بنوں ملک کے پورے پشتون بیلٹ کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں کے لوگ غضب کے زندہ دل ہیں اور زندگی کو خوب انجوائے کررہے ہیں۔یہاں کا بچہ ہو،نوجوان ہویابوڑھا، آپ کو ہمہ وقت خوش طبع اور بہت ہشاش بشاش ملے گا۔ہم سال میں دوعیدیں مناتے ہیں لیکن زندہ دلاںِبنوں کی ہر شام عید ہوتی ہے۔کیونکہ وہاں کے شوقین لوگ ہرشام کو بلاناغہ ڈھول کی تھاپ پر روایتی رقص میں خود کو خوب تھکا کراپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ نہ جانے اب ایسے زندہ دل لوگوںکی دھرتی کو کس کی نظرلگ گئی ہے کہ ایک طویل عرصے سے وہاں سے صرف دل فگار خبریں آتی ہیں؟ پچھلے سالوں کی وارداتوں سے قطع نظر، رواں سال کے دوران اس علاقے میں اب تک تین بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ بائیس فروری کو بنوں ہی سے تعلق رکھنے والی پانچ غریب خواتین ناہید بی بی ، ارشاد بی بی ، عائشہ بی بی ، جویریہ بی بی اور مریم بی بی میں سے چار کو اس وقت ظالموں نے شہید کردیا جب وہ میرعلی کے علاقے میں واقع اپنے دفتر جارہی تھیں۔ یہ پانچوں خواتین ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ ماہانہ سولہ ہزارروپے کی معمولی تنخواہ پر کام کرتی تھیں۔ صبح جب یہ معمول کے مطابق اپنے گھروں سے نکل کرایک گاڑی میں سوارہوئیںاور ان کی گاڑی جب میرعلی (شمالی وزیرستان) میں ایپی گائوں کے حدود میں داخل ہوئیں تو دو موٹرسائیکل سوار وںنے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی ۔ مریم بی بی پھربھی خوش قسمت تھی کہ اسے ایک قریبی گھر میں پناہ مل گئی جبکہ ناہید بی بی ، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی اور جویریہ بی بی چاروں کو ظالموں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ چارخواتین کے قتل کے ایک ماہ بعد بائیس مارچ کو چار معصوم نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ایک ویرانے سے برآمد ہوئیں۔ یہ چار لاشیں عاطف اللہ ولد زرنواز، احمد ولد تعلیم محمد، عبدالرحیم ولد مرغیداللہ، رازیم اللہ ولد عید نواز کی تھیں جن کا تعلق بنوں کے جانی خیل( ہندی خیل )سے تھا۔ یہ چاروں دوست شکار کے ارادے سے فروری کے آخری ہفتے میں اپنے گھروں سے نکلے تھے تاہم پچیس دنوں کی طویل گمشدگی کے بعد گھر والوں کو ان کی لاشیں ملیںجن میں ایک کا سر قلم کردیا گیا تھا ، دو کو گولیاں ماری گئیں تھیں اور ایک کو پتھروں کے وار سے شہید کیاگیاتھا۔ اس المناک سانحے نے پورے علاقے میں کہرام مچادیا ۔ علاقے کے لوگوں نے شہداء کی لاشیں دفنانے سے انکار کردیا اور دھرنے دے کر اسے احتجاجاً رکھا۔ دس روز تک دھرنا جاری رہا ۔جب حکومت کی طرف سے کوئی امن وامان کو بہتر بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ رسپانس نہیں ملا توہزاروں کی تعداد میں مظاہرین لاشوں کو لیکر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے ۔ ایک طویل مارچ کی صورت میں یہ دھرنا جب لنک روڈ بنوں کے ادھمی پل تک پہنچا تو صوبائی حکومت متحرک ہوگئی اور دھرنے کے شرکاء کو جانی خیل میں امن قائم کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت مانگا تھا کہ اس عرصے کے اندر چار نوجوانوں کی ہلاکت کی شفاف انکوائری، علاقے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنا اور ہر مقتول خاندان کیلئے فی کس پچیس لاکھ روپے کا ادائیگی حکومت کی ذمہ ہوگی ۔حکومت کی طرف سے امن وامان کی ضمانت ملنے پر لوگوں نے احتجاج ختم کرکے لاشوں کو دفنادیا۔ اس حکومتی ضمانت کو اب تین مہینے پورے ہورہے ہیں تاہم چار نوجوانوں کے قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ہیں بلکہ قاتل اتنے بہادر ہیں کہ انہوں نے ایک بار پھر وہی کھیل دہرادیا۔ دس بارہ روز قبل امن کمیٹی کے سربراہ ملک نصیب خان جانی خیل کو دن دیہاڑے شہید کر دیا اس طرحدہشتگرد جیت گئے اور حکومت ہار گئی۔مقتول ملک نصیب خان نے مارچ میں قبائلی جرگے اور حکومت کے بیچ ہونے والے امن معاہدے پر دستخط کیے تھے ۔ اس واردات کے بعدبنوں والوں کیلئے پھر وہی دھرنے والا آپشن بچا،یوں قاتلوں کی گرفتاری تک لوگ ایک دفعہ پھر لاش سمیت دھرنے پر بیٹھ گئے۔یہ دھرنا آج بارہویں دن میں داخل ہوگیاہے اورحکومت پہلے کی طرح تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ الٹا دھرنے والوں سے اظہار یکجہتی کیلئے آنے والوں کو راستے میں روک رہی ہے ۔ بنوں اور اس سے ملحقہ علاقوں کے آئے روزبڑھتے ہوئی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کی وارداتیں اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس خطے میں انتہاپسند ایک بار پھر سراٹھارہے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف حکومت کی مبینہ سردمہری ریاستی رٹ کے اوپر ایک سوالیہ نشان بن گیاہے۔ خیبر پختونخوا اور اس میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے ملک کا وہ بدقسمت خطہ ہے جہاں کے لوگوں نے نام نہاد وار آن ٹیرر کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہے ۔نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ دہشتگرد حملوں میں شہید اور زخمی ہوئے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جبری طور پرلاپتہ بھی کردیئے گئے ۔قبائلی علاقے ضم تو ہوئے لیکن وہاں اب بھی امن وامان کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ ٹارگٹ کلنگ ، اغوابرائے تاوان ا جیسی بھیانک وارتیں آج بھی ان علاقوں میں ہورہی ہیں۔گزشتہ روز جانی خیل دھرنے سے یکجہتی کے موقع پر اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بجا کہاہے کہ ’’ پشتون کب تک اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے رہیں گے؟ پشتون کئی دہائیوں سے ایک ایسی جنگ کا شکارہیں جس میں مرنے والا بھی پشتون، مارنے والا بھی پشتون اور بدنام ہونے والا بھی پشتون ہے۔ کیااب بھی وقت نہیں پہنچا ہے کہ حکومت گڈ اور بیڈ دونوں نوع کے دہشتگردوں کے خلاف بلا تفریق کاروائی کرے‘‘؟