کلثوم،کلثوم۔ اٹھوکلثوم اٹھو،آنکھیں کھولو کلثوم۔۔۔ باؤ جی، باؤ جی نیوز چینلز پر نواز شریف کی اپنی اہلیہ سے اسپتال میں آخری ملاقات اوران سے آخری مکالمہ۔۔باؤ جی ،،وہ خود کو کہہ رہے تھے،اندرون شہر کے کلچر میں خواتین باؤ جی اپنے شوہر کو اور کئی مائیں باؤاپنے بیٹے کو کہتی ہیں، نواز شریف اپنی بے ہوش اہلیہ کو ان کے سرہانے کھڑے ہوکر بار بار پکار رہے تھے، اگر وہ اپنے شوہر کی آوازیں سن بھی رہی ہونگی،تب بھی جواب دینا ان کے بس میں نہیں ہوگا،اس الوداعی ملاقات کو وہ لوگ زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جو اس عظیم سماجی کلچر کا حصہ رہے ہیں اور وہ جو ان سنہری روایات کے آج بھی امین ہیں، بیگم کلثوم نواز نے ہوش میں نہ ہونے کے باوجود اپنے شوہر کو خاموش الوداع ضرور کہا ہوگا، ایک آنسو ان کے دل میں بھی اترا ہوگا، شوہر کی درد میں ڈوبی آواز نے ان کی روح کو بھی لرزایا ہوگا، بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد سماج کا وہ صاف ستھرا چہرہ سامنے آیا جس کے بارے میں خیال کر لیا گیا تھا کہ وہ کہیں گہرائیوں میں دب چکا ہے، کتنا اچھا لگا یہ دیکھ کر ہمارے ہاں رشتوں کی اکائی ابھی موجود ہے، دکھوں کی سانجھ ابھی باقی ہے، موجودہ خود غرض سیاست نے ابھی تک ہماری اجتماعیت کو مکمل طور پر چاٹا نہیں ہے، ہم ابھی تک ایک دوسرے کی وفاؤں پر اعتبار کر سکتے ہیں،اعتماد کرسکتے ہیں پرویز مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت پر شب خون مارا اور انہیں زنجیروں میں جکڑا تو یوں لگا گویا نواز شریف کبھی وزیر اعظم رہے ہی نہیں،،وہ ایک عام آدمی کی طرح ہی بے بس اور بے کس نظر آئے، پورے ملک میں ان کیلئے ایک پتہ تک نہیں ہلا تھا، سیاست کے ایک طالبعلم کے طور پر یہ میرے لئے اذیت کا مقام تھا،کہیں سے ایک مزاحمتی آواز نہیں گونجی تھی، اس سکوت مرگ پر لوگ اپنی اپنی تاویلیں پیش کر رہے تھے، انہی بے ثمر دنوں میں مجھے ایک خاتون کا فون آیا، وہ کہہ رہی تھیں کہ آپ اپنی میڈیا ٹیم دو بجے دن مسجد شہداء کے باہر بھجوائیں، ہم نے نواز شریف کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کرنا ہے، میں بہت پر جوش ہوا، ایک بڑی کوریج ٹیم مال روڈ پر بھجوانے کے بعد سوچا کہ مجھے بھی ن لیگ کے احتجاج کو دیکھنے کیلئے وہاں جانا چاہئے، تین بج گئے مسجد کے باہر کوئی نہ آیا، میں نے فون کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا، اب ان کا کہنا تھا ،، آپ لوگ راجہ صاحب کے سامنے آ جائیں ہم آرہی ہیں، راجہ صاحب کی دکان کے باہر بھی ایک گھنٹہ گزر گیا، پھر ایک ٹیکسی ہمارے قریب آکر رکی، اندر سے چار عورتیں برآمدہوتی ہیں، ایک اپنی چادر کے اندر سے ن لیگ کا جھنڈا نکالتی ہے، اسے ہمارے سامنے لہرایا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ عورتیں اسی ٹیکسی میں بیٹھ کرواپس چلی جاتی ہیں۔۔ اس عالم میں ،اس خاموشی میں، ایک دن بیگم کلثوم نواز گھر سے نکلتی ہیں، پرویز مشرف کو للکارتی ہیں، فسطائی حکومت کو خوفزدہ کر دیتی ہیں، ان کی کار کو ٹریفک پولیس کے لفٹر سے اٹھا لیا جاتا ہے، بیگم صاحبہ گاڑی کو اندر سے لاک کر لیتی ہیں اورگاڑی سے باہر نکلنے سے انکار کر دیتی ہیں،، یہ تھی پہلی مزاحمت ،ایک کامیاب مزاحمت جس نے مردہ مسلم لیگ میں بیداری اور زندگی کی لہر پیدا کردی، بیگم کلثوم کے اس ایکٹ کو پوری دنیا کے پریس میں پذیرائی ملی، نواز شریف کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں سزائے موت سنادی گئی، انہیں ساتھیوں سمیت اٹک جیل میں پہنچا دیا گیا، اب نواز شریف اکیلے نہیں تھے، ان کی غیر سیاسی اہلیہ نے پوری قوت سے پارٹی کی قیادت سنبھال لی تھی، عدالتوں کے دروازے پر بھی دستک دیدی گئی تھی، بیگم کلثوم سیاسی میدان میں پوری طرح متحرک ہو چکی تھیں، پیپلز پارٹی سمیت ساری اپوزیشن کو اپنے ساتھ ملا چکی تھیں، بیگم کلثوم نواز ایک آواز بن چکی تھیں، اگر وہ یہ کردار ادا نہ کرتیں تو نہ مسلم لیگ رہتی اور نہ سیاست میں نواز شریف کا نام باقی رہتا، یہ الگ بات کہ نواز شریف جیل میں رہ کر جنگ لڑتے انہوں نے مصالحت کا راستہ چنا اور سمجھوتہ کرکے پورے خاندان سمیت پاکستان سے ہجرت کر گئے، اس کے بعد بینظیر شہید کی سیاسی بصیرت کے باعث نواز شریف کی واپسی ہوئی، بیگم کلثوم پھر دو بارہ اس ملک کی خاتون اول بنیں، لیکن انہوں نے اپنے لئے سیاست کا راستہ نہ چنا، کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں شریک نہ ہوئیں، رستم زمان گاما پہلوان کی نواسی جو کلثوم نواز بننے سے پہلے کلثوم بٹ تھیں، انہیں شعر و ادب سے بہت شغف تھا، بڑے بڑے لکھاریوں اور شعراء کرام سے ان کا رابطہ رہتا تھا، بہت کم لوگ یہ جانتے ہونگے کہ وہ صاحب کتاب بھی تھیں، انہوں نے ایک خاتون ہونے کے ناطے اپنی خاندانی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیں، محبت، شفقت اور احساس کا پیکر یہ خاتون نواز شریف کی اہلیہ نہ ہوتیں تو میں سمجھتا ہوں نواز شریف شاید اتنی جیل بھی نہ برداشت کر پاتے جتنی تھوڑی سی وہ اب تک کاٹ چکے ہیں، وہ نواز شریف کے لئے ایک مکمل طاقت کا احساس تھیں، سیاسی طاقت کا احساس، وہ مہربان خاتون ایک مثالی بیوی تھیں۔۔ نواز شریف جیل میں بیگم صاحبہ کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی ٹوٹ گئے، اس بات کی گواہی ان کی پیرول پر رہائی کے بعد کی وہ دو تصویریں ہیں جو میں نے اخباروں میں دیکھیں ، سیاست سے دوردور رہنے والی اس عظیم عورت بیگم کلثوم نواز کو بے شک سیاست کی زہریلی دیوی چاٹ گئی، یہ سیاست ہی تو تھی جس نے زندگی کے آخری ایام میں ان کے شوہر اور بیٹی کو ان سے دور کر دیا، میرا فہم، میرا وجدان،میرا احساس یہ ماننے کو تیار نہیں کہ انہیں پتہ نہیں ہوگا کہ ان کے سر کاتاج بیٹی اور داماد سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں،وہ کوئی عام ماں تھیں نہ کوئی عام بیوی، انہوں نے موت سے جنگ کرتے ہوئے بھی جیل کی سلاخوں کوتوڑنے کی سعی کی ہوگی ، اپنے باؤ جی کو جیل سے واپس لانے کی کوشش ضرورکی ہوگی، وہ اقتدار اور سیاست کی بے رحمیوں کو بھی جانتی تھیں، آخری سانس تک سوچا تو ہوگا،، باؤ جی تمہاری سیاست میری محبت پر حاوی کیوں ہوگئی، باؤ جی، سیاست کو کچھ دیر کیلئے میرے لئے ہی چھوڑ دیا ہوتا، تم نے مجھ بیمار کو سیاست کیلئے کیوں اکیلا چھوڑ دیا؟،،،،اس کہانی میں محبت جیتی، سیاست نہیں، تین بار ملک کی خاتون اول بننے والی کلثوم نواز کی میت لاہور پہنچ چکی ہے،آ ج انہیں جاتی عمرہ میں سپرد خاک کردیا جائے گا،۔آنے والے دنوںمیں جلد یا بدیر ، نواز شریف اور مریم نواز کی سزائیں معطل یا ختم ہو سکتی ہیں لیکن سیاست کی وہ کہانی جو اب شروع ہوئی ہے اس کا اختتام جلد نہیں ہوگا، آج سے ایک اور کہانی جنم لے رہی ہے، جس کا ایک کردار کلثوم نواز ہوں گی، اور اس کردار کا سوال ہوگا۔۔۔۔ سیاست محبتوں اور رشتوں کو کیوں نگل لیتی ہے؟ دعا ہے اللہ نواز شریف صاحب کویہ بڑا صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطاء فرمائے، مرحومہ بیگم کلثوم نواز کی راہنمائی بیشک انہیں ہمیشہ میسر رہے گی، وہ میدان سیاست میں پوری الولعزمی کے ساتھ موجود رہیں، قوم اور ملک کیلئے جو ابتک نہیں کر سکے وہ کریں۔۔ وہ یہ بھی یاد رکھیں۔۔ عدلیہ پہلی بار فعال نہیں ہوئی۔۔۔