نگران حکومت نے میاں نواز شریف کے مقدمہ کی سماعت اڈیالہ جیل کے بجائے جوڈیشل کمپلیکس میں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا‘ اچھا کیا۔ سکیورٹی کا مسئلہ اگرچہ رہے گا اور حکومت کو میاں نواز شریف کی آمدورفت کے دوران خصوصی حفاظتی انتظامات کرنے پڑیں گے‘ جس کا بوجھ قومی خزانے پر پڑیگا ‘لیکن کوئی بات نہیں‘ قومی خزانہ ہے ہی اہم شخصیات پر لٹانے کے لیے ۔اقتدار میں ہوں تو پروٹوکول کا خرچہ اور اپوزیشن میں ہوں یا سنگین مقدمات میں ملوث ‘مہنگی سکیورٹی کا انتظام ریاست کے ذمے ۔ میاں نواز شریف کو کھلی عدالت سے زیادہ دلچسپی اڈیالہ جیل سے عدالت تک قیمتی گاڑیوں کے قافلے اور ان کے حق میں نعرے لگانے والے متوالوں کی ٹولیوں سے ہے۔ بادشاہ اقتدار کے ایوان میں ہو یا آگرہ کے زندان میں‘ خواہش اس کی یہی ہوتی ہے کہ ہر جگہ شاہی تام جھام قائم رہے۔ شاہجہاں نے نظر بندی کے دوران بچوں کو پڑھانے کی خواہش ظاہر کی ‘ اورنگزیب عالمگیر نے تبصرہ کیا کہ بڑے میاں کے دماغ سے حکمرانی کا کیڑاابھی نکلا نہیں ‘اتفاق سے مریم بی بی نے بچوں کو پڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ ؎ سرخسرو سے ناز کج کلا ہی چھن بھی جاتا ہے کلاہ خسروی سے بوئے سلطانی نہیں جاتی ان کا خیال ہو گا کہ وہ میڈیا سے رابطوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور دوران آمدورفت گاڑیوں کی لمبی قطاردیکھ کر ووٹر اور سپورٹر دونوں متاثر ہوں گے۔ جس قوم کو ستر سال تک ان پڑھ رکھا گیا‘ اسے کیا معلوم کہ ہوٹر بجاتی گاڑیوں کی طویل قطار پروٹوکول کے لیے ہے یا حفاظتی انتظامات کا حصہ۔ حکمرانوں میں حس مزاح ہوتی تو نہیں لیکن پنجاب حکومت کے وزیر سردار تنویر الیاس نے سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے شکائتی خط کا جو جواب دیا وہ مزے کا تھا‘ کہا کہ بڑے میاں صاحب کو جیل میں وہی سہولتیں ہم دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں جو سابق حکومت کے دور میںبی کلاس قیدیوں کے لیے مختص تھیں۔ جواور جیسے کمرے‘ واش روم وغیرہ سابق حکومت نے بنائے وہ میاں صاحب کے لیے حاضر ہیں نئے کمرے اور صاف ستھرے واش روم تعمیر کرنا ہمارے بس میں نہیں۔1999ء میں شریف خاندان نے اس طرح کا رونا رو کر اپنے کارکنوں اور عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں سمیٹی تھیں مگر فرق یہ ہے کہ تب وہ طیارہ ہائی جیکنگ کے کیس میں ملوث تھے جسے لوگ پرویز مشرف کی انتقامی کارروائی کہتے تھے۔ اب ان پر الزام قومی دولت سے بیرون ملک محلات بنانے اور عدالت کے پوچھنے پر ثبوت نہ فراہم کرنے کا ہے اور مدمقابل کوئی فوجی آمر نہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانوں اور بچوں کی قربانیاں دینے والی فوج کی نیک نام قیادت ‘ فعال عدلیہ اور سیاسی سطح پر عمران خان ہے جس کے دامن پر ابھی تک کرپشن کا داغ نہیں۔ البتہ جن اہل قلم وکیمرہ کا رزق شریف خاندان سے وابستہ ہے وہ یقینا ہمدردی اور مظلومیت کی لہراٹھانے کے درپے ضرور ہوں گے اور انہیں ہونا چاہیے کہ منہ کھائے آنکھ شرمائے۔ دنیا بھر میں ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ سیاسی قیادت کو اپنے بچپن ‘ جوانی اور سیاسی زندگی میں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے اس ہڈ بیتی کو جگ بیتی سمجھ کر ان کا زالہ کرنے کے لیے کمر کس لی۔ نیلسن منڈیلا گوروں کے انتقام کا نشانہ بنا تو اس نے اقتدار ملتے ہی انتقام کی سیاست کا خاتمہ کیا مگر ہمارے ہاں اہل اقتدار نے معاشرے کی محرومیوں‘ مصائب و مشکلات کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کر کے خوئے انتقام کی تسکین کی۔ آصف علی زرداری برسوں قید رہے مگر مجال ہے کہ 2008ء سے 2013ء کے عرصہ اقتدار میں پورے ملک اور 2008ء سے 2018ء تک سندھ کی کسی جیل کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دی ہو‘ قیدیوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی پالیسی بنائی اور عوام کو باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کا اہتمام کیا ہو ‘کہ کوئی شخص جرائم کی طرف راغب ہو نہ داخل زنداں۔الٹا لوٹ مار کے کلچر کو فروغ دیا اور قومی خزانہ بے دردی سے لٹایا۔ بھٹو صاحب کی یادگار سٹیل ملز کا جو حشر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر کیا وہ مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ کل کے کنگلے ارب پتی بن گئے اور عوام کی طرح قومی ادارے کنگال۔ میاں نواز شریف کے دور میں قرضوں کی معیشت سے مصنوعی استحکام آیا جبکہ چند شعبوں میں بہتری کا اعتراف بھی کرنا چاہیے لیکن پرویز مشرف دور کے ابتلا سے سبق انہوں نے بھی نہ سیکھا۔ جس اڈیالہ جیل میں سہولتوں کے فقدان کا رونا میاں شہباز شریف اور سینیٹر پرویز رشید رو رہے ہیں وہ 31مئی کے بعد تعمیر ہوئی ہے نہ اس کے کمروں اور واش روم کو محض شریف خاندان کو اذیت پہنچانے کے لیے بدبودار اور ناقابل استعمال نگران حکومت نے بنایا ہے۔ اگر کل کلاں کو حکومت کسی غریب شہری کے گھروندے کو جیل قرار دے کر باپ بیٹی اور داماد کو منتقل کر ے تو انہیں پتہ چلے کہ جن عوام کے ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ گزشتہ چند ماہ سے بلند ہو رہا ہے وہ بے چارے کس طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے تو تیس سالہ عرصہ اقتدار میں کبھی دیکھنا درکنار ‘سوچا بھی نہ ہو گا کہ ان کے محروم و بے کس ووٹر بوڑھے ماں باپ‘ بیوی اور چار پانچ بچوں کے ساتھ ایک کمرے کی کٹیا میں کیسے رہتے ہیں؟ جس کے ایک کونے میں بھیڑ بکری بندھی ہوتی ہے۔دوسرے کونے میں گوبر کے اُپلوں اور لکڑیوں سے چولہا جلتا اور دھوئیں سے دم گھٹتا ہے۔ بی کلاس کے جس واش روم کی بدبو انہیں سونے نہیں دیتی یہ بھی کم و بیش اٹھارہ کروڑ آبادی کو میسر نہیں۔ لاہور شہر میں لاکھوں افراد فوم کے گدے پر سونے کا تصوّر نہیں کرتے۔ لیکن یہی بدحال عوام ووٹ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو دیتے اور ان کے چھوٹے بڑے لیڈروں کے غیر ملکی محلات‘ بنک اکائونٹس‘ مہنگی گاڑیوں اور کروڑوں روپے مالیت کی گھڑیوںو جیولری کے گن گاتے‘حق میں دلائل تراشتے اور مخالفین سے لڑنے بھڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ عوام توخیر کسی سہولت کے قابل ہی نہ تھے‘ سنگدل حکمران اشرافیہ نے اس ملک کو اپنے اور اپنے بچوں کے رہنے کے قابل بھی نہ رہنے دیا۔ کسی نے یہ سوچنا بھی گوارا نہ کیا کہ ایوان اقتدار چھوڑنے کے بعد انہیں کبھی ان گلیوں بازاروں میں گھومنا پھرنا پڑے گا جہاں لوگ جینے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ یہ تو حاشیہ خیال میں نہ تھا کہ امتدادزمانہ کے ہاتھوں انہی جیلوں اور حوالاتوں میں دن رات بتانے پڑ سکتے ہیں۔ یہ سوچتے تو جیلوں کو اس قابل بناتے کہ آدمی سکون سے سزا کی مدت پوری کر سکے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور بیورو کریٹس نے اس ملک کے ساتھ وہ سلوک کیا جو بُرا کرایہ دار رہائشی مکان کے ساتھ کرتا ہے قیمتی چیزیں چرانے تک محدود نہیںرہتا ‘توڑ پھوڑ سے نقصان پہنچاتا اور خوش ہوتا ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ کئی عشروں سے پاکستان کے اقتدار اور وسائل پر قابض خاندانوں کے مردوزن کو زکام بھی ہو تو علاج کے لیے بیرون ملک دوڑتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ جن ہسپتالوں کو وہ اپنی پروپیگنڈا مہم میں سٹیٹ آف دی آرٹ بتاتے ہیں وہاں ان کا علاج ممکن نہیں۔ اس دوعملی اور عوام دشمن سوچ نے معاشرے کو بے حسی کے جہنم میں تبدیل کر دیا ہے اور لوگ تین بار وزیر اعظم رہنے والے مقبول لیڈر کی گرفتاری اور اسیری پر خاموش ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بار خلافت اٹھاتے وقت حضرت عمر ؓ کے مشورے پر اپنا ماہانہ مشاہرہ مدینہ منورہ کے عام مزدور کے برابر مقرر کیا ‘دوران حکومت انہیں یہ احساس ہوتا رہے کہ عام شہری کی گزر بسر کس طرح ہو رہی ہے‘ لیکن یہاں بی کلاس ملنے پر بھی بادشاہ سلامت اور ان کے حواری شکوہ کناں ہیں جیسے سی کلاس میں رہنے والے انسان ہیں نہ کسی انسانی سہولت کے قابل۔ ع بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لیے کامریڈ پرویز رشید جب شکوہ کرتے ہیں تو آدمی پریشان ہو جاتا ہے کہ کیا ان کی زندگی بھر کی سیاسی جدوجہد مخصوص اشرافیہ کی شاہانہ مراعات میں اضافے اور آسودگی کے لیے تھی یا عام پاکستانی بھی کبھی ان کے حاشیہ خیال میں تھا۔؟