پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں مدغم ہونے کی راہ پر گامزن تھا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے اداروں میں اصلاح کے عمل کا آغاز کیا گیا تاکہ معیشت کی کارکردگی بہتر ہو۔ نہ صرف قرض اتارے جاسکیں بلکہ غربت کے خاتمے کی بھی کوئی راہ نکل سکے۔نجی شعبے کا معیشت میں کردار بڑھانے کے لیے نجکاری کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ مقصد سرمایہ کاروں کو ترغیب دینا بھی تھا اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اداروں سے ہونے والے قومی خزانے کے نقصانات سے بھی جان چھڑانا تھا۔ انیس سو بانوے میں قانون پاس کیا گیا کہ ملک میں سرمایہ لانے اور اسے باہر منتقل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ نعرہ لگایا گیا کہ ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ کاروبار کے فروغ میں مدد کرنا ہے۔ اس حوالے سے ریگولیٹری ادارے وجود میں لائے گئے، جنہوں نے صارفین کے حقوق کی حفاظت کرنا تھی۔ یہ بھی فرض کرلیا گیا تھا کہ جمہوری طور پرمنتخب حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ منافع کی لالچ میں سرمایہ دار لوگوں کے بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرپائیں۔ لیکن یہ تمام مفروضے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ نوے کی دہائی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گئی۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کیا آنا تھی، رشوت، کرپشن اور سمگلنگ کے ذریعے کمائی گئی دولت البتہ باہر ضرور منتقل ہوگئی۔ نجکاری ہوئی بھی تو ان اداروں کی جو منافع پر چل رہے تھے اور انہیں اونے پونے داموں بیچا گیا۔ معیشت عالمی سرمایہ کار اداروں کے چنگل میں پھنس گئی جبکہ بیمار صنعتیں ریاست کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہیں۔جنرل مشرف کا دور نوے کی دہائی کی سیاسی افراتفری کا جواب بھی تھا اور ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنے کی طرف ایک قدم بھی۔ اس دور میں ریگولیٹری ادارے مضبوط ہوئے ، پارلیمانی انتخابات وقت پر ہوئے ، مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط کیا گیا۔ معیشت کے حوالے سے بینکنگ، ٹیلی کام اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہوئی۔ لیکن اس دور میں مغربی سرحدوں پر دہشت گردی کے عفریت نے بھی پنجے گاڑے۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات سر پر آئے تو جنرل مشرف کو اپنی صدارت کو طول دینے کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جلاوطن قیادت سے سمجھوتے کی ضرورت پیش آئی جو میثاق جمہوریت کے بندھن میں بندھ چکی تھی۔ یہ سمجھوتہ این آر او کی شکل میں سامنے آیا جو مشرف دور کی اس غلطی کا تسلسل تھا جو براڈ شیٹ اسکینڈل کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اگلے دس سال میں میثاقی دور کو سیاسی استحکام تو ملا لیکن مشرف دور کی طرح اس میں بھی احتساب کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ مقامی حکومتوں کے نظام کو لپیٹ دیا گیا۔ صحت اور تعلیم کے شعبوں کو نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا۔ اس دور کی واحد کامیابی دہشت گردی کیخلاف گئے فوجی آپریشن تھے اگرچہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جن ا داراہ جاتی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت تھی انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات جمہوریت کا تسلسل بھی تھا اور ادارہ جاتی اصلاحات کو آگے بڑھانے کا راستہ بھی۔ پی ٹی آئی کی صورت میں ایک نئی پارٹی اصلاحات کے ایجنڈے کو لے کر آئی تو سیاست میں بھی جان پڑگئی لیکن کورونا وائرس نے سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی حامی حکومتوں کی صفیں ہی الٹ کر رکھ دی ہیں۔ اس وقت جب عالمی طاقتیں اپنی صفیں درست کر رہی ہیں اور دنیا کو نئے اصولوں پر منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، ہم سیاسی خلفشار اور کم ہمتی کے دائر ے میں گھوم رہے ہیں۔ قرضوں کا بوجھ سر پر ہے اور معیشت میں اتنی سکت بھی نہیں کہ ریاستی امور ہی چلائے جاسکیں۔ امیر طبقے ، جسکی گزشتہ دو دہائیوں میں پرورش کی گئی ہے ، کے احساس ذمہ داری کی حالت یہ ہے کہ ایف بی آر کا چوبیس فیصد محصولات کا ٹارگٹ چار فیصد تک ہی پورا ہو پایا ہے۔ انکم ٹیکس کا محصولات میں حصہ بیس فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ محصولات کا بوجھ متوسط اور غریب طبقے پر ہے۔ اشیائے ضرورت اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہیں اور ذرائع روزگار محدود۔ ایک زرعی ملک دالیں، کوکنگ آئل باہر سے در آمد کر رہا تھا لیکن اب گندم بھی ناپید ہے۔ کپاس کی پیداوار بھی نا قابل یقین حد تک گرچکی ہے۔ بظاہر ہمیں عالمی سیاست کی نئی صف بندی تک گزارا کرنا ہے۔ انتظار کی یہ گھڑیاں نہایت تکلیف دہ اور صبر آزما ہیں۔ یہ مرحلہ آسان ہو سکتا تھا اگر ہمارے ہاں کوئی قومیت کا جذبہ ہوتا۔ قربانی اور ایثار کے جذبات ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دے سکتے تھے۔ ہمارے پاس قیادت ہے توبے رحم اشرافیہ کی صورت میں جس نے اٹھارویں ترمیم کی صورت میں پارلیمان کو بالادست تو کیا لیکن اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے صوبائیت پرستی کی تختی بھی گلے میں لٹکالی۔ جب ملک کی پیشتر آبادی بھوک ، افلاس اور بیماری کے چنگل میں پھنسی ہے، ملکی وسائل اور سیاست پر چند سو خاندانوں کا غلبہ ہے جو اپنی ناک کے آگے نہیں دیکھ پاتے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں یقینی طور پر ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے۔ اگر اشرافیہ میں کوئی سمجھ بوجھ والی بات ہوتی تو وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی بجائے اس حوالے سے پیش رفت کرسکتی تھی۔ لیکن یہ میثاق پاکستان پر ہی اٹک گئی جو میثاق جمہوریت کا ہی دوسرا رخ ہے اور اگلے انتخابات کے ایجنڈے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ہماری سیاست دوراہے پر پہلے کبھی نہیں پہنچی۔ پہلے ایسا ہوا تھا لیکن ہم نے اس سے نکلنے کے لیے ملک کا ایک حصہ گنوا یا تھا۔ اب ہمارے پاس کچھ کھونے کے لیے نہیں بچا۔ کچھ بچ گیا ہے تو وہ غلامانہ دور کا بوجھ ہے جسے اٹھاتے اٹھاتے ہم بھوک ، افلاس اور اخلاقی انحطاط کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ ملکی استحکام ، سلامتی اور روشن مستقبل کے لیے ہمیں یہ بوجھ اتار پھینکنا ہوگا اس سے پہلے کہ نیا عالمی نظام تشکیل پائے اور ہمارے فیصلے ہمارے اپنے اختیار سے نکل جائیں۔