آپ نے بندر بانٹ کا محاورہ ہزاروں بار سنا ہوگا، ہزاروں بار خود بھی استعمال کیا ہوگا لیکن شاید آپ نے اس محاورے کے پیچھے کہانی کیا ہے وہ کبھی نہ سنی ہو،آج یہ کہانی ہم دوہرا دیتے ہیں تاکہ پاکستان کی ہمیشہ سے قائم سیاست کو سمجھنے میں آپ کو کوئی کوفت نہ ہو، کہانی سنانے سے پہلے ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا میں جتنے بھی انسان، چرند پرند اور درندے ہیں بندر واحد جانور ہے جس کے دو دماغ ہوتے ہیں، ملائشیا ، سنگا پوراور انڈونیشیا میں بندروں کے دماغ کا سالن مقبول ترین اور مرغن ترین غذا ہے، ان ممالک کے ہوٹلوں میں اسے لگژری خوراک تصور کیا جاتا ہے۔ ایک جنگل میں دو بلیاں رہتی تھیں ، دونوں گہری سہیلیاں تھیں اور ایک دوسری پر جان چھڑکتی تھیں،ایک ساتھ چوہوں کا شکار کرتیں اور ساتھ بیٹھ کر انہیں کھاتیں، ایک بار اس جنگل سے انسانوں کے کسی قافلے کا گزر ہوا، کھانے کا وقت ہوا تو اس انسانی قافلے نے جنگل میں ہی دستر خوان سجا لیا، جب سب خوب سیر ہوگئے تو دسترخوان لپٹتے ہوئے انہوں نے دیکھا کہ ایک روٹی بچ گئی ہے، ایک مسافر نے کہا کہ اس روٹی کو یہیں چھوڑ جاتے ہیں، پرندے کھا لیں گے، قافلہ پھر آگے بڑھ گیا، اس سے پہلے کہ اس روٹی کو کھانے کے لئے پرندے جمع ہوتے ان دو بلیوں نے روٹی دیکھ لی، روٹی ایک تھی اور بلیاں دو، دونوں نے پہلے کبھی روٹی کا ذائقہ نہیں چکھا تھا، اور دونوں اس روٹی کو مل بانٹ کر کھانے کی بجائے اکیلے کھانا چاہتی تھیں، اس پر دونوں کے مابین،، توں توں، میں میں،، شروع ہوگئی اسی تکرار کے دوران وہاں ایک بندر پہنچ گیا، اس نے بلیوں سے جھگڑے کی وجہ دریافت کی اور پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد فیصلہ دیا کہ دونوں بلیاں آدھی آدھی روٹی کھائیں گی اور روٹی کے دو حصے میں(بندر) کروں گا، بندر نے جب روٹی آدھی آدھی کی تو ایک حصہ بڑا اور دوسرا چھوٹا رہ گیا، جس بلی کو چھوٹا رہ جانے والا ٹکڑا ملا اس نے اعتراض اٹھا دیا، بندر نے دوسری بلی سے بڑے والا حصہ لیا اور اس کا ایک لقمہ اپنے منہ میں ڈال لیا، پھر دیکھا گیا کہ اب چھوٹے والا ٹکڑا بڑا ہو گیا ہے، پس پھر کیا تھادونوں ٹکڑے برابر برابر کرتے ہوئے بندر پوری روٹی خود کھا گیا اور دونوں بلیاں ایک دوسری کا منہ دیکھتی رہ گئیں۔۔۔۔۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی حکومت( ناکام ترین ہی سہی) قائم ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے مابین بندر بانٹ میں خاصی حد تک کمی واقع ہوئی، حکومت اپوزیشن کا وجود ہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور کہتی ہے کہ ماضی میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں بندر بانٹ کرتی رہی ہیں، ہم کیسے تصور کرلیں کہ اہم قومی ایشور پر دونوں میں آسانی سے اتفاق رائے ہو جائے گا، موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین تعلقات کار میں بہتری ایک خواب ہے۔میں تو ڈرتا ہوں کہیں پارلیمان کی اہمیت اس کی عزت اور وقار کہیں ہمیشہ کے لئے ہی گم نہ ہوجائے۔ ٭٭٭٭٭ چار دن پہلے ایک خبر کے بہت چرچے ہوئے، سیالکوٹ کے ایک گاؤں کی بڑھیا نے اپنے جواں سال بیٹے عظیم کے قاتل کو اپنے ہاتھوں گولی مار کر بدلہ لے لیا، سات سال پہلے اس کے بیٹے کو قتل کرنے والے مبینہ مجرم تیس سالہ نعمان افضل کوڈو کو سیشن کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی، ہائی کورٹ نے اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے اسے باعزت بری کر دیا، یقینا اس کیس اور سزا میں کچھ ایسے قانونی سقم موجود ہوں گے جن کی بنیاد پر بریت ہوئی، بڑھیا نے جب مبینہ قاتل کے رہا ہونے کی اطلاع سنی تو اسی لمحے اس نے اپنے پاؤں کی جوتی اتار دی اور قسم کھائی کہ اب جوتی اس وقت پہنوں کی جب بیٹے کے قتل کا بدلہ خود لے لوں گی، یہ ایک ماں کا فیصلہ تھا اور ماؤں کے فیصلے ہمیشہ اٹل ہوتے ہیں، مائیں عدالتیں نہیں ہوتیں جہاں سے شک کا فائدہ حاصل کیا جاسکے، بیٹے کے قاتل کو گولی مارنے والی بڑھیا کے بارے میں متضاد خبریں سامنے آئی ہیں ایک خبر اس کے مفرور ہونے کی اور دوسری اس کے گرفتار ہوجانے کی ہے، میرے خیال میں دوسری اطلاع درست ہوگی،، کئی دن تک ننگے پاؤں ،، مجرم،، کا انتظار کرنے والی بوڑھی ماں پولیس کی ہتھکڑیوں سے خوفزدہ نہیں ہو سکتی، اس کے خلاف 302 لگ چکی ہے اب اس کی باقی ماندہ زندگی پولیس ، عدالت اور جیل کے رحم و کرم پر ہوگی، میں سمجھتا ہوں کہ قانون کو یقینا اس کیس میں اپنے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ یہاں چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ کا بھی مداخلت کرنا لازم سمجھتا ہوں، ہائی کورٹ نے ایک ماں کے ،، مجرم،، کو بری کرنے کا جو حکم دیا ہے اس پر ریویو ہونا چاہئیے، اگر اعلی عدالت نے بریت کا درست فیصلہ صادر کیا ہے تو مبینہ مجرم کی معصومیت کا مقتول کی ماں کو بھی یقین دلانا ہوگا، ریاست مدینہ کی بات کرنے والے حکمرانوں کو بھی عدل کی بالادستی کے لئے اس بڑھیا سے رابطہ کرنا چاہئیے، جس ملک کی پولیس پر اس ملک کے عوام اعتماد نہ کرتے ہوں وہاں فیصلے بھی عموماًشک کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں، انصاف سے محروم عوام نے تحریک انصاف کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا مگر افسوس کہ حکومت اب تک پولیس ریفارمز کی جانب آتی دکھائی نہیں دے رہی، بڑے پیمانے پر بغیر سوچے سمجھے بیورو کریسی میں اتھل پتھل سے نظام نہیں بدلے جا سکتے، ایسے اقدامات سے حکومت،، فرسٹریشن،، میں مبتلا دکھائی دیتی ہے، جو افسر لاہور میں بیٹھ کر آپ کی ،، حکم عدولی،، کرتا ہے وہ ملتان یا کراچی میں بیٹھ کر آپ کا وفادار بن جائے گا، بیورو کریٹس کے اندھا دھند تبادلوں کے حوالے سے ایک سوال حکومت سے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک افسر کے ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پر تبادلے پر قومی خزانہ سے کتنے پیسے لگتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ اب اشرفیہ کالونی انیس آباد رنگ روڈ پشاور سے ایک 62سالہ بیوہ مہر تاجہ بی بی کا ایک خط، میرا شوہر دیہاڑی دار مزدور تھا، عرصہ پہلے کام کے دوران زیر تعمیر گھر کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوگیا، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو پالنے کے لئے میں نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا، بچوں کے لئے دال روٹی اور کپڑے لتے کا بندوبست تو کرتی رہی مگر کسی ایک کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کر سکی، اب بیٹا روزانہ اجرت پررکشہ چلاتا ہے، لوگوں کے گھروں میں مشقت کی اب مجھ میں ہمت نہیں رہی، دونوں بیٹیاں شادی کی عمروں تک پہنچ چکی ہیں، ایک کی ڈیڑھ سال پہلے منگنی کر دی تھی، اب چاہتی ہوں کہ اس کی رخصتی کر دوں مگر اس قابل بھی نہیں ہوں کہ اس کے لئے ایک رضائی یا ایک چار پائی بھی خرید سکوں، اس بڑھیا نے خط کے ساتھ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی بھی بھجوائی ہے، نمبر ہے1730195815720 یہ خاتون بیٹی کے لئے جہیز کی طلبگار نہیں صرف یہ چاہتی ہے کہ سلائی مشین جیسی کچھ گھریلو استعمال کی ضروری چیزیں بیٹی کو دے کر گھر سے رخصت کرے، کوئی حکومتی ادارہ یا کوئی صاحب ثروت اس خاتون سے اس موبائل نمبر کی وساطت سے رابطہ کر سکتا ہے، 03035593636،،،،،، پچھلے ادوار حکومت کی طرح موجودہ دور میں بھی کئی ادارے مستحق بچیوں کی انفرادی یا اجتماعی طور پر شادیاں کرانے کا نیک فریضہ انجام دے رہے ہیں، چونکہ پاکستان میں شرح غربت بہت زیادہ ہے ، لاکھوں سفید پوش گھرانوں میں بیٹیاں ماں باپ کے گھروں کی دیلیز پر بیٹھے بیٹھے ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں، اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بے سہارا اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کی اس حوالے سے مدد کے ذرائع کو وسعت دی جائے اور ایسے بے بس اور بے کس گھرانوں کو خود تلاش کیا جائے تاکہ ان کی عزت نفس کا بھی پاس رکھا جا سکے۔