماری پر سیاست نہ ہو؟پاکستان جیسے نیم خواندہ اور سماجی طور پسماندہ معاشرے میں ممکن ہی نہیں‘ یہاں تو مرے ماں باپ کے جنازے اور قبر پر سیاست کا رواج ہے اور لوگ برسوں نہیں عشروں تک ماں باپ‘ دادا‘ نانا کے نام پر ووٹ مانگتے اور مراد پاتے ہیں‘ جذباتی عوام قبر کو ووٹ دینے کا فخریہ اقرار کرکے دادطلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن بظاہر اچھے خاصے پڑھے لکھے‘ دانشور اور تجزیہ کار بھی جب محض مسلم لیگ کے کارکنوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے جذباتی نعرے لگاتے اور عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دیتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ میاں نواز شریف سروسز ہسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور پورا لاہور سو رہا ہے ‘یہ زندہ دلوں کا شہر نہیں‘ مردہ دلوں کا قبرستان ہے‘ نواز شریف سول سپر میسی کی جنگ لڑ رہا ہے‘ کوئی ہے جو سول سپر میسی کا نعرہ لگانے والوں کا ساتھ دے‘‘وغیرہ وغیرہ چند دوست مسلم لیگی لیڈروں‘ ارکان پارلیمنٹ اور شریف خاندان کی وفاداری کا دم بھرنے والے دانشوروں کی سوئی ہوئی غیرت کو جگانے میں مشغول ہیں اور اس بات پر افسردہ کہ میاں صاحب سول بالادستی اور جمہوری اقدار کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر ان کے قابل اعتماد ساتھیوں کو اپنے مفادات عزیز ہیں۔ میاں صاحب اور ان کے ساتھی ظاہر ہے کہ حکومت اور اپنے سیاسی مخالفین کے بیانئے کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ انہوں نے حکمرانی کے دوران کرپشن اور نااہلی کے ریکارڈ قائم کئے‘ غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں میں اضافے کے بجائے قومی وسائل اور اندرونی اور بیرونی قرضوں کا معتدبہ حصہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے نام پر میگا پراجیکٹس کے لئے مختص کیا‘ یہی میگا پراجیکٹس میگا سکینڈل میں ڈھلے اوردیکھتے ہی دیکھتے شریف خاندان کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں میں اضافہ ہونے لگا‘ جبکہ ملک غریب‘ پسماندہ اورمقروض ہوتا چلا گیا۔ نمایاں ترین مثال سٹیل ملز کی ہے جو چار سال سے بند پڑی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کہ سٹیل کے کاروبار سے کامیابی و کامرانی کی دھاک بٹھانے والوں کے دور میں قومی ادارہ تباہی و بربادی سے دوچار کیسے ہوا؟ شاہد خاقان عباسی کی ذاتی ایئر لائنز نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی مگر پی آئی اے کا بیڑا غرق ہو گیا‘ پانامہ سکینڈل عمران خان نے گھڑا نہ جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھیوں نے میاں صاحب کی مقبولیت اور سول بالادستی کی نامعلوم جدوجہد پر مٹی ڈالنے کے لئے عالمی اور مقامی میڈیا میں اچھالا۔ سابق صدر ممنون حسین کے بقول یہ عذاب خداوندی تھا جو کرپٹ لوگوں پر نازل ہوا اور ان کی رسوائی کا سبب بن گیا۔ میاں صاحب اور ان کے ساتھی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ کر پانامہ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں تاحیات نااہل پانامہ پر نہیں‘ اقامہ پر کیا گیا حالانکہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے بقول اقامہ زیادہ بڑا جرم ہے کہ ایک نیو کلیر ریاست کا وزیر اعظم چھوٹی سی ریاست کی شہریت لے کر اپنے ادنیٰ مفادات کا تحفظ کر ے۔ میاں صاحب کسی سیاسی مقدمے میں گرفتار ہیں نہ اپنی نااہلی سے پہلے انہوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بلند کیا۔ گرفتاری کے بعد حکومت‘ جیل حکام اور نیب نے ایک وی آئی پی قیدی کوقیام و طعام اور علاج معالجے کی جو سہولتیں فراہم کیں‘ اس ملک کی نوّے فیصد سے زائد عزت دار‘بے قصور قانون پسند آبادی ان کا تصور نہیں کر سکتی‘ اگر سروسز ہسپتال میں علاج معالجہ شریف خاندان کے شایان شان نہیں تو اس کی ذمہ دار ریاست نہیں‘ پچھلے دو تین عشروں سے وفاق اور صوبوں میں حکومت کرنے والے سیاستدان ہیں جو عوام تو درکنار اپنے لئے عالمی معیار کا ہسپتال نہ قائم کر سکے‘ نیب کی حراست میں انہیں گھر کا کھانا دستیاب تھا اور ڈاکٹر عدنان کی تجویزکردہ ادویات بھی‘ کھانے میں آلو گوشت‘ چکن روسٹ‘ مکھڈی حلوہ اور پیاز قیمہ کا انتخاب میاں صاحب خود کرتے تھے۔ بیماری مگر پوچھ کر آتی ہے نہ حکمرانوں کی فرمائش پر کسی کو لاحق ہو سکتی ہے۔ ایک شخص جو تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا ہو ‘کوٹ لکھپت جیل اور نیب کا قیدی بن کر ذہنی اور جسمانی کا دبائو کا شکار ہونا چاہیے اور لازماًہو گا یہ فطری بات ہے۔حکومت اگر علاج معالجے میں کوتاہی کرے تو لائق مذمت ہے مگر بیماری کا سارا ملبہ حکومت پر ڈال کر لاہور اور پنجاب کے عوام‘ سیاسی مخالفین اور مسلم لیگی قیادت پر لعن طعن کرنا‘ عمران خان کو ممکنہ قاتل قرار دینا اورکم ظرفی کی پھبتی کسنا کسی معقول شخص کو زیبانہیں‘ اس موقع پرلاہور اور پنجاب کے عوام کو احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دینا تو پرلے درجے کی بدذوقی ہے احتجاج کا میاں صاحب کو فائدہ ؟ حیران کن طور پرمیاں صاحب کے دونوں صاحبزادگان کا کوئی نام ہی نہیں لے رہا جو اپنی اپنی مجبوریوں کی بنا پر لندن میں تشریف فرما ہیں ان میں سے ایک ٹوئٹر پر ایکٹو ہیں حالانکہ عقلمندی اور والد گرامی سے محبت اور وفاداری کا تقاضا ہے کہ دونوں لاہور آئیں‘ہمشیرہ کی طرح حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے والد کی تیماری داری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں‘ میاں نواز شریف نے اپنی اولاد کے لئے وہ سب کچھ کیا جوعدم تحفظ کے مارے اس معاشرے میں والدین عموماً کرتے ہیں ‘قرآن مجید میں مال اور اولاد کو انسان کے لئے آزمائش قرار دیا گیا ہے‘ میاں صاحب اس وقت جس ابتلا کا شکار ہیں وہ بیرون ملک اثاثوں بالخصوص لندن کے فلیٹس کی عطا ہے‘ میاں صاحب کے وفادار اور ہمدرد ان کی بیماری پر کارکنوں اور عوام کے جذبات بھڑکانے اور زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد سمیٹنے کی سطحی سوچ سے چھٹکارا پائیںاور عقل و خرد کی مانیں تو صائب طرز عمل یہ ہے کہ فی الوقت سیاست کو بالائے طاق رکھ کر قائد محترم کی صحت و سلامتی پر توجہ دی جائے‘ ان کی زندگی ہر چیزسے عزیز اور مقدم ہے‘ لہٰذا حکومت کے بخیے ادھیڑنے ‘ عمران خان کو قاتل قرار دینے کے بجائے میاں شہباز شریف کے ذریعے کسی قابل عمل ڈیل کی سعی کی جائے۔ کچھ دے دلا کر اگر میاں صاحب اور مریم نواز شریف کی بیرون ملک روانگی اور مرضی کے علاج کی سہولت مل سکتی ہے تو اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں‘ یہ مہنگا سودا نہیں‘ جان ہے تو جہان ہے‘ بیماری پر سیاست سے شریف خاندان کے بعض افراد اور مسلم لیگ(ن) کو ممکن ہے تھوڑا بہت فائدہ ہو‘ لیکن لعنت ایسے فوائد پر جو میاں صاحب کی صحت کو دائو پر لگا کر حاصل ہوں ۔حسین نواز اور حسن نواز تھوڑی سی قربانی دے کر صرف میاں صاحب سے محبت اور وفاداری کے تقاضے پورے کریں گے بلکہ مسلم لیگی کارکنوں کے حوصلوں اور جذبوں میں بھی بجلیاں بھر دیں گے۔ پنجاب اور لاہور کے عوام‘ مسلم لیگ کے عملیت پسند قائدین اور مخالفین کی غیرت کو جگانے کا بیانیہ اس وقت دم توڑ دیتا ہے جب ناقدین یہ سوال اٹھا ئے ہیں کہ آخر غریبوں کے بچے سڑکوں پر کیوںنکلیں‘ میاں صاحب کے اپنے صاحبزادگان کیوں نہیں؟۔ میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ صحت دے‘ عمر خضر عطا فرمائے مگر ان کی صحت پر سیاست کرنے والے نادان دوست ہیں ورنہ بیان بازی کے بجائے ضرورت اس وقت مصلّے پر بیٹھ کر دعائیں کرنے اور سب کچھ بھول کر ان کی بحالی صحت اور رہائی کے لئے توانائیاں ‘وسائل اور اثرورسوخ صرف کرنے کی ہے۔ طعنہ زنی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے بہت وقت پڑا ہے۔