آج پھر بارش ہوئی، آسمانوں سے بر ف کے گالے اترے، پہاڑوں نے سفید احرام پہنے اور بسنت کوٹ کے صوفی کی یادیں عودبن کر آئیں۔مدت سے دارالحکومت کا نام ملنے کے باوجود اس کی بدحالی تب بھی ایسی تھی جیسی پون صدی گزرنے کے باوجود آج ہے۔جس صبح کا ذکرہے،وہ برسوں بعد اب بھی پوری طرح یاد ہے۔ ابھی فجرکی اذانیں نہیں ہوئی تھیں .بے دلی کے ساتھ دروازہ کھولا تو سامنے’’ صوفی صاحِب‘‘ کھڑے تھے ،.میں نے آنکھیں ملتے ہوئے سلام کیا،انہوں نے سرجھکا رکھا تھا"وعلیکم السلام"کہتے ہوئے ان کی آواز لرز گئی تھی۔’’خیریت‘‘؟میں نے پوچھا۔آنسوئون کی لڑی ان کی آنکھوں سے اتری اور ڈاڑھی میں جذب ہونے لگی۔میں نے ان کا بازو تھاما اوراندر لا بٹھایا۔’’حضرت‘‘ وہ بولے’(حضرت ان کا تکیہ کلام تھا) رات کو میرے ابا جی فوت ہو گئے ‘‘یہاں تک کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔میں نے سہارا دیتے ہوئے پوچھا ’’آپ نے رات کو بتایا کیوں نہیں؟‘‘کہنے لگے’’آپ تھکے ہوئے تھے،عشاء کی نماز کے بعد ان کی وفات ہوئی۔ہم نے ان کی میت کمرے میں رکھ دی،بچوں سے کہا اونچی آواز میں رونا نہیں ،ہمسائے ڈسٹرب ہوں گے،میرے گھر میں فون کی سہولت نہیں ہے،اب آپ کوزحمت دینے آیا ہوں کچھ عزیزیوں کو فون کر کے بتاناہے۔‘‘میں نے فون ان کی طرف بڑھا دیا۔میری آواز ساتھ چھوڑ چکی تھی،گلہ رندھ گیا۔’’صوفی جی‘‘ کا اصل نام ابو یاسر علی اکبر قیصر کاشمیری تھا۔اتنے طویل نام کو ہم چند دوستوں نے مختصرکرکے ’’صوفی صاحب‘‘رکھ دیا تھا جسے سن کر وہ اکثر محظوظ ہوتے اور بس اتنا کہتے ’’حضرت آپ کی مرضی‘‘اور پھر کھلکھلاکر ہنس پڑتے۔بنیادی طور پر وہ اعلٰی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی گہری دسترس رکھتے تھے۔آزادجموں کشمیریونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ہی شعبہ اسلامیات سے وابستہ ہو گئے۔اسی ناطے یونیورسٹی کی مسجد کے امام وخطیب بھی مقرر کر دیے گئے۔جس صبح کا ذکر ہو رہا ہے.اس روز بھی انہوں نے انتہا کردی تھی،کہنے لگے "ابا جی عشاء کی نماز کے بعد فوت ہوگئے.میری دنیا ویران ہو چکی تھی.اردگرد لوگوں کے آرام کا خیال کر کے کمرہ اندر سے بند کر دیا۔دو چار لمحے ایسے آئے کہ میری گھٹی گھٹی سسکیاں چیخ بن گئیں ِمیں نے بیگم سے کہا ’’اگر اب ایسا ہو تو میرے منہ میں کپڑاٹھونس دینا"وہ بتا رہے تھے اور میرے گلے میں آوازپھنس گئی تھی۔مجھے یاد آیاکچھ روز پہلے وہ اپنے گاؤں بسنت کوٹ گئے تھے اور واپسی پر حسب معمول اخروٹ لے آئے تھے.بسنت کوٹ کے اخروٹ ذائقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔نماز ظہر کی امامت کے بعد جلدی سے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی جانب چل پڑے نامکمل گھر کے صحن میں ان کے ابا جی دھوپ میں لیٹے تھے جاتے ہی ان کو جپھی ڈال دی،کھانا ابا جی کے سامنے رکھا اور چھوٹے چھوٹے نوالے بنا کر ان کے منہ میں ڈالنے لگے.ابا جی نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے"علی اکبر! اللہ تجھے خوش رکھے پہلے قمر صاحِب کو کھلاؤ"یہ سنتے ہی میری طرف پلٹے اور نوالہ میرے منہ میں ڈال دیا میری ہنسی نکل گئی,کہنے لگے"حضرت ابا جی کا حکم ہے"آج ان کے ابا جی اس دنیا میں نہیں تھے ان پر کیا گزر رہی تھی. اس کا احساس مجھے اندر سے کاٹ رہا تھا۔یہ 1988کا واقعہ ہے اس کے بعد مجھے نہیں یاد کہ دسمبر آیا ہو اوربسنت کوٹ کے اخروٹ صوفی جی کی یا د کے ساتھ نہ آئے ہوں۔نوے کی دہائی میں،میں مظفرآباد چھوڑ کر راولپنڈی آگیا۔ ان کی دلبری ویسی ہی رہی۔اب کے پھر سرماآیا تو میں ان کی یاد میں کھو گیا۔میری ذہن میںیادوں کی ایک فلم چلنے لگی۔مظفرآباد یونیورسٹی کی مسجد اب تو ایک بڑی مسجد ہے۔زلزلے کی تباہ کاریوں سے ہر چیز ملیا میٹ ہو کر رہ گئی۔تب اس چھوٹی مسجد کی جگہ اب ترک بھائیوںنے ایک شاندار مسجد بنا دی ہے۔پرانی مسجدکے ساتھ صوفی جی کی ایک کمرے پر مشتمل رہائش تھی۔ صوفی جی جمعرات کواپنے گائوں بسنت کوٹ چلے جاتے تھے،جمعے کو چھٹی ہوتی تھی۔صوفی جی امامت کے فرائض صفور بھائی کو سونپ جاتے۔ایک روز دونوں میں کسی مسئلے پر ان بن ہو گئی۔نماز ظہر پڑھا کر انہیں بہرصورت گائوں جانا تھا۔فرض ادا کرکے وہ اٹھے،تب میں نفل شروع کر چکا تھا ۔صوفی جی کے گائوں جانے والی گاڑی نکلنے والی تھی،وہ تیزی سے میرے قریب آئے اور میرے کان میںکہا’’حضرت میں جا رہا ہوں نمازیں پڑھا دینا‘‘نماز کے دوران میری ہنسی نکل گئی۔نماز کے بعد پچھلی صف سے صفور بھائی کی آواز آئی ’’امام دسے‘‘یہ ٖصفور کا تکیہ کلام تھا جیسے ناراض دسے،ہن روٹی دسے۔پھر کہنے لگے’’ جاتے ہو ئے میرے کان میں بھی یہی کہہ گئے ہیں‘‘۔صلح جو صوفی صاحب مظفرآباد کی سب مساجد میں جاتے،علماء سے گہری دوستی رکھتے۔خود علم کاسمندر تھے لیکن اکثر کوئی نہ کوئی مسئلہ کسی عالم دین سے پوچھ لیتے۔ایک بار رفع الیدین کا مسئلہ زیر بحث تھا ۔ان سے ایک طالب علم نے پوچھا تو کہنے لگے’’حضرت میرے ساتھ چلیں مولانا یونس اثریؒ’(امیر اہلحدیث ) سے پوچھتے ہیں‘‘ہم نے کہا وہ تو بتا ہی دیں گے،آپ جان بوجھ کر کیوں ٹرخا رہے ہیں‘‘کہنے لگے ’’میں فروعی معاملات پر زیادہ علم نہیں رکھتا‘‘۔ ایک جی دار محبت کرنے والا’’صوفی‘‘جس کے جانے کے بعد یاد آیا کہ یہ دنیا ان جیسے دلبروں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ اب کے دو سال ہوئے ،صوفی اپنے رب کی جنتوں میں چلے گئے۔ان کو یاد رکھنے والے ،یاد کرنے والے بہت سے ہیں۔وہ ہزاروں کی دعائوں میں بسے رہتے ہیں۔یہ وہ دور تھا جب مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں نوجوان اٹھارہ ہزار بلند برف پوش پہاڑوں کو عبور کر کے آزاد کشمیرہجرت کر رہے تھے۔اللہ نے ہمیں ان کی خدمت کاموقع دیا تھا۔زخمی،بیمار اور بے بس یہ نوجوان اپنے بیس کیمپ آزادی کی تلاش میں آئے تھے۔صوفی جی ان پر دل وجان سے نثار ہوتے۔ان کی رہائش گاہوں میں جاتے،ان سے گپ شپ کرتے ،ان کی تکلیفوں کا مداواکرتے۔ایک روز میں نے پوچھا ’’صوفی جی!کیا کشمیر آزاد ہو جائے گا‘‘کہنے لگے’’حضرت!اگر اب بھی یہ قربانیاں رائیگاں چلی گئیں تو پھر صدیوں تک ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے،ہمارے سامنے خون کا دریا ہے اور پیچھے کھائی ہے۔اس کھائی کے پیچھے سازشوں کا جال ہے۔یہودی بھارت کے پیچھے ہیں اور وہ کبھی نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کے علاقے آزاد ہوں‘‘۔آج صوفی یاد آیا ،بے انتہا یاد آیا۔ہم جہاں سے چلے تھے وہاں پھرآن کھڑے ہوئے ہیں۔سامنے خون کا دریا اور پیچھے کھائی ہے۔