کالم کا سرنامہ پڑھ کر شائد آپ کو یاد آجائے کہ پچھلی سے پچھلی جمعرات میں نے اسی عنوان کا ایک کالم ادھورا چھورڑدیا تھا اور عرض کیا تھا کہ کالم کے دامن پر دست یاب جگہ تمام ہوئی سو باقی باتیں پھر۔ یہ کالم اُسی ’’پھر‘‘ کی تفسیر ہے‘ لکھا تھا کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی کہ جس میں روایت و احساس کی موت کا ہمہ وقت رونا رویا جاتا ہے‘ اب بھی انسان‘ انسان کے قریب رہنا چاہتا ہے۔ اپنے ہم جنسوں کا قرب اور اجتماع اسے خوشی اور آسودگی فراہم کرتا ہے۔ بھاجی پرویز بڑا دانا و بینا ہے اور اب کہ بزرگی کی مسند پر براجمان مگر مجھے اس کے تھیسز سے اتفاق نہیں۔ یہ چند سطریں یاد دہانی کو تھیں‘ اب بھاجی پرویز اور اس کے تھیسز کا بھی سن لیجئے۔ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے گھر میں میرے بھتیجے شاہ زیب کی شادی کا ہنگامہ تھا ۔ مہندی کا فنکشن ہمارے آنگن میں ہوا تو یوں گویا گھر میں ایک ڈیڑھ روز بھیڑ بھڑکا رہا۔ بارات جہانیاں گئی‘ استقبال ہوچکا اور سب اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ‘تو میرے ماموں عبدالرحمن مرحوم کا سب سے بڑا صاحب زادہ جسے ہم سب بھاجی پیجا کہتے ہیں اور جو بڑاملن سار ہے‘ ایک سے دوسری میز سے تھوڑی تھوڑی دیر کو گپ شپ کرتا پھرا۔ اسٹیج کے بالکل ساتھ بہت ہی بزرگوں کی ٹیبل تھی جس پر تایا غلام حسین، اباجی اور چاچا عبدالرحمن بیٹھے تھے۔ پھر نسبتاً کم بزرگوں کی میز جس پر بھاجی محبوب( میرے خالہ زاد)، ڈاکٹر عبدالستار (تایازاد) اور ایسے ہی چند دیگر ریٹائرڈ افراد تھے، ان میں ایک ’’ حاضر سروس‘‘ میں ہی تھا۔ گھومتا گھامتا بھاجی پرویز ہمارے ساتھ آن بیٹھا۔ وہ گفت گو کا اور بات سے بات نکالنے کا ماہر ہے، پورا داستان گو ۔ اُس کے پاس سنانے کے لئے بے شمار باتیں ہوتی ہیں اور پھر کہنے کا انداز بھی دل چسپ۔ ایک آنکھ کا آپریشن کروایا تھا‘ سو وہ کالی عینک لگائے پنڈال میں گھومتا تھا۔ ہمارے پاس بیٹھنے کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں۔ جہاں بھائی پرویز بیٹھا بولتا ہو، وہاں باقی سب سامع ہوتے ہیں، کسی دیگر کا چراغ اُس کے آگے جل ہی نہیں پاتا۔ پہلے آنکھ کے آپریشن کا قصہ سنایا اور اُس کے بعد جو واقعات پیش آئے، ان سب کا اجمالی جائزہ اور پھر حالاتِ حاضرہ کی گوشمالی ۔ پتہ نہیں کون سی بات سے یہ بات نکلی کہ فی زمانہ مہمانوں کو رحمت کے بجائے وبال سمجھا جانے لگا ہے۔ بھائی پرویز کی عمر خیر سے پینسٹھ سال تو ضرور ہوگی۔ اُس نے گزرا زمانہ یاد کیا اور کہا’’ کیا وقت تھا کہ مہمان آنگن میں قدم رکھتا تو گھر والے واری صدقے جاتے اور دل و جان سے خدمت و تواضع کو کمر بستہ ہوتے مگر اب تو مہمان کو دیکھ کر لوگ بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ بس جی خون سفید ہوگئے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ ساری گفت گو ٹھیٹھ پنجابی میں ہورہی تھی، وہ لب و لہجہ جو یا تو اب امرتسری سکھوں کے ہاں باقی رہ گیا ہے یا پھر بھاجی پرویز کے پاس۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ بھائی پرویز کے پاس کسی تھیسز کو سپورٹ کرنے والا وقوعہ نہ ہو۔ چناں چہ اس نے جوانی کا ایک قصہ شروع کیا۔ ’’ اللہ بخشے چاچا یوسف اور میں ‘بے بے (بھائی پرویز کی دادی‘ میری نانی اماں) کے ساتھ چیچہ وطنی گئے‘‘۔ وہاںچھیاسی چک میں میری نانی مرحومہ کے بھائی رہتے تھے۔ ’’ چار پانچ روز رہنے کے بعد بے بے واپسی کو تیار ہوئی تو بھائیوں نے راستہ روک لیا کہ اتنی جلدی واپسی کیوں کر ممکن ہے۔ بے بے کو ضروری لوٹنا تھا، سو اُس نے کہا کہ یوسف اور پرویز کو چھوڑ جاتی ہوں، جتنے دن ان کو گوشت کھلائو گے، یہ یہیں تمہارے پاس ہیں‘‘۔ یہاں وضاحت ضروری ہے کہ دونوں چاچا بھتیجا خیر سے سوا چھ فٹ طویل جٹ‘ جن کی خوراک کشادہ ہوا کرتی ہے۔ بھائی پرویز نے بات آگے بڑھائی ’’لوجی روزانہ مُرغا، بکرا شروع ہوگیا۔ گوشت کے ہم دونوں رسیا تھے مگر کوئی کتنے دن من و سلوٰی کھاسکتا ہے۔ آٹھواں روز تھا ‘دونوں ماموں باہر تھے کہ چاچا یوسف نے منت کر کے گھر میں دال پکوائی۔ ماموں واپس آئے تود ال دیکھ کر بیوی پر برس پڑے کہ تم کیا مہمانوں سے تنگ آگئی ہو۔ تب ہم نے سمجھایا کہ کوئی حد ہوتی ہے، کب تک بھلا ہم گوشت کھاسکتے ہیں۔ لو جی یوں بے بے کی بات بھی رہ گئی اور ہم بھی واپسی کو نکلے۔ آج تو نفسا نفسی کا عالم ہے۔ کوئی ایک دن کو بھی کسی کو مہمان رکھنا ناگوار سمجھتا ہے‘‘۔ یہ درست ہے کہ مصروفیت نے آج کے انسان کو وقت کی دست یابی کے حوالے سے غریب کردیا ہے۔ اشیائے روزمرہ پر مہنگائی یوں مسلط ہوئی ہے کہ اِن کے حصول کو لوگ دو دو کسب کرنے کو مجبور ہیں۔ اپنا پورا کرنا مشکل، کجا کہ مہمان داری۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی کے پاس وقت میسر ہو تو وہ اعزا و اقربا کی، یار بیلیوں کی، محبوب کی صحبت چاہتا ہے۔ شہر میں جو سینکڑوں چائے خانے رات کے سویر میں ڈھل جانے تک آباد رہتے ہیں اور وہاں گروپوں کی شکل میں بیٹھے لوگ۔ تقریبات کا انعقاد اور لوگوں کا وہاں آنا جانا۔ ناک رکھنے کو یادکھاوے کو ہی سہی شادی بیاہ کے موقع پر بڑے اجتماعات ۔ ان سب کے پیچھے بہرحال یہ خواہش کہیں نہ کہیں موجود ہے کہ انسان کو انسانوں کی کمپنی چاہئے۔ تکلیف، بیماری کے وقت کوئی دوست ‘عزیز ہمیں پوچھنے نہ آئے تو ہم بُرا محسوس کرتے ہیں۔ وہ طبیب نہیں ہوتا کہ اُس کے آنے سے بیماری کٹ جائے مگر ہم ناراض ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے شائد کہ اُس کی معیت میں کچھ وقت گزار کر ہم بیماری کا مقابلہ کرنے کواپنی ہمت اور حوصلے کو استوار پاتے ہیں۔ سیانوں نے جو مثل نکالی’’ بندہ‘ بندے دا دارو‘‘ شاید ایسے ہی واقعات اور ان سے ہوتے روحانی /جسمانی افاقے کو مدنظر رکھ کر نکالی ہو۔ سو بھائی پرویز میں آپ کے تھیسز سے اتفاق نہیں کرتا۔ اگر آپ کا تھیسز درست ہوتا تو شادی کے ہنگامے اور رونق کے بعد میرا اور میری بیٹیوں کا دل یوں اداس و ویراں نہ ہوتا۔ ہم نشیں اُف اختتامِ بزمِ مے نوشی نہ پوچھ ہورہا تھا اس طرح محسوس ہوش آنے کے بعد جس طرح دیہات کے اسٹیشنوں پر دن ڈھلے اک سکوتِ مضمحل، گاڑی گزرجانے کے بعد ٭٭٭٭٭٭