ابوالکلام آزاد نے درس وفا میں لکھا ’’آہ تم کیا جانو اتفاق کیا ہے۔ اتفاق ایک سفید کبوتر ہے۔ جو اپنی چونچ میں زیتون کی شاخ لئے ہوئے نااتفاقی کے طوفان سے نجات دلانے کی خوشخبری سنا رہا ہے۔ اللہ بزرگ و برتر میاں نواز شریف کو صحت کاملہ عطا فرمائے کہ صحت پر سیاست اخلاقی کم ظرفی ہے مگر کیاکیجیے کہ پاکستانیوں کو ماضی میں کچھ عجیب اتفاقات سے واسطہ رہاہے کہ دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہے ہیں۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر یہ تلخ حقیقت متعدد بار گزر چکی جب نیلی بتیاں ایک ملزم کو عدالت میں پیش کرنے لے جاتی ہوئی اتفاقاً سرخ ہو جاتیں اور ہسپتال ان کی منزل ہوتا۔ سی ٹی سکین ٹیسٹوں کی تصاویر اخبارات میں چھپتیں۔ صحت پر سیاست گناہ ہے اس لئے ایک دن اتفاق کی عندلیب آسمانوں سے نسیم جنت لائی اور یہی ملزم دبئی میں’’سر تے گلاسی‘‘ رکھ کرناچتے دکھائی دیے۔ اس وقت بھی پاکستانیوں نے عش عش داد یوں دی: بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا وہ پابند قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے وطن عزیز میں ایک سورج ایسا بھی ڈوبا کہ پابند قفس اپنے خاندان اور ملازمین سمیت ارض مقدس میں طلوع ہوا۔ اللہ نواز شریف کو صحت کاملا عطا کرے اور قوم کو کسی بھی صدمے سے محفوظ رکھے اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ بیچارے مولانا مارچ چھوڑ کر ایک بڑے سے شرف ملاقات حاصل کر کے کیا آئے کہ ہمارے وزیر اعظم کی ’’کسی کو چھوڑوں گا نہیں‘‘ کی گردان ’’صحت پر سیاست نہیں، سابق وزیر اعظم کی صحت کے لئے دعا گو ہوں‘‘ پر ٹوٹی ۔ میاں نواز شریف کی ایک کیس میں ضمانت کے بعد مستقبل اور میاں نواز شریف کی صحت کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور افواہوں کا طوفان آمڈ آیا۔ قصور کٹھور دل عوام کا ہے یا ماضی کے اتفاقات کا۔ دعوئوں، مفروضوں کا طوفان ایسا کہ ہر کوئی اپنی ہانک رہا ہے۔ کچھ تو ماضی کا حوالہ دے کر دن، مہینے بتاتے رہے ہیں کہ کتنے ارب ڈالر میں انہی دنوں وہ معاملہ طے ہونے کا وہ پہلے سے بتا چکے تھے۔ جب یہ دعوے کئے جا رہے تھے اس وقت وزیر اعظم نے اتنی تصدیق کر دی تھی کہ ایک بادشاہ نے سفارش کی ہے مگر وہ’’ کسی کو چھوڑیں گے نہیں‘‘ آج وزیر اعظم اپنے پائوں کی مٹی چھوڑنے پر آمادہ ہیں تو خلق خدا حیران و پریشان ہے اور دانشوروں کی دانش منقسم ہے۔ کچھ اپنا وزن اخلاقی قدروں کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں تو کچھ قانون اور انصاف پر دلیل کرتے ہیں۔ اللہ کرے میاں نواز شریف کی بیماری اس بار بھی ایسا ہی اتفاق ہو کہ ان پر اصغر گوئندوی کا یہ شعر صادق آتا ہے: چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے میاں نواز شریف بارے ان کے مخالفین اور دوستوں کا اتفاق ہے کہ وہ خطروں کے کھلاڑی ہیں۔ اپنے شیخ رشید ان پر آبیل مجھے مار کی پھبتی کستے رہے ہیں۔یہاں تک کہ برادر خورد بھی گزشتہ دنوں پارٹی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں دوہائی دیتے رہے کہ بڑے بھائی کو ہر بار سمجھایا کہ موج حوادث کو دعوت دینے سے پرہیز کریں۔ چھوٹے بھائی عجیب مشکل میں اس لئے ہیں کہ بھائی اور حادثات میں آہنی دیوار بننے کی کوشش کر رہے ہیں بھائی کے لئے دشواریوں میں آسانیاں تلاش کرنے کے لئے بلبلا اٹھے کہ جتنی مہربانیاں رقیبوں پر کی جا رہی ہیں اگر اس کی 10فیصد بھی ان پرکی ہوتیں تو پاکستان آج ایشیا کا ٹائیگر ہوتا۔ خدا کرے اس بار میاں نواز شریف کی بیماری ایسا ہی حسن اتفاق ہو کہ صحت پر سیاست اخلاقی کم ظرفی ہے تو دانشوری کج فہمی۔ اس سارے معاملے میں ایک بار پھر اتفاق کی صورت میں آسمانی فرشہ اپنے نورانی پر مولانا پر پھیلائے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف علاج کے لئے انگلستان چلے جائیں اور زرداری اپنے بچائو کی تدابیر میں الجھے ہوں گے اس صورت میں وزارت عظمیٰ کے لئے بیٹھنے کے لئے سر صرف مولانا کا ہی بچتا ہے۔ اب مولانا ایسے ناسمجھ توہیں نہیں کہ نواب زادہ نصراللہ مرحوم کی طرح کھیر پکا کر دوسروں کے آگے رکھ دیں۔ ہمارے ایک دوست نے کہا ہے کہ مولانا گیلی زمین پر پیر نہیں رکھتے اگلے ہی روز قدم راولپنڈی کی خشک زمین پر رنجا ہوئے اور جیسے تبدیلی کے جھکڑ کے آگے کسی نے بند باندھ دیا ہو۔ مالک قدرت قوم کو ناگہانی صدمے سے محفوظ رکھے۔ سابق وزیر اعظم باحفاظت جان کی امان پا کر باقی زندگی سیاست سے کنارہ کشی پر آمادہ بھی ہو جائیں تب بھی شہباز شریف کے لئے مولانا کے خوابوں کے جال کو توڑنا ممکن نہ ہو گا۔ اس راہ میں ابھی ان کو لمبی مسافت طے کرنا ہے۔ فیض احمد فیض نے کہا کہ اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار ان کے عشق کے بہت سے امتحان باقی ہیں۔ اقتدار کی منزل سامنے تو ہو گی مگر نیب کی زنجیر ان کو اور ان کے صاحبزادے کو آگے بڑھنے نہ دے گی آشیانہ سکیم،56کمپنیاں ایسے متعدد معاملات مولانا کو اسلام آباد راولپنڈی کی طرف اور سابق خادم اعلیٰ کو عدالتوں کی جانب دھکیلتے رہیں گے۔ یہ سچ ہے کہ وہ بارہواں کھلاڑی تو نہیں ہوں گے مگر اگلی باری نہ شہباز نہ زرداری مولانا اقتدار کے ہما کو لبھانے اور اپوزیشن کو دام میںلانے میں جتے ہوئے ہیں۔ باقی سیاست ہے یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مالک کل نواز شریف کو بیماری اور بلائوں سے محفوظ رکھے جان ہے تو جہاں ہے اقتدار کے چاہنے والوں کے لئے ہمیشہ تخت یا تختہ والا معاملہ رہا ہے مگر کیا کہئے کہ اقتدار اور اختیار کا معاملہ ہی ایسا ہے: جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں!