ملک کے موجودہ بحران بارے مجھے شاکر شجاع آبادی کی کچھ شعر یاد آ رہے ہیں ۔ ملک میں عدالتی فیصلے اور نظریہ ضرورت کی بھی بات ہو رہی ہے ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذکر ہو رہا ہے۔انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے بلا شبہ افواج پاکستان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ یہاں یہ بھی ہوا ہے کہ جہاد کے نام پر عالمی قوتوں نے پاکستان میں کھیل کھیلا اور دولت کے ذریعے پاکستان میں امن و عامہ کی صورتحال خراب کی ۔ اس صورتحال کے ذمہ دار وہ سب ہیں جو دولت کی لالچ میں آ کر دین و ایمان کا سودا کیا ۔ زیادہ وضاحت کرنے کی بجائے میں شاکر شجاع آبادی کے کچھ شعر پیش کر رہا ہوں ، جس سے حقیقت حال کا احساس و ادراک ہوتا ہے۔ شاکر شجاع آبادی ذات باری تعالیٰ سے مخاطب ہو کر استدعا کر رہے ہیں کہ خدایا خود حفاظت کر تیڈٖا فرمان وِکدا پے کتھائیں ہے دین دا سودا ، کتھائیں ایمان وِکدا پے کتھائیں مُلاں دی ہَٹی تے کتھائیں پِیراں دے شوکیس اِچ میڈٖا ایمانِ ئِ بدلیا نی مگر قرآن وِکدا پے اِتھاں لیڈر وپاری ہِن ، سیاست کارخانہ ہے اِتھاں ممبر وِکائو مال ئِ ن ، اِتھاں ایوان وِکدا پے نی ساہ دا کئی وِساہ شاکرؔ ، ولا وی کیوں خدا جٖانْے ترقی دی ہوس دے وچ ، ہر اِک انسان وِکدا پے اس میں کوئی شک نہیں کہ شاکر شجاع آبادی کی شاعری دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہے ، وہ انسان اور انسانیت سے پیار کرتا ہے ، وہ نہ اشتراکی ہے نہ سامراجی ، وہ دنیا میں پائی جانیوالی نابرابری ، جبر اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف بات کرتا ہے وہ اعلیٰ سوچ کا ایک نامور شاعر ہے ، نہایت سادہ اور عام لفظوں میں بات کرتا ہے اور وہ جو بات کرتا ہے وہ دلوں میں اُتر جاتی ہے اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریر میں شاکر کی شاعری کے حوالے اس لئے کوڈ نہیں کر رہا کہ اس کی شاعری ہوا اور خوشبو کی طرح ایک ایسے لطیف جذبے کا نام ہے جسے ہم محسوس تو کر سکتے ہیں مگر گرفت نہیں کر سکتے۔ بلاشبہ شاکر شجاع آبادی ہمارے نوجوان نسل کا پسندیدہ اور مقبول شاعر ہے ، وہ جب پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہزاروں کے مجمعے میںخاموشی اور ہو کا عالم طاری ہوتا ہے ۔ سامعین ان کے کلام کو گوشِ جاں سے سنتے اور چشم قلب سے پڑھتے ہیں ، وہ سرائیکی زبان کا واحد خوش قسمت شاعر ہے جو سب سے زیادہ پڑھا اور سنا گیا ہے ، اس کی باتیں فکر اور دانائی کی باتیں ہوتی ہیں ، وہ جو بات کرتا ہے دل والی کرتا ہے اور ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کی مانند اس کے شعروں کی باتیں پُر تاثیر اور پُر مغز ہوتی ہیں ، میں سمجھتا ہوں دانائی کی ایسی باتیں کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ؎ بات ہیرا ہے ، بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج ہوتی ہے ’’بات‘‘ ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے ’’بات‘‘ ہوتی ہے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ شاکر شجاع آبادی کو سینکڑوں کی تعداد میں ایوارڈز اور تعریفی سرٹیفکیٹ ملے مگر اکادمی ادبیات ایسے غیر منصفوں کو مصنف بناتی آ رہی ہے جو شاکر شجاع آبادی اور احمد خان طارق جیسے شعراء کو بھی اپنے حق سے محروم کرتے آ رہے ہیں ، میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ نوبل پرائز والوں کا زاویہ نگاہ محدود ہے ورنہ یہ ہو سکتا ہے کہ شاکر شجاع آبادی نوبل انعام سے محروم رہے ؟ سرائیکی شاعری عالمی ادب میں بہترین اضافہ ہے مگر یہ جگہ مناپلی ہے ، سرائیکی کا تو مسئلہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ سرائیکی کی نہ تو اپنی اسمبلی ، نہ صوبہ اور نہ اسمبلی میں کوئی بات کرنے والا ۔مگر کیاسرائیکی شاعری کبھی مر سکتی ہے ، کیا شاکر شجاع آبادی اور دوسرے سرائیکی شعراء کی سوچ کوئی ختم کر سکتا ہے ؟ یہ ممکن ہی نہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سرائیکی شاعر کی سوچ اور نقطہ نظر عالمگیر ہے اور وہ آنے والے وقت کا بھی ادراک رکھتا ہے۔ جیسا کہ غربت ، پسماندگی اور عدم مساوات پوری دنیا کا مسئلہ ہے تو شاکر شجاع آبادی نے بھی غربت کے خاتمے اور عام آدمی کے مسائل کی بات کی ہے ۔ مقامی مسائل بھی عالمی مسائل کا حصہ ہوتے ہیں ۔ شاعری کو خدا اور خدائی کے درمیان رابطے کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ سرائیکی وسیب کے لوگ جنگجو نہیں لیکن شاعری ‘ موسیقی اور کلچر کے ہتھیار سے انہوں نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دل فتح کیے ۔ اللہ اللہ بول سرائیکی ،مٹھڑی بٖولی بٖول سرائیکی، شاعری کے ان میٹھے بولوں سے جو موسیقی ترتیب پاتی ہے اور پھر موسیقی کی لے پر جھمر کا جو پڑ سجتا ہے اور جھومری میدان میں آتے ہیں تو اس سے عسکری جنگ کے بڑے بڑے میدان نادم و شرمسار نظر آتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر جگہ طاقت کا چلن ہے مگر طاقت کا غلط استعمال تہذیب کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اس کی روک تھام کیلئے شاکر کی شاعری طاقت ور آواز ہے ، باوجود اس کے کہ وہ بول نہیں سکتا۔ اس کا جسم مفلوج ہے لیکن وہ کہتا ہے : میڈٖے لولھے بازواں دے کجھ سہارے چا ونجٖو کہا جاتا ہے کہ محکوموں کی کوئی شناخت اور تہذیب نہیں ہوتی ، وہ کسی القاب یا خطاب کے بھی حقدار نہیں ہوتے ۔ ان کے حقوق کے ساتھ ان کی زبان کو بھی مٹا دینے کے لائق سمجھا جاتا ہے مگر زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے ۔ آج تک نہ کوئی سرائیکی زبان کو ختم کر سکا ہے اور نہ سرائیکی خطے کی شناخت کو ۔ اس کا ثبوت شاکر شجاع آبادی اور دوسرے شعراء کی سرائیکی شاعری ہے ۔سب جانتے ہیں کہ یونان ، عرب ، افغانستان تو کیا سات سمندر پار یورپ سے بھی حملہ آور آئے مگر وہ سرائیکی زبان کو ختم کرنے میں کامیاب نہ ہوئے ۔ انگریزی ، فارسی ، عربی جیسی طاقت ور زبانیں سرائیکی کو ختم نہ کر سکیں تو ان کے مقابلے میں سرائیکی کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے کس باغ کی مولی ہیں ۔ جب تک کائنات ہے ‘ سرائیکی زبان بھی زندہ رہے گی ، سرائیکی شاعری بھی اور سرائیکی زبان کے شاعر بھی زندہ رہیں گے ۔آج شاکر شجاع آبادی کی شاعری کا پوری دنیا میں چرچا ہے تو اس واقعے کو معمولی نہ سمجھا جائے کہ یہ آنے والے نئے وقت کی نوید ہے کہ صدیوں سے حملہ آور سرائیکی وسیب کو دیکھتے آئے ہیں ، اب سرائیکی وسیب کے لوگ ان کو دیکھیں گے۔ ہزار ہا سالوں سے کچل دی گئی سرائیکی زبان کو ایک بار پھر سے زندہ کر دینے کا واقعہ کسی معجزے سے کم نہیں ۔ اس کا سہرا سرائیکی شاعروں کے سر ہے ۔ شاکر شجاع آبادی سمیت وسیب کے تمام شعراء وسیب کے حقوق اور وسیب کی شناخت کیلئے جدوجہد بھی کر رہے ہیں اور انسانیت کیلئے بلا تفریق رنگ ، نسل و مذہب محبت کے زمزمے بھی بکھیر رہے ہیں ۔