12مئی 2007ء کی یاد میں پیپلز پارٹی اور اے این پی نے جلسے کئے۔ دونوں کے کارکن اس روز پرویز مشرف کی ’’طاقت‘‘ کا نشانہ بنے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس دن کی یاد میں تحریک انصاف نے بھی کراچی میں جلسہ کیا۔ تحریک انصاف کا 12مئی سے تعلق واسطے کا سراغ لگانے کے لیے سراغ رساں کہاں سے لائیں۔ مشرف اچھے آدمی تھے‘12مئی کا کارنامہ بھی ان کی سنہری خدمت ہے پھر تحریک نے تعزیتی جلسہ کیوں کیا؟ تعزیتی نہیں‘ اسے اصل میں ’’تعریفی‘‘ جلسہ کرنا چاہیے تھا۔

بلاول زرداری نے اپنے خطاب میں متحدہ اور تحریک انصاف دونوں کو نشانہ بنایا۔ متحدہ کو نشانہ بنانے کی دو وجوہات ہیں جن میں سے ایک موجود ہے۔ دوسری ساقط ہو چکی۔ موجود وجہ یہ ہے کہ کراچی کا مہاجر ووٹ بنک اب بھی متحدہ کا ہے۔ متحدہ کے جتنے بھی دھڑے ہو جائیں۔ مہاجروں کی سیٹ پر مہاجر ہی جیتے گا۔ ساقط وجہ یہ ہے کہ متحدہ نے 12مئی کو مشرف کا آلہ کار بن کر لوگوں کا قتل عام کیا ان میں بہت سے پیپلز پارٹی کے تھے۔ یہ وجہ ساقط یوں ہوئی کہ 12مئی کے سارے مہرے متحدہ سے نکال کر صادق و امین قرار دے کر پاک سرزمین کو پیارے کیے جا چکے ہیں۔ چنانچہ اس کا گلہ اب متحدہ سے نہیں‘ پاک سرزمین پارٹی سے بنتا ہے۔ سناہے جلد جنوبی پنجاب کے مردان حر کی طرح کراچی کے یہ صادق و امین حضرات بھی جماعت تحریک انصاف میں مشمول ہونے والے ہیں۔

٭٭٭٭٭

بلاول تحریک انصاف پر یوں گرجے برسے کہ اسے متحدہ کا بنی گالہ گروپ قرار دے دیا۔ یاد آیا‘ چند روز پہلے شہباز شریف نے بھی بیک وقت پیپلز پارٹی اور متحدہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور پرلطف پیرایہ اختیار کیا تھا۔ کہا تھا کہ بلاول ہائوس اور بنی گالہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہیں۔ بلاول ہائوس سے مراد بلاول ابن زرداری نہیں تھے بلکہ زرداری ابو بلاول تھے۔ بعض لوگوں نے اس پر جزوی حیرانی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم پیالہ ہونے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ہم نوالہ ہونے کی نہیں۔

ارے بھئی‘ ہم نوالہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازماً ایک ہی طعام گاہ میں بیٹھ کر کھایا جائے۔ لنگر خانہ جہاں سے لنگر آتا ہے۔ ایک ہو‘ پھر لنگر چاہے اس ہائوس میں جائے یا اس بنگلے میں۔ دونوں ہم نوالہ ہی سمجھے جائیں گے۔ اس بات کی تشریح مزید بلاول چاہیں تو اپنے پاپا حضور سے معلوم کر سکتے ہیں۔

ویسے سنجرانی ماڈل فارم میں تو ’’نوال دیپال‘‘ کے ایک پیج پر ہونے کا ذکر تو تاریخ میں محفوظ ہو ہی چکا!

٭٭٭٭٭

بہرحال‘ ابن زرداری تو آج کل روزانہ کی بنیادوں پر چہک رہے ہیں لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے‘ ابو بلاول کچھ دنوں سے منقارزیر پر ہیں۔ منقارزیر پر کو منقار بستہ بھی کہا جا سکتا ہے بروزن لب بستہ لیکن اس سے خیال کسی اور بستے کی طرف جانے کا اندیشہ ہے۔

شاید انہیں صدمہ ہے۔ ’’لنگر خانہ‘‘ نے یقین دلایا تھا کہ جنوبی پنجاب کے آزاد ارکان آخر تمہاری جھولی میں جائیں گے۔

یہ بات ہے تو ابو بلاول کو زیادہ رنجور نہیں ہونا چاہیے۔ الیکشن کے دوران اراکین کے مابعد ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے کے ابھی کئی مرحلے آنے ہیں۔

٭٭٭٭٭

نئی مردم شماری کے بعد کراچی میں دوسری جماعتوں کے لیے بھی امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لیے خیال ہے کہ کراچی کا انتخابی میدان خوب گرم رہے گا۔ نئی مردم شماری کے مطابق مہاجر آبادی اب اکثریت نہیں رہی اگرچہ سب سے بڑا گروپ وہی ہے اب مہاجر آبادی کا 52فیصد حصہ نہیں رہے‘ گھٹ کر 48فیصد ہو گئے ہیں۔

جن حلقوں میں مہاجروں کی اکثریت ہے‘ ان میں متحدہ کا امیدوار ہی جیتے گا چاہے وہ کسی بھی دھڑے سے ہو‘ کیا پتہ یہ سارے دھڑے (ماسوائے صاف شفاف پارٹی کے اصحاب کمال کے) متحدہ ہو جائیں۔ نہ بھی ہوں تو کیا ہو گا۔ ایک حلقے سے‘ فرض کیجیے‘تین دھڑوں کے تین امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن انتخابی مہم کے شروع ہی میں فضا بتا دے گی کہ زیادہ زور والا امیدوار کون سا ہے۔ خود بخود سارے ووٹر اسی کی طرف ہو جائیں گے۔

پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ووٹر محدود ہیں ایک کے پاس صرف سندھی اور بلوچ ہیں اور تھوڑے سے پشتون دوسری کے پاس صرف پنجابی ایلیٹ کلاس ہے(جو بہت طاقتور بھی ہے) اور پھر تھوڑے سے پٹھان۔ پیپلز پارٹی دو کے بجائے تین سیٹیں لے لے گی۔ تحریک انصاف ایک پر بھی اکثریت میں نہیں ہے‘ ہاں ایلیٹ کلاس طاقت اور زور کے بل پر اسے یہاں وہاں سے جتوا دے تو اور بات ہے( پنڈی سے شیخ جی کو بھی ایلیٹ نے جتوایا تھا) ۔متحدہ مجلس عمل کو مہاجروں کے ایک جتھے کافی پٹھانوں اور کچھ پنجابیوں کی حمایت مل جائے گی۔ اے این پی کے پاس صرف ایک بٹا چار پٹھان ہیں۔ مسلم لیگ کے پاس مہاجر ووٹ برائے نام سے بھی کم ہے۔ نان ایلیٹ پنجابی اور تھوڑے سے پٹھان اس کے حامی ہیں لیکن ایک حلقے میں وہ خوب زور لگائے تو جیت سکتی ہے۔

٭٭٭٭٭

عمران خان نے کراچی کے جلسے میں بھی ایوب خان کی تعریف کی۔ توہم پرستی میں وزن ہو تو کہا جا سکتا تھا کہ آنجہانی جون بدل کر آ گئے ہیں۔ آواگوان ہو گیا ہے۔ خیر‘ قوم کو مبارک ہو‘ وہ عرصے سے صلاح الدین ایوبی کی منتظر ہے۔ وہ تو قدرت کے سٹاک میں نہیں ہے‘ فی الحال عمران پیش ہے‘ گرقبول افتد…!

زور آور سارے عمران خان کے ساتھ ہیں۔ نواز شریف کے حامی صرف تین چینل تھے وہ بھی اب دو رہ گئے۔

پھر بھی اندیشے کیوں ہیں۔ کیوں شیخ جی ہر جلسے اور پریس کانفرنس میں الیکشن آگے لے جانے کی بشارت دیتے ہیں۔ کیوں ان سب کے مرشد دبئی سے مسلسل دہائی دیتے ہیں کہ ان حالات میں الیکشن مت کرانا۔

’’ان حالات‘‘ سے کیا مطلب ہے؟ کیا ’’بندوبست ‘‘ میں کچھ کمی رہ گئی ہے یہ وسوسہ کیوں ہے کہ بدریا اٹھے گی اس اُور جا برسے گی اس پار!