دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا ، جو تھوڑی بہت تحریک باقی ہے وہ مختلف سڑکوں کے کنارے دم توڑ دے گی، تقریبا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ نتائج حاصل ہونے کا امکان نہیں ۔اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ حکومت کے لیے چین کے دن آ گئے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ حکومت کے اپنے کام اور گورننس کی طرف لوٹنے کے دن آ گئے ہیں ۔گورننس جو شاید اس وقت داخلی طور پر حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔تعلیم ، صحت اور معیشت کے میدان میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ پولیس اور بیورو کریسی کو متحرک اور فعال بنانے اور کرپشن سے پاک کرنے کے لیے انقلابی اصلاحات لانے کے لیے تگ و دو کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔صرف یہی نہیں کہ دو ر دراز کے پیچیدہ ضلعوں کے مسائل کا حل ترجیحی فہرست میں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا بلکہ بڑے شہروں میں بے چینی واضح دکھائی دیتی ہے۔احتساب کے خوف کا بہانہ بنا کر بیورو کریسی نے ہاتھ پاؤں ہلانا چھوڑ دیے ہیں، یوں کاروبار حکومت عملی طور پر معطل نہیں تو شدید ترین سست رفتاری کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ پچھلے دنوں پنجاب کے ایک بڑے ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ ان سے پوچھا کہ نئی حکومت آنے کے بعد کیا فرق پڑا ہے؟ کہنے لگے جو کام پہلے اپنے اختیارات استعمال کر کے کر لیا کرتے تھے اب انہیں فیصلوں کے لیے کیبنٹ کمیٹی کے پاس بھجوا دیتے ہیں ۔ فائلیں دفتر میں پڑی رہتی ہیں ، ہفتوں بعد جب اجلاس ہوتا ہے تو گاہے کیبنٹ کمیٹی فیصلہ کر دیتی ہے اور کبھی اگلی میٹنگ پر اٹھا رکھتی ہے۔یوں چند دن میں ہو جانے والا کام مہینوں کے لیے لٹک جاتا ہے۔پوچھا کہ حکومت نے تو افسران کو اعتماد دینے کی بہت کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ قانون کے مطابق کام کرنے والے افسران کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ یقین دہانی کارگر ثابت کیوں نہیں ہو رہی ؟کہنے لگے کہ افسران قانون سے نہیں ، قانون کی تشریح سے خوف زدہ ہیں۔ کچھ افسران اس نظام میں در آئی سیاست سے دل برداشتہ ہیں کیوں کہ کچھ کام بالکل انوکھے اور الگ ہور ہے ہیں۔مثال کے طور پر طارق اسد بٹ پنجاب میں ڈویژنل ڈائریکٹرلوکل فنڈ آڈٹ کے طور پر کام کرتے ہیں جو اپنے ادارے میں گریڈ بیس کے سینئر موسٹ افسر ہیں جنہیں روایت کے مطابق سینئیر موسٹ ہونے کی وجہ سے پروونشل ڈائریکٹر لوکل فنڈ آڈٹ پنجاب لگایا جانا چاہیے تھا مگر اس پوسٹ پر ان سے چودہ بیج جونیئر گریڈ انیس کے افسر عامر سعید کواو پی ایس دے کر پراونشل ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔عامر سعید اس سے پہلے میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ریزیڈینٹ ڈائریکٹر آڈیٹ اینڈ اکائونٹس ہوا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں پراونشل ڈائریکٹر بنانے کے کچھ دن بعد میٹرو پولیٹن کارپویشن کی پرانی ذمہ داری کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا۔ ایسا کرنے سے وہ تمام افسران بد دلی کا شکار ہو گئے جنہیں سپر سیڈ کر کے عامرسعید کو نواز دیا گیا۔اب یہ سوال تو سیکرٹری فنانس عبداللہ سنبل سے ہونا چاہیے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ سینئر موسٹ افسر کو نظر انداز کر کے جونئیر افسران کو اوپر لانے سے من پسند افراد کو نوازنے کا جو تاثر پوری بیوروکریسی اور قابل افسران میں پیدا ہوتا ہے اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے ۔پھر یہ سوال بھی عبداللہ سنبل صاحب سے ہی ہونا چاہیے کہ ایک ہی افسر کو دوسرے ادارے کا اضافی چارج دینا کیا اس بات کا اعتراف نہیں کہ ادارے میں کوئی اور قابل افسر موجود نہیں ۔ پنجاب میں ایک اور صاحب ہیں ڈاکٹر اشرف طاہر۔کہنے کو پنجاب کی ا سٹیٹ آف دی آرٹ فارانزک سائنس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔موصوف ستر سے زائد کے ہیں اور دس سال سے ڈی جی ہیں۔اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر سرور کو اپنے ہی ادارے کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیب کا ڈائریکٹر بنا رکھا ہے اور ان کی عمر پچھتر سال سے زائد ہے۔ڈاکٹر اشرف طاہر کے ادارے سے پچاس سے زائد وہ سائنسدان نکال دیے گئے ہیں یا نوکری چھوڑ کر چلے گئے ہیں جنہیں کروڑوں روپے خرچ کر کے امریکہ اور آسٹریلیا سے تربیت دلائی گئی تھی ۔ڈاکٹر اشرف طاہر سے سوال ہے کہ قیمتی افراد کو کیوں نکال دیا گیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ مطلوبہ نتائج دینے سے انکار اور مختلف تحقیقات کے اصل نتائج دینے پر اصرار کرتے تھے؟ایک سوال حکومت سے بھی ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے ماضی پر کئی سوالیہ نشان ہیں ، الزامات لگ چکے ہیں اس شخص کو دسویں سال بھی عہدے پر برقرار رکھنا ویسی ہی مصلحت پسندی ہے جیسی پچھلی حکومت کی تھی؟ کیوں کہ کوئی نیا شخص آئے گا تو ہو سکتا ہے وہ کرپشن کا ریکارڈ جلا کر راکھ کر دینے والی آگ کو شارٹ سرکٹ قرار نہ دے اور آپ کے لیے نیا درد سر بن جائے؟ محنتی اور فعال افسران کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے ۔خاص طور پر ان افسران کی جو مشکل علاقوں اور مشکل حالات میں محنت اور جذبے سے کام کرنے کے مشن پر گامزن ہیں ۔ایسے ہی ایک افسر ذیشان سکندر سے حالیہ دنوں میں ملاقات ہوئی جو تربت کے ڈپٹی کمشنر ہیں ۔میں ذیشان سکندر کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا لیکن تربت میں ان کی جانب سے اٹھائے گئے ان اقدامات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جو ان کی ذمہ دار ی بھی نہیں تھے۔تربت میں دو روزہ Employment Summit کا انعقاد ہوا۔جس کے کئی حصے تھے ۔ عالمی سطح کے ٹرینرز کو تربت بلا کر یونیورسٹی آف تربت کے سینکڑوں طلبہ و طالبات کی تربیت کا اہتمام کیا گیا۔بلوچستان کے باہر سے آیا ہر شخص ان طلبہ و طالبات کے سائنس پراجیکٹس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جنہوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آ کر اپنا کام نمائش کے لیے پیش کیا تھا۔بچوں کا یہ تخلیقی کام لاہور میں پچھلے دنوں منعقد ہونے والے سائنس میلے سے کسی طور کم نہ تھا فرق صرف یہ تھا کہ لاہور کے میلے کو میڈیا میں خوب کوریج ملی اور تربت تک میڈیا پہنچ نہ سکا۔لیکن تربت میں ہونے والی اس دور روزہ کانفرنس اور نمائش سے ایک طرف تو بلوچستان کے پر امن حالات کی عکاسی ہوتی ہے اور دوسری طرف بلوچستان کے باسیوں کی آنکھوں میں موجود چمک پورے پاکستان کے لوگوں میں حوصلہ پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے ۔اس لیے حکومت ، میڈیا اور دیگر اداروں کو ہر اس شخص کا بازو بننا چاہیے جو ان حالات میں بھی Initiative لینے سے نہیں گھبراتا اور جس کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کے لیے کام کرنا ہے ۔