کیا ہمارا وطن اور ایمان ہماری اولین ترجیح ہیں۔ کیا سچی اور کھری آزادی ہی ہمارا آخری مطمح ٔ نظر ہے! اس سوال کا جواب ہم سب کے ذمے ہے۔ درحقیقت یہی بنیادی سوال ہے۔ المناک واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ اب تو ایسی آفت میں گھرے اور ایسی دلدل میں اترے ہیں کہ باید و شاید ۔ بعض پہلو تو ایسے ہیں کہ کھل کر بات ہو نہیں سکتی۔ خاص طور پر قومی سلامتی سے متعلق خدشات۔ مثلاً کیا یہ محض ایک افواہ ہے کہ یوکرین کو اسلحہ بھجوایا جا رہا ہے۔ اس خیال ہی سے خوف آتا ہے۔ صبر کے سوا چارہ نہیں اور صبر بھی قیامت کا کہ اندیشہ ہائے دور دراز سے دل لرزتا رہتا ہے۔گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل۔ غالب نے کہا تھا: عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک دل خون ہو جاتا ہے ،لہو کے گھونٹ پینا پڑتے ہیں۔ اندیشہ آ لیتا ہے کہ غیر ذمہ دار کہانیاں تراش لیں گے۔ گالم گلوچ پہ اتر آئیں گے۔ افواہیں بے لگام ہو جائیں گی اور الزامات کی ایسی یورش کہ خدا کی پناہ۔ لیفٹننٹ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کا المیہ سامنے ہے۔ ایسی ایسی کہانیاں تراشی گئیں کہ کلیجے حلق کو آنے لگے۔ اس امید کے ساتھ کہ حقیقت حال کا انہیں کچھ ادراک ہو گا، ناچیز عمران خان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس سے پہلے کہ سوال کرتا خان صاحب مرحوم جنرل کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔ ’’کیسا نفیس آدمی تھا‘‘ انہوں نے کہا، خوش باش بے ساختہ اور بے تکلف۔ دیر تک وہ شگفتہ رُو آدمی کو یاد کرتے رہے۔ گئے دنوں کی کوئی سنہری حکایت جو بار بار دل کا کواڑ کھٹکھٹاتی ہے: جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم وہ سانحہ جو دل کو چھو لیتا ہے اور دل و جان میں ٹھہر جاتا ہے‘ رخصت ہو تا ہی نہیں۔ افسوس کہ یہ المیہ بھی بازاری سیاست کا عنوان ہوا کہ گھن آتی رہی۔ حکومتی لیڈروں نے کپتان کو الزام دیا اور اس وثوق کے ساتھ ،گویا وہی اس چھچھوری لہر کے ذمہ دار ہوں۔ قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ پی ٹی آئی کے بعض گنوار ہمدرد بھی ملوث تھے، خاص طور پر بعض سمندر پار پاکستانی، پرلے درجے کے بعض غیر ذمہ دار عناصر۔ دور دیس کے اہل وطن بے شک دوسروں سے بڑھ کر وطن سے محبت کرتے ہیں۔ اس لیے کہ دوری محبت کو بھڑکاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر طرح کی پروپیگنڈہ مشینری پاکستان کے خلاف یلغار میں جتی ہے۔ امریکہ ناخوش کہ افغانستان میں عبرت ناک پسپائی کا شکار ہوا۔ اسلام آباد اور اسلام آباد سے زیادہ راولپنڈی کو وہ ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ اپنی عبرتناک ناکامی پر عالمی طاقت کو قربانی کے بکرے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے سوا اور کون ہوتا۔ پھر بھارتی اور اسرائیلی ہیں۔ عرب تو سب کے سب سپرانداز ہو گئے۔ فتنۂ آخرالزماں کے باب میں سرکارؐ کا فرمان پورا ہوا، آپؐ کے الفاظ یہ ہیں ’’ ویل العرب‘‘ بربادی ہے عربوں کے لیے۔ یہودیوں کو اب وہ عم زاد کہتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی اولاد۔ سیدنا اسمٰعیل ؑاور سیدنا اسحق علیہ السلام، جناب یعقوبؑ اور یوسف علیہ السلام کے پسماندگان۔ پست ہو کر ڈوب نہ گئے ہوتے۔ اگر وہ اللہ کی آخری کتاب کے اوراق میں انہماک کرتے تو یاد آتا کہ پروردگار کے ہاں سب سے زیادہ معتوب وہی ہیں۔ ’’سرکشی‘‘ کا لفظ اس کثرت سے ان کے لیے برتا گیا کہ حیرت ہوتی ہے۔ خود موسیٰ علیہ السلام نے انہیں جاہل مطلق کہا تھا۔ بچھڑے کی پوجا کرنے والے۔ فرمایا: میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں شمار کیا جائوں۔ ریاست ہائے متحدہ کی سرزمین میں دور دور تک بھارتیوں نے جڑیں بنا لی ہیں۔ امریکی نائب صدر بھارت نژاد ہیں۔ نصف درجن ریاستوں میں ہندوستان کا پس منظر رکھنے والے گورنری کے فیصلہ کن مناصب پر فائز ہیں۔ صرف اس لیے نہیں کہ معاشی طور پر ابھرتی ہوئی بڑی قوت سب سے بڑے امریکہ دشمن ملک، چین کی زخم خوردہ ہے۔ اس لیے بھی کہ اسلام اور مسلمانوں سے اٹوٹ نفرت برہمن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ ہمارے محترم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی جن کے ذکر سے مستقل گریزاں۔ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ پچیس لاکھ بھارتی شہریوں کو کشمیر کی شہریت بخش دی گئی ہے۔ دوسروں کے علاوہ عربوں کو آمادہ کر لیا گیا کہ دنیا کے سب سے حسین خطے میں سیاحت کے فروغ کے لیے سرمایہ لگائیں۔ سب سے بڑھ کر اسرائیل بھارت کا مددگار ہے۔ چہروں اور آنکھوں پر زخم لگانے والی پیلٹ گنیں وہیں سے درآمد کی گئیں۔اسرائیلی مشیر اور عساکر مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ گھومتے ہیں۔ سری نگر اور پلوامہ کے حجام عبرانی زبان کے بعض الفاظ روزمرہ میں برتنے لگے ہیں۔ سماجی اور تہذیبی سطح پر اہم ترین اختلاف لسانی ہوتا ہے۔ مفاد پرستوں، اندھوں اور احمقوں کے سوا سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو امریکہ محتاج، معذور اور منحصر دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ لیاقت علی خان اور جنرل محمد ضیاء الحق کو راستے سے ہٹایا۔ عمران خان کے بارے میں بھی اندیشہ یہی ہے کہ ان کے کارندے کپتان کے در پے ہیں۔ کمیونزم سے جب تک مغرب کو خطرہ درپیش تھا، پاکستان اور عالم اسلام ان کے حلیف تھے۔ اب وہ ان کا ہدف ہیں۔ ہدف بھی ایسا کہ مرعوب ہو کر حلیف نہیں ہوتا تو معدوم کر دیا جائے۔ نیٹو کے ایک سابق سیکرٹری جنرل نے کہا تھا: کمیونزم کے بعد اسلام ہی مغرب کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ادھر ہم ہیں، خوئے غلامی کے مارے ہوئے۔ تاریخ کے چوراہے پر خوابیدہ ایک قوم۔ درد ناک احساسِ کمتری اور عدم تحفظ، جس کے رگ و پے میں ہے۔ ایرانیوں کو اقبالؔ نے جگایا۔ وسطی ایشیا نے اس کا نغمہ گایا اور آزادی سے ہمکنار ہوا۔ افغانستان اوراہل کشمیر نے علمی مجدد سے فیض پایا۔ ہم نے اس نادر روزگار کو طاق نسیاں پہ رکھ چھوڑا ہے، چالیس برس تک ہمارے فکری وجود میں جو خود شناسی بونے کی سعی کرتا رہا۔ آہ کس کی جستجوآوارہ رکھتی ہے تجھے راہ تو، رہرو بھی تو ،رہبر بھی تو ،منزل بھی تو کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفاں سے کیا ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو ساحل بھی تو بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میںخدا کا آخری پیغام ہے کس چیز یہ آدمی فدا ہوتا اور حتمی یکسوئی سے توانائی کھپاتا ہے۔ اس ریاضت میں جو اس کی ترجیح اول ہو۔ کیا ہمارا وطن اور ایمان ہماری اولین ترجیح ہیں۔ کیا سچی اور کھری آزادی ہماری آخری مطمعٔ نظر ہے! اس سوال کا جواب ہم سب کے ذمے ہے۔ یہی سب سے بڑا اور بنیادی سوال ہے۔