دہائیوں کی بے حسی‘ نظام میں سرایت کرتی کرپشن کی دیمک،بددیانتی اور ناانصافی کے ناسور نے اس سارے نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ دہائیوں سے یہ ملک طفیلیوں کی زد میں رہا ہے۔ پاکستانی عوام اب جن کے لئے بھیڑ بکریوں کی اصطلاح استعمال کرنا مناسب نہیں،کہ بھیڑ بکریاں بھی کچھ وجود رکھتی ہیں چارہ مانگتی ہیں۔یہ پاکستانی عوام تو جیسے کیڑے مکوڑے ہیں۔ پائوں تلے روندے جائیں‘ کچلے جائیں تو خبر تک نہیں ہوتی۔ وطن عزیز میں غریب شہر کا حال اب کچھ ایسا ہے کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی۔ جعلی دوا سے موت‘ غلط انجکشن سے موت اور اگر موت سے بچ گئے تو پھر ایڈز ‘ہیپاٹائٹس اور دوسری جان لیوا بیماریوں کے ساتھ سسک سسک کر موت تک کی زندگی۔! جو کچھ لاڑکانہ میں ہوا۔ کیا دنیا میں ایسی ناانصافی اور ظلم کی مثال ملتی ہے کہ ایک ڈاکٹر پچاس بچوں کو ایڈز کا مریض بنا دے! غریب مائوں کے بچے گودیوں میں اٹھائے ہوئے‘ آنگنوں میں کھیلتے ہوئے‘ ایڈز کا شکار ہو گئے۔ ایک دو واقعات نہیں۔ پانچ‘ دس بھی نہیں‘ ابھی تک تو خبر ہے کہ کم و بیش پچاس غریب بچوں میں ایڈز کے وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ لاڑکانہ اور اس کے آس پاس کے قصباتی شہروں میں رہنے والی آبادی کے اگر خون کے ٹیسٹ کروائے جائیں تو تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ لاڑکانہ بھٹوز کا شہر ہے جسے کئی دہائیاں پہلے‘ پچھلی صدی میں‘ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی بار پیرس بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ لاڑکانہ کے بسنے والے خاک بسر‘ ان پڑھ دیہاتی سندھیوں نے اپنے سارے خواب بھٹو اور اس کے جان نشینوں پر وار دیے۔ بھٹو کے بعد ‘ بھٹو کی بیٹی بے نظیر کے قدموں میں اپنی ساری تمنائیں رکھ دیں اور پھر شہزادی بے نظیر سے‘ شہید بی بی تک‘ اپنی وفاداریاں نبھائیں۔ اب شہید بی بی کے صاحبزادے بلاول پر لاڑکانہ کی بوڑھی غریب مائیں صدقے واری جاتی ہیں لیکن ان کی قسمت کہ ان کے خواب ناتمام ہی رہے۔ آرزوئیں تشنہ اور تمنا بے تاب رہی۔ خاک بسر لاڑکانہ والے‘ غربت اور افلاس کے مارے ہوئے‘ بھوکے پیٹوں‘ جھوم جھوم کر جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے رہے۔ ان کی بنجرآنکھوں کے ویرانوں میں ہر دور کے بھٹو اور پھر ’’بھٹو زرداری‘‘ جھوٹے خواب سجاتے رہے۔ کل ذوالفقار بھٹو لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا خواب دکھاتے تھے تو آج بھٹو کا نواسہ لاڑکانہ والوں کو ہانکنے کے لئے یہی نعرہ لگاتا ہے کہ لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا وعدہ میں پورا کروں گا۔ اور لاڑکانہ کا حال یہ ہے کہ غربت اور بدانتظامی کی انتہا پر موجود اس شہر کی وجہ شہرت اب ایڈز کا مرض ہے۔آٹھ ماہ سے آٹھ سال کے بچے یہاں ایڈز کے مریض ہیں۔ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ایڈز کا مریض موجود نہ ہو۔ بھٹو کے لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں کی بھر مار کے حوالے سے تازہ ترین ہولناک خبر تو ابھی چند روز پہلے آئی ہے جہاں ایک ڈاکٹر نے مبینہ طور پر اپنے کلینک پر آنے والے مریض بچوں کو انجکشن کے ذریعے ایڈز کا وائرس منتقل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ڈاکٹر خود بھی ایڈز کا مریض ہے صرف ایک دو ہفتوں کے دوران پچاس بچوں میں ایڈز کے وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس موضوع پر پڑھتے ہوئے ایک رپورٹ میری نظر سے گزری ‘جو 2014ء میں چھپی تھی یعنی آج سے پانچ سال پہلے ‘جس میں لکھا گیا ہے کہ لاڑکانہ ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ کراچی کے بعد بھٹوز کا لاڑکانہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں اس موذی مرض کے سب سے زیادہ مریض ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ میں محکمہ صحت حکومت سندھ نے ایچ آئی وی سنٹر بھی قائم کیا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے اس سنٹر کا حال بھی وہی ہو گا جو یہاں کے بیشتر سرکاری اداروں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور دفاتر کا ہے۔ کرپشن کا راج‘ بددیانتی اور بے حسی کا رقص‘ بربادی ہی بربادی! 2014ء میں چھپنے والی اس ہوش ربا رپورٹ کے مطابق‘ لاڑکانہ میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد کم و بیش دو ہزار ہے۔ جبکہ غیر اندراج شدہ مریضوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ غیر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق ایڈز کے مریض صرف لاڑکانہ ڈسٹرکٹ میں پندرہ ہزار کے قریب ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ غربت اور افلاس کے مارے ہوئے ایڈز کے ان مریضوں کا مستقبل کیا ہو گا۔؟ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر میں ایڈز ایسی خوفناک بیماری کے ہزاروں مریض جبکہ علاج کے لئے سپیشلسٹ ڈاکٹر اور دوائیں وہاں کیا ملیں گی۔ جہاں سرکاری ہسپتالوں میں ڈھنگ کا کوئی جنرل فزیشن بھی دستیاب نہیں۔ مریض کی استعمال شدہ سرنج سے یہ بیماری سرعت سے دوسرے مریض تک پھیلتی ہے۔ اگر ابھی بھی حکومت سندھ اور محکمہ صحت سندھ کی آنکھیں نہ کھلیں اور اس کی روک تھام کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کرپشن سے پاک اقدامات نہ کئے گئے تو یہ بیماری دوسرے شہروں تک بھی آسانی سے پھیل جائے گی۔ سندھ میں موجود حکومتی بندوبست سے ایسی حسن کارکردگی کی توقع نہیں کیونکہ لاڑکانہ اور سندھ اگر اس برباد صورت حال تک پہنچا ہے تو اس کے بے حس کرپٹ بددیانت سیاستدانوں اور حکمرانوں کی وجہ سے۔! آج صورت حال یہ ہے کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ بھٹوز کے لاڑکانہ میں غربت زیادہ ہے یا ایڈز۔! بہرحال ایڈز ہو یا پھر غربت و افلاس کا ہیپاٹائٹس، بھٹو تو آج بھی زندہ ہے اور لاڑکانہ کو پیرس بنانے کے نعرے آج بھی لگ رہے ہیں۔