بیوروکریٹ کا ترجمہ افسر اعلیٰ نہیں خادم اعلیٰ ہے۔ عمران خان کی اصل اپوزیشن یہی خدام اعلیٰ ہیں۔ یہ خدام اعلیٰ قبل ازیں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کی مخبری کرکے نواز شریف سے فوائد لیتے رہے۔مفاہمت کے یہ غلام اس رخ نماز باندھ لیتے ہیں جہاں ان کو شریک اختیار کر لیا جائے۔ کتنے سعید مہدی اور احد چیمہ آئے۔ عوام کی خدمت کی توفیق نہ ہوئی۔ میڈیا اور طاقتور حلقوں میں دوستانے بنائے، جی بھر کر اپنی مرضی کی، ساری دنیا کے لئے اصول پسند لیکن ن لیگ کیلئے موم، جیسے چاہا موڑ لیا۔ جو خاندان اقتدار میں رہے ہیں ان کے محلات کی دیواروں اور دالانوں سے آگے بڑھ کر تحقیق کریں کہ وہاں سکیورٹی، پروٹوکول، کچن، مالیات اورپارٹی ریکارڈ کے محافظ کون ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں، بنکوں کے افسران اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر فائز رہنے والے بہت سے چہرے مل جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سیاسی خاندانوں کے سہولت کار رہے ہیں اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی وفاداری کا صلہ حقیر خدمات انجام دے کر وصول کر رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس ایک انتخابی منشور تھا۔ اس منشور میں کچھ باتیں بہت واضح لکھی ہیں۔ بلاامتیاز احتساب، میرٹ اور کفایت شعاری، قرضوں سے نجات، نچلے طبقات کیلئے روزگار کی فراہمی اور زراعت کو ترقی دینا اس منشور میں شامل تھا۔ کرپشن کے خاتمہ کا نکتہ عوام کیلئے سب سے زیادہ توجہ کا محور بنا۔ انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان نے ایک کروڑ نئی ملازمتوں، بچاس لاکھ نئے گھروں کی تعمیر، تنازع کشمیر کے حل کیلئے سرگرم کردار اور بیوروکریسی میں اصلاحات کا وعدہ کیا۔ انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ آئی ایم ایف سے نئے قرضے نہیں لیں گے۔ ایسے وعدے کرتے وقت عمران خان کے لہجے نے بیوروکریسی کو چوکنا کر دیا۔ ایک دوڑ لگ گئی کہ نئے وزیراعظم کی اصلاحاتی ٹیم اور بیوروکریسی سے متعلق مشیر حضرات کا سراغ لگایا جائے۔ جب تک عمران خان کو محاصرے کا اندازہ ہوتا اس سے پہلے ہی خدام اعلیٰ نے اپنی فیلڈنگ کھڑی کر دی۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئے 8 ماہ ہوئے تھے کہ وزیراعظم نے بیوروکریسی سے سرکاری فائلوں پر دستخط کرنے میں تاخیر کا شکوہ کیا۔ وزیراعظم کا ایف بی آر کی کارکردگی پر اظہار عدم اطمینان اب تک برقرار ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں چار بار چیف سیکرٹری اور لگ بھگ اتنی بار ہی آئی جی تبدیل ہو چکے ہیں۔ دفتروں میں جائیں سب کچھ قاعدے کے مطابق دکھائی دے گا۔ میٹنگز، فائلیں، ہدایات، آنیاں جانیاں، راہداریوں میں کھڑی چمکتی گاڑیوں کو مزید چمکانے کی کوشش میں مصروف ڈرائیور، مستعد نائب قاصد، کلرکوں کے معمولات، سب بظاہر درست ہیں لیکن حکومت مطمئن نہیں۔ ابھی حال ہی میں بیوروکریسی کا ایک سکینڈل سامنے آیا ہے کہ کس طرح افسران کو ڈیپوٹیشن پر لگایا جاتا ہے ، کیسے کسی بورڈ کا ممبر بنا کر اسے بچا لیا جاتا ہے، کیسے کمیٹی کا ممبر بنا کر فائدہ پہنچایا جاتا ہے، کیسے ٹریولنگ اور ڈیلی الائنس کی مد میں رقوم بانٹی جاتی ہیں اور کون سے افسران کس سیاسی خاندان کے سہولت کار ہیں۔ بیوروکریسی وزیراعظم اور وزراء کے سامنے بچھ بچھ جاتی ہے لیکن آپس میں طے کر رکھا ہے کہ کسی نوع کی اصلاحات نافذ نہیں ہونے دینی۔ نومبر 2019ء کو وزیراعظم ہفتہ وار چھٹی پر لاہور آئے اور صوبائی افسران اور اعلیٰ پولیس افسران کا اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس میں انہوں نے کہا کہ باصلاحیت بیوروکریسی کسی ملک کی معاشی ترقی کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ کہا گیا یہ ایک پیغام تھا جو حکومت نے بدگمان بیوروکریسی کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دیا۔ بیوروکریسی ناراض اس لئے تھی کہ نیب نے بہت سے افسروں کو کرپشن الزامات میں گرفتار کر رکھا تھا اور حکومت ان افسران کو قانون کے شکنجے سے رہا کرانے کیلئے بیوروکریسی کے دبائو کو نظرانداز کر رہی تھی۔ ستمبر 2019ء میں وفاقی حکومت نے حکم جاری کیا کہ کوئی وفاقی اور ایڈیشنل سیکرٹری جمعہ اور سوموار کو سرکاری میٹنگ نہ رکھے۔ تمام وفاقی سیکرٹریوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اسلام آباد سے باہر جانے سے قبل اپنی وزارت یا ڈویژن سے اجازت لیں گے۔ ان ضابطوں کا مقصد ٹی اے ڈی اے کی مد میں ہونے والے اخراجات بچانا تھا۔ اس فیصلے سے چند روز قبل وزیراعظم نے 28 وزارتوں اور ڈویژنوں کو تفویض کئے گئے اہداف پورے نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم کی جانب سے ریڈ لیٹر جاری ہونے کا بیوروکریسی نے سخت برا مانا۔ اس خط میں وزارتوں کو اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا۔ یہ رپورٹ چھ ماہ گزرنے کے باوجود سامنے نہ آ سکی۔ بیوروکریسی نے وزیراعظم کو اس طرح جواب دیا۔ چند ہفتے قبل وفاقی حکومت نے بیوروکریٹس کیلئے نئے ضابطوں کی منظوری دی ہے۔ یہ قانون سول سرونٹس رولز 2020ء کہلائے گا۔ حکومت نے سول سرونٹس ایکٹ 1973ء کی شق 25 (ایک) کے تحت یہ منظوری دی۔ اس قانون کے مطابق کرپشن اور نیب زدہ افسران کو جبری طور پر ریٹائر کیا جا سکے گا۔ بیورو کریٹس کے مختلف گروپ اور لابیاں اس پر تلملا رہے ہیں۔ سول سرونٹس کو ایک اعتراض ہے کہ جبری ریٹائرمنٹ کیلئے ان کے طرز عمل کو "Conduct Unbecoming" کے الفاظ سے نمایاں کرنے کا مطلب عوامی مفاد کے خلاف رویہ ہے۔ ان کا خیال ہے اس سے بیورو کریٹس بدنام ہوں گے اور عوام میں ان کی انتظامی ساکھ خراب ہو گی۔ بیورو کریٹس کی حد تک یہ بات معقول دکھائی دیتی ہے لیکن جب بیورو کریٹس آشیانہ، میٹرو، اورنج، بی آر ٹی، آٹا گندم اور چینی سکینڈل، پلاٹس کے دھندے، پی آئی اے، سٹیل ملز اور ریلوے کی تباہی کے معاملات میں سیاستدانوں کے حصہ دار بن کر فائدہ اٹھائیں گے تو ان کے خلاف کارروائی تو کرنا ہو گی۔ ہاں عدالتوں میں ایک رواج ہے کہ مقدمہ وار کو رعایت ملے تو دوسرے شریک جرم بھی رعایت کی اپیل کر دیتے ہیں۔ معاملہ یہاں پھنس گیا ہے۔ عمران خان سیاستدانوں کے جرائم معاف کرنے پر آمادہ نہیں لہٰذا خدام اعلیٰ کو پارٹی بدل لینی چاہئے۔