گزشتہ کالم میں یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت اقتدار کی خواہش تھی یا مجبوری۔ حقیقت منکشف ہو چکی کہ پاکستان کے پہلے دو وزرائے اعظم خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کو 1951-55ء کے عرصے میں گھر بھیجنے والی فوج نہیں بلکہ بیورو کریٹ غلام محمد تھا۔ دوسرے بیورو کریٹ سکندر مرزا نے چار وزرائے اعظم چودھری محمد علی‘ حسین شہید سہروردی‘ آئی آئی چندریگر اور فیروز خان کی حکومتیں چلتی کیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی بیورو کریسی اس قدر طاقتور کیوں ہے کہ جب چاہے جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر گول کر دیتی ہے؟ اور عوامی طاقت سے اسمبلیوں میں آنے والے سیاست دان خود کو افسر شاہی کے سامنے بے بس پاتے ہیں اس سوال کا جواب جاننے کے لئے بیورو کریسی کے ڈھانچے اور نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ غالب نے کہا تھا: میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا پاکستان کی افسر شاہی اگر جمہوری حکمرانوں تک کو کسی خاطر میں نہیں لاتی اور ان کوغیر جمہوری انداز میں طاقت کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکنے کی طاقت رکھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ طاقت اس کی تعمیر میں موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بیورو کریسی کا جو نظام رائج ہے اس کو دور غلامی میں انگریز گورنر جنرل چارلس کارن ویلیس نے ہندوستان کو کنٹرول کرنے کے لئے 1793ء میں متعارف کروایا ہندوستان پر برطانیہ کی حکمرانی مضبوط کرنے کے لئے افسر شاہی جاگیرداروں اور الیکٹ ایبلز کا گٹھ جوڑاستوار کیا گیا۔ برطانوی راج نے ہندوستان میں لیفٹیننٹ جنرل چارلیس کارن ویلس کا لو نیل نظام کے مطابق بیورو کریسی کی بنیاد رکھی۔ کارن ویلیس کوڈ اینڈ پرماننٹ سیٹلمنٹ ایکٹ آج بھی سول سروسز میں پڑھایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد یہ 1861ء کے انتظامی ڈھانچہ اور 1934ء کی چند برائے نام تبدیلیوں کے ساتھ آج بھی رائج ہے۔ اس صورتحال میں ملک کی طاقتور بیورو کریسی کیونکر کم طاقت ور سیاستدانوں کی اطاعت پر آمادہ ہو سکتی ہے۔یہ بیورو کریسی کی لامحدود طاقت اور جاگیرداروں جن کی کثیر تعداد افسر شاہی کی مدد سے اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے‘ ہی تھی جس نے سکندر مرزا کو 1958ء میں مارشل لاء لگانے کی طاقت اور حوصلہ دیا۔ جس کی وجہ سے ایوب خان کو فوجی سربراہ رہتے ہوئے ملک پر حکمرانی کا موقع ملا۔ ملک پر حکمران جمہوری سیاستدان ہوں یا پھر فوجی آمر،ہر کسی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے بیورو کریسی کا سہارا ضرور لیا مگر بیورو کریسی کی سمت درست کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ یہ بیورو کریسی ہی ہے جو آج بھی عمران خان کی حکومت کے لئے مسلسل دردسر بنی ہوئی ہے اور حکومت اپنے منشور اور ایجنڈے کے مطابق ڈیلیور نہیں کر پا رہی۔ پٹرول کا بحران ہو یا آٹے کی قلت پاور ہائوسز کی لوٹ مار ہو یا مافیاز کی من مانیاں ان بد انتظامیوں کی ذمہ دار فوج نہیں بلکہ افسر شاہی ہے۔ عمران خاں حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سینکڑوں بیورو کریٹس تبدیل کئے مگر معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے جا رہے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ مسئلے کا حل کنویں سے پانی نکالنا نہیں بلکہ پہلے کتا نکالنا ہے حکومت جب تک پاکستان کی افسر شاہی اور الیکٹ ایبلز کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لئے بیورو کریسی کے نظام میں اصلاحات نہیں کرتی تو یونہی بحرانوں میں الجھتی رہے گی۔مسائل کا حل بیورو کریسی کے تبادلوں میں نہیں اصلاحات میں ہے۔ ایسی اصلاحات جن کے ذریعے کولونیل نظام کی بیورو کریسی میں جمہوری اور فلاحی ریاستی نظام کی روح پھونکی جا سکے اور اداروں کو ایک مربوط نظام کے تحت مضبوط کر کے عوام پر حکمرانی کے بجائے عوام کی خدمت پر مجبور کیا جا سکے۔ماضی میں پولیس نظام میں اصلاحات متعارف کروائی گئیں اب پولیس سیاسی مداخلت اور ضلعی انتظامیہ کے اثر سے آزاد ہو چکی ہے مگر بدقسمتی سے پولیس نظام میں اصلاحات اس لئے ثمر آور نہیں ہو رہیں کیونکہ پولیس کی افسر شاہی نے مداخلت سے آزادی تو حاصل کر لی مگر اپنے اندر احتساب کا مربوط نظام نہ بنا سکی۔ آج پولیس آزاد ہے مگر منہ زور بھی۔ برادرم عامر خاکوانی کے مطابق پاکستان کی بیورو کریسی ایک بہترین مشین ہے بشرطیکہ اس کو روانی سے چلانے کے لئے بروقت لبریکیٹ کیا جاتا رہے۔ ظاہر ہے یہ لبریکیشن اصلاحات اور احتساب کے سوا کچھ نہیں جب تک مربوط اور موثر اصلاحات کے ذریعے اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ بیورو کریسی کی من مانیاں جاری اور بحران سر اٹھاتے رہیں گے۔ اختیارات کے ساتھ ذمہ داری واحد اصول ہے جو افسر شاہی کو عوام پر حکمرانی کے بجائے خدمت پر مجبور کر سکتا ہے۔ احتساب سے ہی افسر شاہی میں ملک و قوم کی وفاداری کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا ہے آج وزیر اعظم کے غیر ملکی شہریت کے حامل مشیران اور معاونین خصوصی تختہ مشق بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے دانشور ہوں یا سیاستدان ہر کوئی ان کی ملک سے محبت اور وفاداری پر سوال اٹھا رہا ہے۔بلا شبہ غیر ملکی شہریت کے حامل افراد کی وفاداری پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں مگر کیا ملک کے تمام بحرانوں اور ناکامیوں کا ملبہ ان کے سر ڈالنا قرین انصاف ہو گا؟ مشیران اور معاونین خصوصی پر دوہری شہریت کے سنگ برسانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صرف معاونین خصوصی اور مشیران ہی نہیں اس ملک کی بیورو کریسی کے 22380اعلیٰ افسران بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں اگر 60مشیروں اور معاونین خصوصی کی وفاداری مشکوک ہے تو 22380بیورو کریٹ کیونکر ملک سے وفادار ہو سکتے ہیں۔ سعید احمد اختر نے کہا ہے: قحط نہ طوفان نہ کوئی خوف وبا کا اس دیس پہ سایہ ہے کسی اور بلا کا اس دیس پر افسر شاہی کی بلا کا سایا ہے جس کو تبادلوں کے جنتر منتر سے رفع کرنا ممکن نہیں بلکہ نظام میں اصلاحات کرنا ہوں گی اور یہ کام فوج کے کرنے کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور سیاستدانوں کا ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سیاسی اداروں میں موجود خلا کو پر کرنے کے لئے فوج آتی رہے گی کیونکہ یہ اس کی آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ آل احمد سرور نے کہا ہے: نہ جانے کیوں جنہیں سمجھتے تھے ہم فرشتے قریب آئے تو چہرے بدل گئے