عالمی عدالت نے مبینہ بھارتی جاسوس کل بھوشن جادیو کو کونسلر رسائی نہ دینے کے معاملے میں پاکستان کی تنبیہ تو کی، مگر اسکی رہائی کی بھارتی درخواست مسترد کردی۔ بھارت میں ویسے تو حکومتی اور عوامی حلقوں میں یہ اعتراف ہے کہ جادیو پاکستان کے خلاف جاسوسی کرنے کا مرتکب ہوسکتا ہے ۔ علاو ہ ازیں اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ اور قومی میڈیا نے بھی جس طرح کا رویہ اختیار کیا، اس سے بھی ا س کے جاسوس ہونے اور تخریب کار ی میں معاونت دینے جیسے پاکستانی الزامات کو تقویت ملتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مارچ2016کو جس دن جادیو کی گرفتاری ، اسکا ویڈیو بیان‘ پاکستانی میڈیا مع اسکے پاسپورٹ دستاویز دکھا کر‘ نشر کر رہا تھا، میں نے اپنے نیوز روم میں تجویز دی تھی کہ ممبئی کے رپورٹروں کو پاسپورٹ پر درج ایڈرسوں پر جاکر تحقیق کرنی چاہئے۔ چونکہ میں ممبئی سے ہی شائع ہونے والے کثیر الاشاعت روزنامہ اورایک بڑے میڈیا گروپ میں چیف آف نیشنل بیورو کے طور پر کام کر رہا تھا، میں نے رپورٹروں کو کل بھوشن کے ممبئی اور پونا کے گھر جاکر انکی والدہ اور اہلیہ سے اصل صورت حال معلوم کرکے، کم سے کم اس اسٹوری کو انسانی نقطہ نظر سے نمایاں کرنے کیلئے کہا۔ مجھے بھی پاکستانی حکومت کے دعووں پر قطعی یقین نہیں تھا اور صحافتی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے صورت حال کی تہہ تک جانے کی سعی کر رہا تھا ۔ یہ بھی خدشہ تھا کہ حریف میڈیا گروپ کے رپورٹرز بھی ٹوہ میں ہونگے اور وہ بازی لے جائینگے۔ بتایا گیا کہ جس سوسائٹی میں جادیوکے افراد خانہ رہتے ہیں، وہاں سخت پہرہ ہے، اور کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کرائم رپورٹرز کو کہا کہ وہ یہ معاملہ دیکھیں، کیونکہ ان کی پولیس میں اچھی خاصی جان پہچان ہوتی ہے۔ اگر افراد خانہ سے ملنے نہیں دیا جاتا ہے تو کم از کم سوسائٹی میں دیگر افراد سے رابط کرکے جادیو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائیں، یا ایران سے بھارت جپسم درآمدکرنے والی اسکی کمپنی کے کوائف معلوم کئے جائیں۔ مہاراشٹرا پولیس سے پوچھا جائے کہ آخر کس طرح پونا سے مبارک حسین پٹیل نام سے پاسپورٹ کا اجراء ہوا اور کس پولیس آفیسر نے اسکی چھان بین کی۔ میں حیران تھاکہ دیگر میڈیا گروپ بھی اس اسٹوری کا فالو اپ نہیں کر رہے تھے۔ چند روز بعد مجھے بھی ہدایت دی گئی کہ اس اسٹوری کو اتناہی رپورٹ کرنا ہے جتنی معلومات فارن آفس اور حکومتی ادارے فراہم کر رہے ہیں اور اس میں زیادہ فعال بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال تمام کڑیا ں ملانے کے بعد بھارت کا یہ دعوی تو سچ لگ رہا ہے کہ جادیو کو پاکستانی سرحد کے اندر بلوچستان میں نہیں پکڑا گیا کیونکہ اس صورت حال میں اس کی تحویل میں بیک وقت دو پاسپورٹ نہیں ہوسکتے تھے۔ شاید اس کو گہرے سمندر میں اسلحہ سپلائی کرتے وقت یا ایران کے ساراواں قصبہ کے پاس حراست میں لیا گیا۔ جادیو کی کہانی جاسوسی ناولوں کے پلاٹ سے کچھ کم نہیں ہے۔ حکومتی گزٹ کے مطابق جادیو نے 1987ء میں بحریہ جوائن کی اور اسکا نمبر415582تھا۔ 13سال بعد وہ کمانڈر کے عہدہ پر فائز تھا۔ ان فائلوں میں اسکی ریٹائرمنٹ کا کوئی ریکارڈ موجودنہیں ہے۔ بھارتی وکیل نے بین الاقوامی عدالت کو بتایا کہ جادیو نے بحریہ سے ریٹائرمنٹ لیکر بزنس شروع کیا تھا۔ دنیا بھر میں کوئی بھی ملک حراست یا بھانڈا پھوڑنے کی صورت میں جاسوسوں کا دفاع نہیں کرتا ہے۔ پاکستانی جیلوں میں اسوقت 13بھارتی اور بھارتی جیلوں میں 30 پاکستانی، جاسوسی کے الزامات میں بند ہیں۔ آخر پھر بھارت جادیوکے معاملہ میں ہی اتنا تلملایا کیوں ہے؟اس کا واحد جواب شاید یہی ہے، کہ وہ حاضر سروس نیول کمانڈر ہے اور کسی اہم مشن میں مصروف تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ کے بعد بحریہ نے گجرات اور مہاراشٹرا کے ساحلوں کی حفاظت کیلئے نو یونٹوں کو تعینات کیا۔ دسمبر 2003ء میں جادیونے حسین مبارک پٹیل کے نام سے ایران کا دورہ کیا۔ اس پاسپورٹ میں اسکی رہائش مارتنڈ ہاوسنگ سوسائٹی ، پونا درج ہے۔ مگر اپارٹمنٹ کا نمبر غائب ہے۔ ایرانی خفیہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جادیو کی کمندا ٹریڈنگ کمپنی کے اکاونٹ میں پیسوں کا لین دین ہوا ہے۔ ابتدا میں یہ کمپنی چاہ بہار میں کشتیوں کے انجنوں کی مرمت کا کام کرتی تھی۔ بعد میں مارچ 2015ء میں اس نے ایران سے جپسم بھارت سپلائی کرنے کیلئے ایک سال کیلئے ایک کنٹریکٹ حاصل کیا۔ ایک سفارت کار کے مطابق تہران کی تفتیش میں پایا گیاہے کہ اس کمپنی کا بزنس نہایت ہی معمولی تھا، جس سے جادیو کا وہاں رہنے کا بھی خرچ مشکل سے پورا ہوسکتا تھا۔ ایران میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ کمندا کمپنی نے کسی بینک یا مالیاتی ادارے سے قرضہ لیا ہو۔ بھارت میں بھی ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ جادیو نے اپنے افراد خانہ کے نام ایران سے کوئی رقم منتقل کی ہو۔ اگر اس بزنس کا مقصد زر کا حصول نہیں ہے، تو یہ خود ہی شک کے دائرے میں آتا ہے۔ بھارت میںسکیورٹی معاملوں کے جانکار صحافی پروین سوامی کے مطابق بحریہ کے سربراہ ارون پرکاش نے اپنی مدت 2004ء اور 2006ء کے درمیان کئی بار چاہ بہار سے جاری اس آپریشن پر سوال اٹھائے ۔ وہ اس بات پر ناراض تھے کہ جادیو کا کام بحریہ کی انٹیلی جنس ونگ کیلئے محدود معلومات اکھٹا کرنی تھی، مگر دیگر خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو ( آئی بی) اور ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ (را) بڑی سطح پر اس سے کوئی اور کام بھی لے رہے تھے۔ بحریہ کے سربراہ کے اعتراضات کو اعلیٰ سطح پر خارج کیا گیا۔ اکتوبر 2015ء میں بھارتی خفیہ اداروں نے نومبر 2008ء کی طرز پر سمندری راستے ممبئی پر حملہ کی ایک کوشش کو ناکام بنانے کا دعویٰ کرکے دو پاکستانی شہریوں جمیل احمد اعوان اور عبدالمجید این کو گرفتار کیا۔ ان کے متعلق بتایا گیا کہ یہ دونوں سمندری راستے سے ممبئی وارد ہوگئے تھے۔ ان کی گرفتاری کا سہرا جادیو کی خفیہ اطلاع کے سر باندھا گیا۔ 2008ء میں ہوئے ممبئی حملوں کے بعد جادیو کے آپریشن کو وسیع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ گو کہ 2010ء میں ہی را کے پاکستان ڈیسک کے انچارج آنند ارون نے رپورٹ دی تھی کہ جادیو کے پاس کوئی ایسی معلومات نہیں ہے، جو را کے پاس پہلے سے ہی نہیں ہے۔ مگر اس کی رائے کو بھی درکنار کرتے ہوئے راکے سربراہان نے جادیو کی معاونت جاری رکھی۔ اس نے اپنے اقبالیہ بیان میں را کے دو افسران انیل کمار گپتا اور جوشی کے نام لئے ہیں، جن کو وہ رپورٹ کرتا تھا۔ (جاری ہے) 2014ء میں جادیو نے اپنے نام سے پاسپورٹ حاصل کیا، جس میں اسکا ایڈریس ممبئی کے نواح میں جاساندوادا کمپلکس دکھایا گیا۔ اس کمپلکس میں ایک فلیٹ اسکی والدہ کے نام درج ہے۔ چاہ بہار میں ہی جادیو نے کراچی کے وار لارڈ عزیر بلوچ کے ساتھ قربت اختیار کی۔ گو کہ پاکستان نے جادیو پر تحریب کاری میں ملوث ہونے کا بھی الزام لگایا ہے، مگر ملٹری کورٹ نے اسکو سزا صرف جاسوسی کے الزام میں دی ہے۔ بین الاقوامی عدالت میں پاکستان نے ایک مہر بند لفافہ بھی پیش کیا تھا ، جس میں بتایا جاتا ہے کہ 13بھارتی افسروں کے نام تھے، جنہوں نے جادیو کی معاونت کی تھی ۔ ان میں قومی سلامتی مشیر اجیت دوول اور سابق راء چیف آلوک جوشی کے نام بھی شامل ہیں۔ را کے ایک سابق افسر بی رمن نے 2002 ء میںاعتراف کیا تھا کہ خالصتان تحریک کی کمر توڑنے کیلئے 80کی دہائی میں ہی رانے ترکی بہ ترکی جواب دینے کیلئے دو یونٹ ،کونٹر اینٹلی جنس یونٹ۔ ایکس اور کونٹر اینٹلی جنس یونٹ۔ جے ترتیب دئے تھے۔ ان کا کام بھارت میں سکھوں کی طرف سے کسی بھی واقعہ کا جواب لاہور اور کراچی میں دینا تھا۔ ان دونوں یونٹوں کو بعد میں اندر کما ر گجرال نے وزیر اعظم بننے کے بعد تحلیل کیا۔ ممبئی حملوں کے بعد محدود پیمانے پر اور 2014ء میں مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑے پیمانے پر اس پالیسی کو دوبارہ عمل میں لانے کا کام شروع ہوا۔ لشکر طیبہ کے خالد بشیر کا قتل اور جیش کے اندر رسائی و بلوچ قوم پرستوں کی مبینہ سرپرستی و ہتھیاروں کی سپلائی وغیرہ کرنا اسکے اہم جز تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان جاسوسی اور جاسوسوں کو پکڑنے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنا ان ممالک کا وجود۔روئیندر کوشک نامی ایک جاسوس جو پاکستان فوج میں ایک افسر کے عہدے تک پہنچ چکا تھا، کے کارناموں پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔اسی طرح پاکستان میں بھی وہاں کے جاسوسوں پر ناولز لکھے جاچکے ہیں۔ ان کی حیثیت فوجی یا جنگی قیدی جیسی نہیں ہوتی ہے،مگر دنیا کی تمام خفیہ ایجنسیوں میں ایک غیر تحریری معاہدہ ہے کہ حالت امن میں ایک دوسرے کے ہاتھ آجانے والے پیشہ ور جاسوسوں کو مارنے کی بجائے واپس کر دیا جاتا ہے۔ 1960ء میں سویت یونین نے زیر حراست امریکی سی آئی اے پائلٹ گیری پاورز کے بدلے کے جی بی کے مشہور زمانہ جاسوس ویلیم جنریکھووچ فشر کو حاصل کیا۔ جادیوکی گرفتاری کے بعد دہلی میں یہ افواہ عام تھی کہ شاید اسکو بھارت میں زیر حراست پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک آفیسر لیفٹیننٹ کرنل محمد ظاہر کے بدلے رہا کیا جائیگا۔ ظاہر کو نیپال سے بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے اغوا کیا تھا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ دوران تفتیش ہی ٹارچر سے مبینہ طور پر ان کی موت ہوئی ہے۔ کل بھوشن کے پاس آخر دو پاسپورٹ کیوں تھے اس کی وضاحت دہلی میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر اکثر ماہرین اس بات پر بھی حیران ہیں کہ آخر پاکستان نے خفیہ عدالتی کارروائی کے ذریعے اسکو سزائے موت سنانے میں اتنی عجلت کیوں دکھائی؟ اسکے اعترافات اوربھارت کا یہ ماننا کہ وہ اسکا شہری ہے، کو لیکر پاکستان نئی دہلی کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرا سکتا تھا۔مگر جادیو کو کونسلر رسائی نہ دیکر اور ملٹری کورٹ میں خفیہ سماعت کرواکے پاکستان نے یہ نادر و نایاب موقع آخر کیوں گنوا دیا؟ کوئی بھی ذی ہوش صاحب اقتدار ایسے ملزم کی عدالتی کاروائی کو طول دیکر اسکو ایک پروپگنڈہ کے طور پر استعمال کرکے حریف کو ایک اعصابی جنگ میں شکست دے سکتا تھا۔ مگر اس اعصابی جنگ میں مودی حکومت نے جاسوسی اور تخریب کار ی کے الزامات سے پوری دنیا کی توجہ ہٹا کر، اسکو ایک انسانی حقوق کا معاملہ بنایا۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے قیدی کتنا ہی خطرناک کیوں نہ ہو، اسکے حقوق محفوظ ہوتے ہیں۔ اسلامی قوانین میں بھی قیدیوں کے حقوق واضع ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ممبئی حملوں کے ملزم اجمل عامر قصاب کو بھی سرسری اور خفیہ سماعت کے بعد موت کی سزا سنائی جاسکتی تھی۔ مگر سفارتی اور سیاسی محاذ پر اسکا بھر پور فائدہ اٹھانے کی غرض سے جان بوجھ کر ، اسکی سماعت کی کارروائی کو طول دیکر پروپیگنڈہ کا ایک ایسا ہتھیار بنایا گیا۔جس نے اپنا ہدف اتنی عمدگی سے حاصل کیا، جو ہزار توپیں استعمال کرکے یا کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔خیر بین الاقوامی عدالت نے جادیو کی ازنو سماعت اور اسکو لیگل کونسل فراہم کرنے کی جو ہدایت دی ہے، پاکستانی حکومت کو اسپر من و عن عمل کرنا چاہئے۔ پاکستانی وکلاء سے بھی گزار ش ہے کہ وہ جادیو کی پیروی کرنے سے انکار نہ کریں۔ پچھلی بار لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جس طرح اپنے ممبرا ن کو ہدایت تھی ،کہ وہ جادیو کے کیس کی پیروی نہ کریں، ایک صریح غلطی تھی۔ عالمی عدالت میںبھارت کے وکیل ہریش سالوے نے اسی نکتے کو اٹھایا۔ کسی بھی قیدی کو اپنے دفاع کا بھر پور حق حاصل ہے۔ عالمی عدالت کا فیصلہ بھارت کیلئے فی الحال ایک بہت بڑا ریلیف ہے۔ہیگ جانے سے قبل وزیر اعظم نریند ر مودی، اس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیر قانون روی شنکر پرساد، قومی سلامتی مشیر اجیت دووال اور دیگر افسران کے درمیان اس معاملے کو بین الاقوامی عدالت میں لیجانے پر خاصی بحث ہوئی تھی۔ کئی افسران نے دلائل دئے تھے کہ ماضی میں جب بھارت کسی بھی بین الاقوامی فورم میں پاکستان کے خلاف شکایت کرنے پہنچا ہے، تو الٹے روزے گلے پڑگئے ہیں۔چاہے کشمیر کے معاملے میں سکیورٹی کونسل میں فریاد لیکر جانا ہو،یا 1965میں رن آف کچھ ٹریبونل کا فیصلہ ہو،بھارت کو نقصان ہوا ہے۔ اندرون ذرائع کے مطابق مودی نے وزارت خارجہ کے افسران کو بتایا ، کہ’’ وہ دنیا کواب ایک نئے پر اعتماد زاویہ سے دیکھنے کی عادت ڈالیں، کیونکہ بھارت اب ایک طاقت بن چکا ہے، جس کو نظر انداز کرنا کسی کیلئے اب ناممکن ہے۔‘‘ حکومتی ذرائع کا کہنا تھا، کہ ہیگ جانا مودی کی ’’اسٹیٹس کو ‘‘ مخالف اور اسکی سرکش امیج کا حصہ تھا۔اب جبکہ قانون نے اپنا کام کر دکھایا ہے، سفارت کاروں اور سیاست دانوں کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی عدالت نے ایک طرح سے دونوں ممالک کو ایک نادر موقع فراہم کیا ہے، کہ ظرف کا مظاہر ہ کر کے بات چیت کے دروازے کھول کر بڑے پیچیدہ مسائل کے حل کی طرف سنجیدگی کے ساتھ گامزن ہوجائیں۔ افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد خطے میں بھارت کی تزویراتی پوزیشن کمزور ہوجائیگی۔ وزیر اعظم مودی بھارت کو 2024ء تک پانچ ٹریلین اکانومی بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ شورش اور اس خطہ میں عدم استحکام کی صورت میں یہ خواب ہی رہ جائیگا۔ بھارتی حکومت کے کارپروازوں کو بھی اب یہ احساس ہو گیا ہوگا، کہ پاکستان کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے کا دعویٰ کرنا تو آسان ہے، مگر عملاً کتنا مشکل ہے۔ اکتوبر میں فنانشل ٹاسک فورس میں پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی لابی کرنے اور اسپر بیش بہا پیسہ خرچ کرنے کے بجائے سفارت کاری کے دروازے کھول کر کشمیر اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک سنجیدہ لائحہ عمل وضع کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہیگ جاکر جس طرح مودی نے اپنی ’’اسٹیٹس کو ‘‘ مخالف امیج ظاہر کیا ہے، اسی طرح خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے مسائل کو بھی حل کرنے کیلئے اسی’’ سرکش امیج‘‘ کا مثبت استعمال کریں۔ شاید اس سے ان کے کل بھوشن کی جان بھی بچ جائے اور وہ واپس ممبئی اپنی فیملی کے پاس آسکے۔